سورۃ البقرہ کی26ویں آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے: ’’اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی مثالیں دے۔ جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے اور جو ماننے والے نہیں ہیں وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی مثالوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں‘‘۔ اس آیت میں انسان کے لئے یہ دعوت پوشیدہ ہے کہ وہ معمولی نوعیت کے حشرات الارض کا مطالعہ اور ان پر تحقیق کرے اور یہ دیکھے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی کیا نشانیاں پوشیدہ ہیں۔ ہم عام طور پر مچھر کو بہت ہی معمولی، غیر اہم اور حقیر سا کیڑا سمجھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس کی بھی ایک اہمیت ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مچھر کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ عموماً مچھر کو خون چوسنے والا ایسا کیڑا سمجھا جاتا ہے جس کی خوراک ہی خون ہے۔ ایسا نہیں ہے، کیونکہ تمام مچھر خون نہیں چوستے۔ صرف مادہ مچھر خون پیتی ہے۔ علاوہ ازیں خون، مچھروں کی غذا بھی نہیں ہے۔ سائنسی مطالعات سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ نر اور مادہ، دونوں طرح کے مچھروں کی غذا، پھلوں کے رس پر مشتمل ہے۔ مادہ مچھر بھی صرف اس لئے خون چوستی ہے کیونکہ خون میں بعض ایسے پروٹین پائے جاتے ہیں جو اس کے انڈوں کی افزائش کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ بالفاظ دیگر، خون چوسنے کا مطلب نسل بڑھانے میں مدد لینا ہوتا ہے۔ مچھر میں نشوونما ، یعنی انڈوں سے لاروا بننے اور مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے بالغ مچھر بننے تک کا عمل بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ مادہ مچھر گرمی اور خزاں کے موسم میں نیم خشک پتوں یا جوہڑوں میں انڈے دیتی ہے۔ اس سے قبل وہ اپنے پیٹ کے نچلے حصے میں نصب حساسیوں کی مدد سے ارد گرد کی جگہ کا معائنہ کرتی ہے۔ مناسب جگہ مل جانے کے بعد وہ وہاں انڈے دینے لگتی ہے۔ یہ انڈے، جن کی جسامت ایک ملی میٹر سے بھی کم ہوتی ہے، قطاروں یا جتھوں کی شکل میں جمع ہوتے ہیں۔ بعض انواع ایک جیسی حالت میں اپنے انڈے جمع کرتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی شکل، لکڑی سے بنی ہوئی کشتی جیسی ہو جاتی ہے۔ انڈوں کے ایک جتھے میں بسا اوقات300یا اس سے زیادہ انڈے بھی جمع ہو جاتے ہیں۔ قریب قریب رکھے ہوئے یہ انڈے کچھ ہی دیر بعد گہری رنگت اختیار کرنے لگتے ہیں اور چند گھنٹوں میں بالکل سیاہ ہوجاتے ہیں۔ اس سیاہ رنگت کی بناء پر یہ انڈے دوسرے کیڑے مکوڑوں اورپرندوں کی نگاہ سے بچے رہتے ہیں۔ انڈوں کے علاوہ (مچھر کے)لاروا کی سطح کا رنگ بھی گردوپیش کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے اور اسے تحفظ فراہم کرتاہے۔لاروا میں رنگ کی تبدیلی، پیچیدہ کیمیائی تعاملات کی مرہون منت ہے۔ کوئی انڈہ یا لاروا بذاتِ خود، اور انڈے دینے والی مادہ مچھر ،کسی کو نشوونما کے مختلف مراحل کے دوران رنگت میں تبدیلی کی خبر نہیں ہوتی۔یہ امر قطعی طور پر خارج ازامکان ہے کہ مچھروں نے مذکورہ نظام ازخودتشکیل دیا ہوگا، کیونکہ مچھروں کو روزِاول سے اسی نظام کے ساتھ تخلیق کیا گیا ہے۔جب انڈوں کی مدت پوری ہوتی ہے تو ان میں سے لاروے باہر نکلنے لگتے ہیں۔ یہ لاروے جنہیں مسلسل خوراک ملتی رہتی ہے، بڑی تیزی سے نموپذیر ہوتے ہیں اور کچھ ہی دیر بعد ان کی جلد بہت سخت ہوجاتی ہے۔ اس وجہ سے وہ مزید افزائش حاصل نہیں کر پاتے ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جلد میں پہلی نمایاں تبدیلی کا وقت آپہنچا ہے۔ اس مرحلے میں سخت اور بے لچک جلد بہ آسانی ٹوٹ جاتی ہے۔ مچھر کے لاروے اپنی نشوو نما مکمل کرنے سے پہلے اپنی جلد کودومرتبہ اور تبدیل کرتے ہیں۔ لاروے کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ بھی حیرت انگیز ہے۔وہ اپنے جسم سے منسلک پروں جیسی دوساختوں کو حرکت دے کر پانی میں چھوٹے چھوٹے سے بھنور پیدا کرتے ہیں جن کی وجہ سے جرثو مے اور دوسرے خرد بینی جاندار ان کے منہ کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔لاروے کا نظام تنفس جسم کے نچلے حصے میں(یعنی پانی کے اندر)واقع ہوتاہے۔ سانس لینے کے لئے یہاں سے بار یک نالیاں نکل کرپانی کی سطح پر جاتی ہیں،جیسے کوئی غوطہ خور پانی میں سانس لینے کے لئے ٹیوب استعمال کرتا ہے۔ان ٹیوبوں کے بیرونی سروں سے گاڑھا سیال مادہ نکلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے پانی اندرداخل نہیں ہوتا،صرف ہوا آتی ہے۔ ٹیوب اور سیال مادے کے اخراج کے بغیر لاروے کا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔ لاروے اپنی جلد ایک بار پھر بدلتے ہیں۔ یہ آخری تبدیلی،دوسری تبدیلیوں سے خاصی مختلف ہوتی ہے۔اس مرحلے پر لاروا اپنی پختگی کے آخر ی یعنی ’’پیوپا مرحلے‘‘(pupal stage )میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ خول جس میں لاروا بند ہوتا ہے،اور بھی سخت ہوجاتاہے۔یعنی اب لاروا کے اس خول سے باہر نکلنے کا وقت آگیا ہے۔خول سے باہر نکلنے والی مخلوق دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ ایک ہی جاندار میں نشوو نما کے دو مختلف مراحل ہیں۔یہ مچھر میں افزائش کا آخری مرحلہ ہے جس میں تنفسی نالیاں بند ہوجاتی ہیں۔لیکن اسی کے ساتھ سانس لینے کے لئے دونئی ٹیوبیں وجود میں آتی ہیں جو جلد میں تبدیلی سے پہلے ہی پانی سے باہر آچکی ہوتی ہیں۔اب پیوپا (pupa )کے ریشم جیسے غلاف میں ملفوف مچھر بالغ ہوچکا ہے۔ اس کے تمام اعضائے جسمانی مکمل ہوچکے ہیں اور وہ اڑنے کے لئے تیار ہے۔ اب پیوپا کا غلاف اوپر کی جانب سے پھٹتاہے۔کیونکہ یہاں بھی پانی کا رسنا(leakage )سب سے بڑا خطرہ ہے لہٰذا ریشمی غلاف میں بھی خاص طرح کا گاڑھا مائع موجود رہتا ہے جو مچھر کے سر کو پانی سے بچائے رکھتا ہے۔ یہ موقع بڑا اہم ہے کیونکہ ہلکی سی ہوا بھی نوزائیدہ مچھر کو پانی میں گراکر مار سکتی ہے۔مچھر خود ہی اس طرح حرکت کرتاہے کہ صرف اس کے پیر ہی پانی کی سطح کو چھورہے ہوتے ہیں۔اور یوں وہ اپنی پہلی اڑان بھرتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مچھر نے اتنی پیچیدہ کیمیائی،حیاتیاتی، طبعی اور طبیعی صلاحیتیں کیسے حاصل کرلیں ؟ کیا اس نے خود سب باتوں کی تحقیق کرکے اپنے لئے موزوں ترین اور مرحلہ وار نظام تخلیق کئے؟ یقیناًایسا نہیں ہے۔ مچھر بھی اللہ تعالی کی دیگر مخلوقات کی طرح ’’تخلیق ‘‘ کیا گیا ہے اور یہ ساری صلاحیتیں اسے اپنے رب کی جانب ہی سے عطا کی گئی ہیں۔ مچھر، یا اس سے بھی حقیر جاندار کی مثال دینے کا مقصد انسان کو شر مسار کرنا اور صحیح راستے کی طرف بلانا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ان آیات کو پڑھ کر صرف وہی گمراہ ہوگا جو گمراہ رہنے کا خواہش مند ہوگا۔ سچ کی تلاش کرنے والے اس سچائی کو بخوبی پہچان لیں گے۔