پٹنی، تھائی لینڈ سے ملحق ایک خود مختار علاقہ، میں مسلمانوں پر ظلم و ستم اور تشدد سے دنیا میں بہت کم لوگ آشنا ہیں۔ مگر جنوب مشرقی ایشیا کے اس ذرخیز اور دولت سے مالا مال علاقے میں مسلمانوں پر یہ ظلم تقریبا ۲۰۰ سالوں سے ہو رہا ہے۔
پٹنی کے مسلمانوں پر اس ظلم و ستم کی شروعات ۱۷۸۲ میں راما کے شاہی خاندان کے پٹنی میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہوئی۔ اس شاہی خاندان نے بنکاک کو دارلخلافہ بنایا اور ایک مرکز سے ملکی نظم و نسق کو چلانے کی بنیاد ڈالی۔ یہ وہ وقت تھا جب پٹنی کے مسلمانوں اور وہاں کے مقامی باشندوں جو کہ سیامیز کہلاتے ہیں کے درمیان اختلافات شروع ہوئے۔ ان اختلافات کے دوران پٹنی کے بہت سے قصبہ جلا دیئے گئے اور تباہ کر دیئے گئے، آرمی کی حفاظتی چوکیوں کو تباہ کر دیا گیا اور سیامیز نے ۴۰۰۰ پٹنی مسلمانوں کی یرغمال بنا لیا۔
اسلامی یونین کے قیام میں دیر کرنا جب کہ تھائی آرمی پٹنی میں مساجد پر حملے کر رہی ہو اور مسلمان نماز کی حالات میں شہید ہو رہے ہوں، جب مسلمانوں کو بے رحمی سے شہید کر دیا جاتا ہو اور مردوں، عورتوں ، بچّوں اور بوڑھوں میں کوئی تمیز نہ کی جاتی ہو، جب مسلمانوں کو نماز کی حالت میں سر میں گولی ماری جاتی ہو اور ایسا اظہار کیا جاتا ہو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، یقینا اللہ کی نظر میں ایک بہت بھاری بات ہے۔
سیامیز نے یرغمال مسلمانوں پر خوفناک حد تک تشدد کیا۔ انہوں نے ایک جنگلی جھاڑ سے بنی مضبوط سوئی کے ذریعہ انکے کان انکی ٹانگوں کے ساتھ سی دئیے۔ جن مسلمانوں پر یہ بھیانک تششد کیا گیا انکو بنکاک لایا گیا اور غلام بنا کر ان سے بغیر کسی اوزار کے خندقیں کھدوائیں گئیں۔ سیامیز نے لڑائی کے اختتام پر پٹنی کے سلطان کو وحشیانہ انداز میں قتل کر دیا گیا۔ جنگ کے بعد، تھائی لینڈ نے پٹنی کو ۷ علاقوں میں تقسیم کر دیا اور مسلمانوں کو اگلے ستّر سالوں کے لیے سیامیز کے تسلّط میں دے دیا اور انکو ٹیکس دینے پر مجبور کیا۔
۱۹۰۹ میں سیامیز نے پٹنی کو ایک فرضی آزاد ریاست کا نام دے دیا، مگر تھائی انتظامیہ کی طرف سے ظلم و ستم اسی رفتار سے جاری رہا جیسا کہ پہلے تھا۔ پٹنی کے مسلمان بار بار مکمل آزادی کے لیے کھڑے ہوئے مگر ہر دفعہ بے رحمی سے انکو دبا دیا گیا۔ اس وقت بڑے پیمانےپر ملیشیا کی طرف ہجرت ہوئی۔
تھائی انتظامیہ نے پٹنی کے مسلمانوں کی اسلامی شناخت کو ختم کرنے کے لیے دباوَ اور تبدیلی کی پالیسی اختیار کری۔ پہلا قدم جو ۱۹۳۲ میں اٹھایا گیا وہ مسلمانوں کے تعلیمی اداروں پر پابندی عائد کی۔ ۱۹۴۴ میں پٹنی کے مسلمانوں کے لیڈر اور انکے خاندانوں کو بدھ مذہب کے ماننے والوں کے ذریعے بے رحمی سے قتل کرنے کی باقاعدہ مہم شروع کی گئی۔ اسلامی قوانین کو ماننا یا اسلامی عبادات کو کرنے کو ممنوع قرار دے دیا گیا اور بدھ مذہب کے قوانین کو لوگوں پر مسلّط کر دیا گیا۔ بدھ ازم کو زبردستی اسکولوں میں پڑھایا جانے لگا اور یہاں تک کہ مسلمان طالب علموں کو بدھ ازم پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔
تھائی فوجیوں نے پٹنی کے نوجوان مسلمانوں کو پکڑا ہوا ہے، انکو زمین پر ننگا لٹا کر انکے ہاتھ پیچھے کرکے انمیں ہتکڑی پہنائی۔ پٹنی کے لوگ جو کہ ۱۵ صدی عیسوی سے مسلمان ہیں ہر روز بہت ہی ظلم اور تشدد کا شکار ہیں۔
پٹنی کی انتظامیہ نے مختلف اوقات میں مسلمانوں کے اجتماعی قتل کے جرم کا بھی ارتکاب کیا۔ ۱۹۴۴ میں صرف بالکر سمک کے علاقے میں ۱۲۵ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ تھائی انتظا میہ کی ضم کرنے کی پالیسی زندگی کے ہر شعبہ میں انکی عکاسی کرتی ہے۔ پٹنی میں بہت ساری مساجد کو گرادیا۔
دوسری طرف اسی ضم کرنے کی پالیسی کے تحت بدھسٹ کو پٹنی ہجرت کرنے کی طرف تلقین کی گئی اور آمادہ کیا گیا اور آبادی کے نسلی توازن کو تبدیل کیا گیا۔ سب سے بڑا بدھا کا مجسمہ پٹنی میں قائم کیا گیا۔ مسلمان آبادی کو اس مجسمہ کی پوجا کے لیے مجبور کیا گیا۔ جنہوں نے انکار کیا انکو شہید کر دیا گیا اور انکو کوٹا دریا میں ڈال دیا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں پٹنی کے لوگ غیر انسانی تشدد کا شکار ہوئے۔ تھائی انتظا میہ کی طرف سے قائم کیے گئے صحت کے اداروں میں قابل احترام مسلم علماء کو شہید کی گیا اور اغوا اور قتل پٹنی کے لوگوں کے لیے روز مرّہ کا معمول بن گیا۔
آج، مسلمان پٹنی میں ہر قسم کے سیاسی اور ثقافتی حقوق سے محروم ہیں جہاں پر پچاس لاکھ کی مسلمانوں کی آبادی ہے۔ روزانہ کے اعتبار سے اس آبادی پر تھائی فوجی حملے کرتے ہیں۔ پٹنی کے مسلمانوں سے اطلاعات کے مطابق، تقریبا ۷ سے۸ پٹنی مسلمان روزانہ تھائی فوجیوں کے ہاتھوں شہید کیے جاتے ہیں۔ جو شہید نہیں ہوتے انکو کیمپس میں لے جایا جاتا ہے یا بلکل غائب کر دیا جاتا ہے اور دوبارہ انکی کوئی خبر نہیں آتی۔ بہت سارے لوگوں کو انکے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور جو ہجرت کرنے سے انکار کرتے ہیں انکو شہید کردیا جاتا ہے۔ پٹنی میں تیس ہزار بیوائیں اور چالیس ہزار یتیم بچّے ہیں، جہاں پر زیادہ تر عورتوں کی عصمت دری کی گئی، مساجد کو گرا دیا گیا، اور مسلمانوں کو اذیت دینے کے لیے انکے گھروں میں اور کام کرنے کی جگہوں میں سوّر چھوڑ دئیے گئے۔ پچھلے تین سالوں سے لگے مارشل لاء کے دوران ۴۰۰ لوگ غائب کر دئیے گئے، تقریبا دو ہزار تین سو کو شہید کردیا گیا اور چار ہزار کو غیر قانونی طور پر قید کر لیا گیا۔ تقریبا تیس ہزار کے قریب لوگ کیمپس میں قید ہیں۔ ان کیمپس کے حالات جو بتائے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
زیادہ تر قیدی ننگے بدن ہیں اور انکے جسموں پر تشدد کے نشانات ہیں، اور پٹنی کے قیدی بہت تھکے مانند ، کمزرو اور غمزدہ نظر آتے ہیں۔ اسکے علاوہ فوجیوں نے انکے جسم پر نمبر لکھے ہیں۔ جب کبھی فوجیوں کو کسی قیدی کو بلانا ہوتا ہے تو وہ اسکو نام کے بجائے اس کے نمبر سے بلاتے ہیں۔ پٹنی کی خواتین قیدیوں کو عام طور پر گولاوَ گاوَں کے قریب کیمپ میں رکھا جاتا ہے، جسکا الحاق ناراٹیوا سے ہے۔ پٹنی کے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کیمپس میں موجود خواتین جنکی تعدا د سو کے قریب ہے، کی ایک منصوبے اور نظام کے تحت عصمت دری کی جاتی ہے۔
مسلمانوں کے لیے اسلامی نام رکھنے پر پابندی ہے، بہت سوں کو واہیات نام رکھنے پر مجبور کیا گیا۔ مواصلاتی نظام پر پابندی کے باعث ہمارے پٹنی مسلمان بھائیوں کے لیے ان تمام ظلم وستم کے بارے میں دنیا کو بتانا بہت مشکل ہو گیا۔ غیر ملکی اخباری رپورٹر کو علاقے میں داخلے یا تصاویر لینے کی اجازت نہیں، جبکہ انٹرنیٹ کے استعمال پر لوگوں کے لیے سخت پابندیاں عائد ہیں۔
تھائی انتظامیہ کی طرف سے تیس ہزار مسلمان کیمپس میں قید ہیں۔تھائی فوجی انکے جسموں پر نمبر لکھتے ہیں اور انکو ان نمبروں سے پکارتے ہیں۔ مسلمان جس قسم کے ظلم و ستم سے دو چار ہیں وہ انکے جسموں پر پائے جانے والے زخموں کے نشانوں سےظاہر ہے۔
یہاں تک کہ عورتیں اور بچّے بھی ان کیمپس میں قید ہیں۔ مسلمان دنیا کے لیے اتحاد کی سخت ضرورت ہے اگر وہ ان معصوموں پر ظلم و ستم کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
ہمارے پٹنی مسلمان بھائیوں کو کس قسم کی جدو جہد کرنی چاہئیے؟
اسلامی دنیا میں بہت سارے مسلمان پٹنی میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے نا آشنا ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پٹنی بھائی بہت ہی مشکل حالات میں اپنے بچاوَ کی کوشش کر رہے ہیں۔ البتہ یہاں یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے پٹنی بھائیوں کو ان تمام حالات کے باوجود وہ رد عمل ظاہر کرنا ہے جو قرآن سے اور سنّت رسول صل اللہ علیہ وسلم سے مطابقت رکھتا ہے۔ فساد کی بنیاد پر رد عمل جو کہ ڈارونسٹ، مادہ پرستی، اور کمیونسٹ سوچ کے اثر کی وجہ سے ہے بلکل قرآن کے مخالف ہے اور اللہ کبھی بھی اس قسم کے ردّ عمل کو کامیابی عطا نہیں کرتا۔ جھگڑا فساد دوسرے بہت سے فساد کی پیدائیش کا سبب بنتا ہے، اور فساد کی بنیاد پر ردعمل ہمارے پٹنی بھائیوں کو اور فساد میں مبتلا کردیگا۔ ہمارے پٹنی بھائیوں کی جائز جدوجہد کو جبھی کامیابی ملے گی جب اسلحہ کی بنیاد پر جدو جہد کو عقلی اور تعلیمی جدوجہد سے تبدیل کر دیا جائے اور اسکو ایک مضبوط تعلیمی نظام سے سہارا دیا جائے۔ لہذا پٹنی کے بھائیوں کو فوری طور پر ایک ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، تہذیب یافتہ ہو، قوانین پر عبور رکھتی ہو، سیاست اور عالمی پالیسی سے واقفیت رکھتی ہو اور جو قرآن کی اخلاقی قدروں کے مطابق عمل کرتی ہو۔
یقینا پٹنی کے اندر ہی ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ موجود ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو صحیح طور پر ان حالات سے آ گاہی ہو اور صحیح رہنمائی ہو، اور وہ دنیا کی نظروں میں پٹنی کے حالات لے کرآئیں اور اس کے لیے کام کریں۔ یہ اعمال پٹنی کے لوگوں کو جگانے یا اسلامی اقدار کو بحال کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرینگے، بہترین طریقے سے پٹنی تحریک کے بارے میں دنیا کو بتانے سے مستقبل میں انکے تعلیمی معیار اور ثقافت کو ترقی ہوگی۔ لہذا ہمارے پٹنی بھائیوں کے لیے یہ بہت ہی اہم ہے کہ وہ اپنے آپ کو ثقافتی طور پر تعمیر کریں اور ڈارونسٹ، مادہ پرستی اور کمیونزم کے خلاف جدوجہد کریں۔
ہر مسلمان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے پٹنی بھائیوں کی انکے حقوق کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں۔
پوری اسلامی دنیا پر یہ ذمہ دار عائد ہوتی ہے کہ وہ جدو جہد کریں ان غریب عورتوں کے لیے، بچّے اور بوڑھے جو پٹنی میں قید ہیں، اس ہونے والے تشدد کے لیے، ان مسلمانوں کے لیے جنکی عبادت گاہیں تباہ کر دی گئیں، ان معصوم لوگوں کے لیے جن سے کیمپس میں بے رحمی کے ساتھ مزدوری کے کام لیے گئے۔ اللہ سورۃ نساء کی آیت نمبر ۷۵ میں بتاتا ہے کہ یہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ ان لوگوں کے لیے جدوجہد کریں جو مشکل میں ہے۔
بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہیں ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہما رے لیے خود اپنے پاس سے ہمایتی مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مدد گار بنا۔ (سورۃ نساء ۷۵)
سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ پٹنی کے لوگوں کے حقوق کے لیے کام کریں اور یہ بھی، اگر اللہ کو منظور ہوا، بہت با اثر، مسلمانوں کے اتحاد کے لیے کوشش کریں۔ جب دیڑھ بلین کی مسلمانوں کی آبادی متحد ہوگی، جب وہ ایک ہو کر کام کریں گے، تب پٹنی، برما، فلسطین، عراق اور کسی بھی جگہ مسلمان کے ایک بال کو بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ مگر اگر اسلامی دنیا متحد نہیں ہوتی جیسا کہ ابھی ہے، تب ان تکالیف اور پریشانیوں کا کبھی بھی خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کو علاقائی، نسلی، زبان اور مذہبی بنیادوں پر ابھرنے والی تفریق کو ہر حال میں روکنا چاہئیے اور ان عناصر کو تفریق نہیں سمجھنا چاہئیے۔ تمام مسلمان، شیعہ، سنّی، علوی، جعفری، وہابی کواس علم کے ساتھ کام کر نا چاہئیے کہ سب بھائی بھائی ہیں۔
ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک مسلمان کے لیے بلکل ناقبل قبول ہے کہ دوسرے مسلمان کو چھوڑ دے جب وہ مشکل میں ہو۔ جب پٹنی کے مسلمان تشدد کے ان حالات سے دو چار ہوں اور اپنی آواز بھی دوسروں تک پہچانے کے قابل نہ ہوں، جب روز افغانستا ن، عراق، ایسٹ ترکستان، فلسطین میں خون بہایا جا رہا ہو، اور جب ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مدد کے منتظر ہوں تو مسلمانوں کو اپنے اختلافات میں وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جانا چاہئیے ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح۔ اللہ نے یہ ایک مذہبی فرض بتایا ہے۔ اور تمام مسلمانوں کو اس فرض سے آگاہی ہونی چاہئیے۔
اس مضمون میں پائی جانے والی تصاویر یہ بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کو ترکش اسلامک یونین کے قیام میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں کرنی چاہئیے۔ اگر اللہ نے چاہا، جب ترکش اسلامک یونین کا قیام ہوگا، جیسا کہ ساری دنیا میں خوشیاں آجائیں گی ،پٹنی میں بھی خوشیاں آ جائیں گی جو ایک وقت میں سلطنت عثمانیہ کا صوبہ تھا۔ پٹنی کے لوگ جو سلطنت عثمانیہ کے وقت کا انتطار کرتے ہیں، تب وہ امن و امان، تحفط، آرام اور آزادی، اور جو آسانی وہ چاہتے ہیں، کے ساتھ رہیں گیں۔