جب ایک ایمان والا اس بات سے واقف ہوتا ہے کہ اسکا امتحان لئا جا رہا ہے تو وہ حالات کو مستقبل کی نظریئے سے دیکھتا ہے۔مگر ’حالات کو مستقبل کی نظریئے سے دیکھنے‘ کا مطلب کیا ہے؟
انسان کے سامنے چاھے کتنی ہی بڑی مشکللیں یاں پریشانیاں کیوں نا ہو ،لیکن وہ وقتی طور پر ہوتی ہیں۔
مثلا شاید کسی پر جرم کا جھوٹا الذام لگا ہو اور وہ ناانصافی کا شکار ہوا ہو۔مگر ایک وقت ایسا ضرور آے گا کہ جب سچ ظاھر ہو جاے گا۔اگر کسی انسان کی تکلیف اس دنیا میںختم نا بھی ہوتب بھی اس پر کی گئ ذیادتی کے ذمے دار لوگ آخرت کے روز اپنے گناہوںکی پوری سزہ پائیںگے۔اسی طرح جس شخص کے ساتھ ناانصافی ہوئ ہو وہ آخرت میں اپنے صبر کےبدلے بہترین جذا کی امید رکھ سکتا ہے۔وقت گزرتےٴبلکل دیر نہیں لگتی اور باقی تمام چیزوں کی طرح یہ کیفیت حالات بھی اپنے اختتام کوپہنچ جاتی ہے۔قرآن مجید میں اس بات کا زکر ہے کہ ایمان والوں کیلیئے مشکل کے ساتھ آسانی ہے
‘ہاں (ہاں) مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے۔(5)اور بیشک (6)مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے
الانشراح
۔مسلمان اپنے مالک کے لامتناہی انصاف پر توکل رکھتا ہے ،تکلیف کے بعد آنے والی آسانی کا منتظر ہوتا ہے ؛اور کبھی بھی کسی بھی حال میں ناامیری کا شکار نہیں ہوتا۔وہ اس بات کو یاد رکھتا ہے کہ اس دنیا میں جو مشکلات جھیل رہا ہے آخرت میں وہی مشکلات اسکے لیئے مسرت بن ظاھر ہوں گی۔اس رازکا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ وہ ہرچیز کو اللہ پر توکل, عاجزی اور رجوع کےساتھ دیکھتا ہے ۔ہمیں ہر گز نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ انداز فکر صرف ان لوگوں کا ہوتا ہے جو خدا پر یقین مستحکم رکھے ہیں۔وہ جو اپنی تقدیر کو پوری طرح تسلیم کرتے ہیں ۔یہی لوگ اس احساس کو سمجھ سکتے ہیں۔
اسکےبرعکس وہ لوگ جو مزہب،دین وغیرہ ک پرواہ نہیں کرتے وہ ناامیر،خوف اور تناو کا شکار ہو جاتے ہیں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ تقدیر کو تسلیم نہیں کر پاتے اور یہ سوچ لیتے ہیںکہ انکے لیئے نجات حاصل کرنے کا کوئ سبب نہیں ہے۔ایسے لوگوںکو آخرت کی زندگی سے کوئ امیدیں یاں توقعات وابستہ نہیں ہوتی اسلئیے ایسے لوگ ہمیشہ بےسکون اور پریشان رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کی زہنی کیفیت ان آیات میں بیان کی گئی ہے
‘تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کیلیئے کھول دیتا ہےاور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ اور گھٹا ہوا کر دیتا ہے۔گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے۔اس طرح خدا ان (125)لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے عزاب بھیجتا ہے
الانعام
ان آیات میں بیان کردہ پریشان ذہنی کیفیت
وہ خود کو دی ہوئ چوٹ
ہے جو تقدیر کو تسلیم نہ کرنے سے پھوٹتی ہے۔خدا ہر چیز جاننے والا ،ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ،انسان کی تقدیر بناتا ہے۔ مگر کمزور ایمان والے لوگ یاں وہ لوگ جو ایمان نہیں رکھتے وہ اس نعمت کی قدروقیمت کو سمجھنےسے محروم رہتے ہیں ۔اس لیئے یہ لوگ تقدیر پر توکل کرنے سے محروم رہتے ہیں اور اپنے آپ کو گمراہ کرتے ہیں
‘خدا تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیںکرتالیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتےہیں‘سورت یونس آیت 44
خود کو دی ہوئ