جسطرح لڑائی جھگڑا اور اختلافات مسلمانوں کو روحانی طور پر کمزور کرتے ہیں، بلکل اسی طرح اتحاد اور بھائی چارہ انہیں مضبوط کرتا ہے۔ مثال کے طور پر، غیر مذہبی نظریوں کا خاتمہ صرف مسلمانوں کے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔
البتہ جو چیز مومنوں کی یونین کو مضبوط بناتی ہے وہ انکا یقین اور انکی ایمانداری ہے۔ صرف مستند اور سچا یقین ہی سچی دوستی اور ملاپ کو پیدا کرسکتا ہے۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے سے سچے دل کے ساتھ محبت کرنی چاہئیے اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے بغیر کسی ذاتی مفاد کے۔ ایک یونین جسکی تعمیر مضبوط بنیادوں پر ہو جو انسان جانتا ہے- اللہ کا ڈر اور اللہ سے محبت- کبھی بھی ریزہ ریزہ نہیں ہو سکتی، اگر اللہ نہ چاہے تو۔ مندرجہ ذیل آیت میں اللہ نے اشارہ دیا کہ کامیابی جماعت کے حجم پر نہیں۔
لیکن اللہ تعالیٰ کی ملا قات پر یقین رکھنے والوں نے کہا بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جما عتیں اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں ، اللہ تعالیٰ صبر والوں کے ساتھ ہے۔سورۃ البقرۃ ۲۴۹
یقین اور لگن کی بنیادوں پر تعمیر کی گئی اسلامک یونین مسلمانوں کو کامیابی کے لیے ضروری جوش و خروش اور طاقت مہیّا کرتی ہے۔ ایک دوسری آیت میں اللہ نے بیان کیا کہ اگر چہ منکر متحد نظر آتے ہیں مگر وہ سچےّ اتحاد کو نہ حاصل کرسکے۔
انکی لڑائی تو آپس میں ہی بہت سخت ہے گو آپ انکو متحد سمجھ رہے ہیں لیکن انکے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں ۔ اس لیے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔سورۃ الحشر ۱۴
قطع نظر کہ، یونین کتنی مضبوط نظر آتی ہو، حقیقت میں بہت ہی غیر مستحکم ہوتی ہے اگر اخلاص اور صحیح نتیّت کی بنیادوں پر تعمیر نہ ہوئی ہو، جسکا مطلب ہے وہ مختلف مفادات پر بنیاد کرتی ہے۔ اور جب کبھی کسی مفاد کو خطرہ ہوتا ہے، یونین تیزی کے ساتھ ٹوٹ جاتی ہے۔ اللہ نے اس راز کے بارے میں قرآن میں بتایا، مسلمانوں کی یونین دنیاوی نقصانات کی وجہ سے کمزورنہیں پڑتی، بلکہ، مضبوط ہوتی ہے۔ یہ فہم یونین کو بہت مضبوط بناتا ہے۔ عظیم اسلامی اسکالر سید نورسی مندرجہ ذیل مثال کو استعمال کرتے ہیں یہ سمجھانے کے لیے کہ کیوں مخلص مسلمانوں کی بنائی ہوئی یونین مضبوط ہوتی ہے۔
لہذا ہمیں ایک سچی یونین اور بھائی چارہ کی یقینی طور پر ضرورت ہے، جوکہ اخلاص کی بنیادوں پر حاصل کی گئی ہو۔ چار انفرادی شخص اگر صحیح اخلاص کو حاصل کریں تو وہ ایک ہزار ایک سو گیارہ لوگوں کی اخلاقی طاقت کے برابر ہیں۔ بیشک، اسکو حاصل کرنے کے لیے ہم مجبور ہیں۔
اگر چار چار کے چار گروپ ہوں تو یہ سولہ بنتے ہیں۔ مگر اگر بھائی چارہ، مشترکہ منزل مقصود اور فرض کے تحت ایک دوسرے سے متحد ہوتے ہیں، ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ ایک قطار کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں تو انکی طاقت چار ہزار چار سو چوالیس کے برابر ہوتی ہے۔ جیسا کہ بہت سے تاریخی واقعات ثابت کرتے ہیں سولہ قربانی دینے والے بھائیوں کی اخلاقی طاقت چار ہزار دوسرے عام لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے۔
اس اصول میں پائی جانی والی وجہ یہ ہے: ایک سچّی اور مخلص یونین میں پایا جانے والا ہر فرد ، یونین میں پائے جانے والے دوسرے افراد کی آنکھوں سے بھی دیکھتے ہیں اور انکے کانوں سے بھی سنتے ہیں۔ اسکا مطلب کہ ایک دس لوگوں کی سچی یونین میں موجود ہر فرد بیس آنکھوں سے دیکھنے کی طاقت رکھتا ہے، دس دماغوں سے سوچتا ہے، بیس کانوں سے سنتا ہے، اور بیس ہاتھوں سے کام کرتا ہے۔(بید الزمان نورسی، رسالہ نور کلیکشن، ٹوئینٹی فرسٹ فلیش، یور سیکنڈ رول)