· ایمان کی کمزوری پر قابو پانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
· آج کےمعاشروں پر ایمان کی کمزوری کے کيا تباہ کن اثرات پڑ رہے ہيں؟
· عقیدے کی کمزوری اوراِس مسئلے پر قابو پانے کی تجاویز کے بارے میں جناب عدنان آکٹر کے خیالات کيا ہیں؟
اللہ تعالی نے قرآن پاک میں دو اہم نکات کی طرف توجہ مبزول کرایٔ ہے. ان میں سے ایک لوگوں میں ایمان کی کمزوری ہے. اللہ نے قرآن پاک میں وضاحت کی ہے کہ لوگوں کی اکثریت کی حقیقی روحانی بیماری اللہ پر ايمان لانے یا اس کی کافی تعریف نہ کرنے کی وجہ نہيں ہے بلکہ:
"صرف اس صورت میں اگر ہميں ایک دوسرا موقع مل جاۓ تو ہم مومنوں میں سے ہونگے!" اس بات ميں یقینی طور سے ایک نشانی ہے، لیکن ان میں سے اکثر ايمان نہیں رکھتےہیں. "(سورت الشعرا، 102-103)
لوگوں کی اکثریت ایمان کی کمزوری میں مبتلا ہے، اور ہمارے رب نے قرآن میں ایمان کی اہمیت پر بہت توجہ دلایٔ ہے:
"وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ايمان رکھتے ہیں، اور حق کا حکم ديتے ہيں اور غلط باتوں سے منع کرتے ہيں، اور اچھے کام کرنے میں مقابلہ بازی کرتے ہين. وہ صالحین میں سے ہیں "(سورہ ال عمران، 114).
دوسری بات جسکی طرف اللہ تعالی قرآن پاک میں توجہ دلاتا ہے وہ اسلام کی یونین ہے. ایک آیت میں، ہمارے رب تعالی نے اسلام کی یونین کی اہمیت کے بارے ميں يوں فرمايا ہے:
"اللہ تعالی نے ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہيں اور صحیح اعمال کرتے ہیں وعدہ کيا ہے کہ ان کو زمین میں جانشین مقرر کرديگا جيسا کہ اس نے پہلے لوگوں کو جانشین بنايا، اور ان کے لیے بھر پور طریقے سے ان کے مذہب کا جس سے وہ خوش ہے قائم کريگا اور انہيں خوف کی جگہ امن عطا کريگا۔ 'وہ میری ہی عبادت کریں، میرے ساتھ کسی کو منسلک نہ کريں.' کوئی بھی جو اس کے بعد کفر کریں، ایسے لوگ گمراہ کن ہیں ... "(نور، 55)
تاہم، کچھ لوگ ان دو اہم نکات سے لا علمی کا اظہار کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہيں کہ اصل نقطہ جس پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے اسلام کے احکام کا ہے. لیکن، سب کچھ اسلام کے احکام کے بارے میں جاننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شخص ایک بہت مضبوط ایمان رکھتا ہے. اسلام کے احکام نماز، وضو اور دیگر مذہبی رسومات کے بارے ميں تفصیلی وضاحت شامل کرتے ہیں. تاہم، یہ معلومات ایک شخص کو واقعی وفادار بنانے کے لئے کافی نہیں ہيں.
مذہبی مشاہدات کو خوشی اور حوصلہ افزائی کے ساتھ اور صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اس کيساتھ ایمان کی خوبصورتی سےبھی لطف اندوز ہونے کيلٔے ایک بہت مضبوط ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کا مضبوط ایمان رکھنے والا شخص خوشی سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاۓ گا اور جتنا ممکن ہو سکے اسلامی یونین اور مواصلات کی نشانیوں جو ايمان کی پختگی کيطرف ليجاتی ہيں کو مقصد بنائگا۔
عدنان آکٹر: جب ہم قرآن پاک میں دیکھتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں، کہ دو اہم نکات ہیں. ایک ایمان کی کمزوری ہے، ایمان کی اہمیت ہے، اور دوسرا اسلام کی یونین ہے. یہ قرآن کے ہر صفحے میں ہے. لیکن بہت سے لوگ اس حقیقت سے لا علمی کا اظہار کرتے دیں. وہ مجھ سے 'اسلام کے احکام' کے بارے میں بات کرنے کے لئے پوچھتے رہتے ہيں ۔ چلو ٹھیک ہے میں اسلام کے احکام کے بارے میں بات کرتا ہوں. . مجھے نماز، وضو کی تفصیلات دينی ہيں. توجب میں اس کی وضاحت کرتا ہوں،تو کيا آپ نماز ادا کرنی شروع کر دينگے؟ مساجد میں بہت سے امام، نماز نہیں کروائنگے اگر اُنکو اس کے لئے پيسے ادا نہیں کیۓ جائنگے ؛ کيونکہ ان کو مسجد کے امام کے طور پر کام کی ادائیگی کی جاتی ہے. اگر وہ مسجد میں نماز کی ادائگی نہیں کر رہے، تو زیادہ تر اپنے وقت پربھی ایسا نہیں کر رہے. ايسے بہت سے لوگ جن کے بارے میں آپ سوچتے ہیں کہ مز ہبی ہيں اصل میں نماز کی ادائگی نہیں کر رہے ہوتے. میں نے یہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، میں اسے جانتا ہوں. مثال کے طور پر، ایک مسجد کے امام، کے بارے ہم کہتے ہيں کہ وہ چھٹی پر چلے گئےہيں- یہ صرف ان میں سے کچھ کے لئے سچ ہے، بيشک سب کے بارے نہیں- وہ صبح کی نماز کے لئے بيدار نہ ہوۓ، صرف اندر سوتےرہے۔ وہ دوپہر میں نماز کراتے ہيں، انہوں نے کہا کہ نماز ملتوی کر دی '. وہ بہت لا تعلق لوگ ہیں. وہ لوگ جو مجھے اِسوقت سن رہے ہیں سرہلا رہے ہيں اور فی الوقت میری باتیں قبول کر رہے ہيں. بہت سے لوگ جوآپ کے خیال میں مذہبی ہيں ، حتیٰ کہ کافی مشہور مذہبی لوگ بھی، بمشکل ہی نماز ادا کر رہے ہوتے ہيں. لیکن ایک شخص جو ایمان کی خوشی سے لطف اندوز ہوتا ہے، جس کا ايمان اتنا گہرا ہوتا ہے کہ جيسے آنکھوں دیکھا، جوش و جذبے سے نماز ادا کريگا اور اس کی زندگی کا واحد مقصد اسلامی یونین اورايمانی علامات کی تشہيرہوگا جس سے اللہ کی رضا ہو. اس شخص کا بنیادی مقصد یہ ہو جائے گا. اس کے عقیدے کی مضبوطی کے لئے، اُسے قرآن اور محمد رسول اللہؐ کے معجزات سے آگاہ رکھنا چاہئے۔ (4 فروری 2012، A9 ٹی وی)
احادیث میں يہ پیشن گوئی کی گئی تھی کہ اختتام اوقات میں کفرغالب ہو گا
اوقات کے اختتام کے بارے میں احادیث میں محمد رسول اللہؐ، وقت کے سب سے بڑے خطرات میں سے ایک، يعنی کفر اور ايمان کی کمزوری کے بارے میں فرماتے ہيں:
"ایک وقت آئے گا جب ایک شخص جو اپنے ايمان پرڈھٹا ہوگا اُس شخص کی مانند ہوگا جس نے کہ ہاتھ میں شعلہ تھاما ہؤاہو۔(" سنن ترمذی حدیث نمر۷۳ فتان، ابوداؤد ، ملاحم،۷۱
احادیث میں یہ واضح طور پر وضاحت کی گئ ہے کہ مسيحؑ کے مخالف ایمان کو براہ راست نشانہ بنائں گے جس سے مسلمانوں کے عقیدے کمزور ہوتے چلے جائيں گے. ہمارے رسول نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ آخری اوقات میں لوگوں کے عقیدے بڑی حد تک کھو جاينٔنگے اور اس طرح کی بیماری بارِ آخر میں سب سے بڑی مصیبت بن جائے گی:
حضرتِ انس (رضی اللہ عنہ) سے متعلق ہے: "محمد رسول اللہؐ وضاحت کرتے ہيں:" اس سے پہلے کہ فیصلے کا دن ٹوٹ پڑے، رات کے کچھ حصوں کی طرح بحران ہو جائے گا. (جب وہ ہوتا ہے)کؤی شخص ایک مومن کے طور پربيدار ہوگا اور ایک کافر کے طور پر سوجائگا اور ايک مومن کے طور پر سوجائگا اور ایک کافر کے طورپر بيدار ہو جايئگا. بہت سے لوگ بہت ہی تھوڑا سا دنیاوی فائدہ حاصل کرنے کے بدلے اپنے مذہب کو بیچ ڈاليں گے "(ترمذی، 30 فتن، 2196)
لوگ ایسے وقت میں رہيںگے کہ جب، کسی کا ايمان پر قأيم رھنا اتنا ہی دشوار لگے گا جتنا کہ ہاتھوں میں شعلہ پکڑنا. کیونکہ ان دنوں مومنين (جو بہت زيادہ توہین کا نشانہ بنأے جائينگے)، کی قدروقیمت جانوروں سے بھی کم ہو جائگی. بہت سے لوگ يہ دباؤ اور توہین برداشت نہيں کر پاينگے. کمزور مغلوب ہو جائنگے اور بہت تھوڑے دنياوی فائدے کے بدلے اپنے مذہب کی تجارت کريں گے. رات اور دن ایسے وقت لے آئيںگے،جب کؤی اٹھے گا اور زور زور سے کہے گاا: 'کون دنیاوی خوشی کی ایک بہت چھوٹی رقم کے عوض ہمیں اپنے مذہب (ایمان) کی فروخت کر یگا؟ ' بے شک اُسے بہت سے جواب موصول ہونگے: "بہت سے لوگ دنیاوی خوشی کی ایک بہت چھوٹی رقم کے عوض اپنے مذہب فروخت کردينگے. "
جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں دیکھا جا سکتا ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے احکام کے بارے میں لوگوں کے علم کے ساتھ کسی بھی مسائل کا ذکر نہیں کر تے کیونکہ آج اسلامی دنیا میں موجودہ مسائل، تنازعات، عوام کے مصائب جو رونما ہو رہے ہيں اسلام کے احکام کے بارے میں علم کی کمی کی وجہ سے نہیں ہور رہے ہیں اور یہ لوگوں کے لئے بہت غلط خیال ہے کہ ایسی صورتحال تعلیم کی کمی کا نتيجہ ہے.
وہ فوجی جو کہ مصر، شام، لبنان میں عوام کا قتلِ عام کر رہے ہیں، تمام عربی لوگ ہيں جو قرآن پاک اچھيطرح جانتے ہیں. ان میں سے بہت سے لوگوں کو قرآن پاک کے بارے میں تعلیم دی گيٰ اور انہوں نے قرآن پاک پڑھا ہے. اگر ایک شخص قرآن کے بارے میں جاننے کی خواہش رکھتا ہے یا قرآن کی ایک کاپی حاصل کرنا چاہتا ہے، یہ بہت آسان ہے، کيونکہ قرآن پاک بہت آسانی سے قابلِ رسائی ہے، ہر جگہ ہر زبان میں دستیاب ہے. یہ انٹرنیٹ پر بھی ہے. تاہم، اکیلے قرآنِ پاک کو پڑھنا ہی کسی کيلۓ اللہ پر ایمان لانے کيلٔے کافی نہیں ہے. کيونکہ سب سے پہلے اللہ پر بہت سخت ايمان اور پھر جتنا ممکن ہوسکے اللہ سے ڈرنا ہی ایک مضبوط ایمان کی بنیاد ہے. یہ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل طريقے سے بیان آتا ہے:
"آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہدایت نہیں کرينگے. آپ کسی کوہدايت سنوا بھی نہيں سکيں گےسوائے ان لوگوں کے جنہوں نے ہماری نشانيوں پر اعتماد کيا ہے اور جو مسلمان ہیں۔‘‘
(سورت ار رم, 53)
عدنان آکٹر: لوگ اسرائیل فلسطین، شام میں مصأيب کا شکار ہیں. بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے. وہ تمام فوجی جوشام میں قتل و غارت گری کررہے ہیں قرآنِ پاک بالکل اچھی طرح سے جانتے ہيں. انہوں نے قرآن پڑھا ہے، وہ اسے مکمل طور پر جانتے ہیں. انہوں نے بچپن ميں قرآنِ پاک کی تربیت حاصل کی. تو یہ اسلام کے احکام کے بارے میں نہیں ہے. لیکن ان کا اللہ پر کوئی یقین نہيں ہے. قرآنِ پاک سیکھنا بہت آسان ہے، قرآنِ پاک کی ایک کاپی حاصل کریں. قرآنِ پاک ہر جگہ ہے. اور یہ ہر زبان میں ہے، انٹرنیٹ پر بھی ہے. لیکن اکیلے قرآنِ پاک پڑھ لينے سے لوگ اللہ پر ایمان حاصل نہیں کریں گے. سب سے پہلے انہيں اللہ پر یقین کرنا ہے، اور اللہ سے ڈرنا ہے. آیت میں ہمارے رب کا کہنا ہے کہ: "آپ صرف ان ہی کو خبردار کر سکتے ہیں جو نصیحت پر عمل کريں اوراُس بڑے رحیم مہربان ذات سے غائبانہ ڈرنے والے ہوں." (سورہ یا سين ا، 11) جب انسان اللہ سے نہيں ڈرتا ہے، تو 'قرآن پڑھنے کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا. یہی وجہ ہے کہ ہم ایمان کی علامات پر اتنی زیادہ توجہ مرکوزرکھتے ہيں اور یہی وجہ ہے کہ ہم بہت مؤثر ہیں. لیکن انتہا پسندوں کويہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے، اسلئے وہ ہماری جدوجہد کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں. تاہم جونہی وہ ہمیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں، یہ ہمارے لئے زیادہ پبلسٹی کا باعث بن جاتی ہے اور ہم پہلےسے بھی زیادہ جانے جاتے ہيں۔ (4 فروری، 2012 ٹی وی اے 9).
ایمان کی کمزوری آج کے مسلم معاشروں کے مصائب کی بنیادی وجہ ہے
حقیقی اور سچا یقین صرف اللہ کيساتھ گہرایٔ سے منسلک ہوجانےاوراُسکے تمام احکامات کو غیر مشروط طور پر بجا لانے کے ذريعے سے حاصل کیا جا سکتا ہے. کؤی شخص تمام قابلِ ستائش انسانی خصوصیات کو صرف اللہ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے ہی حاصل کر سکتا ہے. اللہ قرآن پاک ميں نیکی، انصاف، صبر، بے غرضی، وفاداری، يک جہتی، اطاعت، شرم و حياء، رواداری، ہمدردی، رحم، غصے پر قابو اور بہت سی دوسری اعلٰی انسانی خصوصیات پر مشتمل احکامات ديتا ہے. قرآن نے واضح طور پر تمام غیر اخلاقی کارروائیوں پر پابندی لگا دی ہے. ان اعلٰی اخلاقی اقدار کے ساتھ زندگی گزارنے کا مطلب اللہ سے خوف رکھنا اور اپنے ضمیر کے تابع ہونا ہے کيونکہ جوکویٔ اللہ سے زيادہ سے زيادہ خوف رکھيگا اور اپنے ضمیر کی اطاعت کریگا وہ اُتنا ہی ﷲ کے احکامات کی زيادہ فرمانبرداری کريگا. ورنہ قرآن کی اخلاقیات کے مطابق زندگی نہيں گزار سکےگا۔ یہاں تک کہ اگر وہ کبھی کبھی کچھ اچھی اخلاقی اقدار ظاہر کرتاہے ليکن جونہی کویٔ چيز اس کے خلاف ہو جائے تو وہ مکمل طور پر تبدیل بھی ہو سکتا ہے. لہذا اللہ پر مضبوط ایمان قائم کرنا کچھ اتنا آسان کام نہيں ہے جب تک ایک مخلص نہ ہو جاۓ. اِس کی وضاحت مندرجہ ذیل آیت میں اِسطرح کی گٔی ہے: "ریگستان عرب کا کہنا ہے کہ، 'ہم یقین رکھتے ہيں.' فرما دیجئے: تمہیں یقین نہیں ہے. بلکہ کہو، "ہم مسلمان ہو گۓ ہيں ،" ایمان ابھی تک آپ کے دلوں میں داخل نہيں ہؤا ہے. اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہو، تو وہ کسی بھی طرح سے تمہارے اقدامات کی کم قدری نہیں کرے گا. اللہ ہميشہ سے معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ "(ال حجرات، 14)
آج مسلم معاشروں کے مسائل کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اللہ میں مخلصانہ یقین نہیں رکھا ہے. ایمان کی کمزوری کی وجہ سے پيدا شدہ مسائل میں سے کچھ مندرجہ ذیل کے طور اندراج کیے جا سکتے ہيں:
ایمان کی کمزوری کی وجہ مسلمانوں کا منقسم ہونا اورمتحد نہ ہونا ہے
"اللہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو سيسہ پلایٔ دیواربن کر صفوں میں اس کی راہ میں لڑتے ہیں." (صاف، 4) قرآنِ پاک میں اللہ کا حکم ہے، جوظاہر کرتا ہے کہ مسلمانوں کو متحد ہونا چاہئے. لہذا کسی بھی قسم کی علیحدگی کے خلاف لڑایٔ اور مسلمانوں کواس خطرے کے بارے انتباہ کرنا مسلمانوں کے سب سے زیادہ اہم فرائض میں سے ایک ہے. تاہم، ان لوگوں کے جو ایمان کی کمزوری میں مبتلا ہیں، اور صرف تماشأی بن کريہ کہنے کی خواہش رکھتے ہيں کہ ‘ جب تک یہ مجھے چوٹ نہیں کرتا مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔تاہم اس طرح کی دماغی حالت ناقابل قبول ہے. قرآن کے مطابق، ایک مسلمان مسلمانوں کی موجودہ منقسم حالت سے لا تعلقی نہیں برت سکتاہے اوراُسے قرآن پاک کی اتحاد کے احکامات کے بارے ميں آیات کو نظر انداز نہیں کرنا چاۂےاور نہ ہی يگانگت سے گریز کرنا چاہئے. کمزور ایمان کے ساتھ زندگی گزارنے والے لوگ قرآن کی آیات کو واقعتاً نہیں سمجھ پاتے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ نمازاور روزے کی طرح مسلمانوں کے لئے اسلامی یونین کی ذمہ داری بھی سمجھ نہیں پارہے.انہيں یہ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اُنکے درميان تقسیم بالکل اُسيطرح غیر قانونی ہے جيسےکھانے ميں سور کا گوشت یا پینے کيلئے شراب. قرآن کے مطابق اِن غیر قانونی اقدامات کی دو مختلف اقسام کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے. اگرمسلمان متحد ہو جائں تويہ تمام دنياوی درد اورمسائل فوری طور پر حل ہو جائينگے. اللہ نيچے دی گٔی ایک آیت میں فرماتا ہے:
وہ جوکفار ہیں ایک دوسرے کے دوست اور محافظ ہیں. اگر آپ اس طرح سے کام نہیں کرتے تو زمين ميں بحران اور بڑی کرپشن ہو جائے گی. (انفال 73)
اہل کتاب سے دشمنی ایمان کی کمزوری کا ایک اور نتیجہ ہے
اللہ کے ہاں مذہب اسلام ہے. مسلمان چاہيں گے کہ تمام لوگ "لاَ اِلہَٰ ِالاﷲ" کہيں،بہ الفاظِ ديگر وہ ان کو مسلمان ديکھنا چاہتے ہيں اور اس مقصد کے لئے کام کرنا چاہتے ہیں ۔ اللہ نےقرآنِ پاک میں یہودیوں اور عیسائیوں کا نام اہل کتاب کے لوگوں کے طور پر ليا اور تفصیلات ديں کہ کس طرح مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان تعلقات استوار ہونے چاہئيں. اسلام کی پیدائش کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اہلِ کتاب سے محبت اور احترام قائم کرنے کی بے انتہا کوشش کی ہے. بلآخر، اہل کتاب، گو کہ ان کی کتابوں کے حصے کو بعد میں تبدیل کر دیا گیا تھا، مسلمانوں کی ظرح مِلتی جُلتی اخلاقی اقدار اور تصورات پر عمل پيرا ہوتے ہيں جواصليت ميں اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہیں ۔
اسلام امن، محبت، اور افہام و تفہیم کا مذہب ہے. تاہم، وہ لوگ جو ایمان کی کمزوری سے دوچار رہتے ہیں، مسلمانوں اور اہل کتاب دونوں کے سامنے اسلام کی نمائندگی ایک خراب روشنی میں کرتے ہیں. اسلام ہمیں اس دنیا کو امن اور خوشحالی والی جگہ بنانے کے احکامات ديتا ہے، تاہم يہ لوگ اسلام کو مکمل طور پر اِسکے برعکس دکھاتے ہيں اور دعوٰی کرتے ہيں کہ مسلم اور دوسرے مذاہب کے اراکین کے درمیان تصادم اور جنگ ہے. تاہم، اللہ مسلمانوں کو احکامات ديتا ہے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں جنکو اہلِ کتاب کہا جاتا ہے، کيساتھ بہت شفقت اور اِنصاف پسندی سے پيش آئں.
اللہ نے قرآنِ پاک میں بہت سی آیات میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ مسلمانوں کو اہل کتاب سے دوستی رکھنی چاہئے. اللہ قرآنِ پاک میں مسلمانوں کو ان کا کھانا کھانے اور ایک عیسائی یا ایک یہودی عورت سے شادی کی اجازت دیتا ہے. اللہ ایک آیت میں فرماتا ہے:
"آج تمام اچھی چيزيں آپ کے لئے حلال کی جا چکی ہیں. اور اہلِ کتاب کا کھانا بھی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے. اسيطرح مومنوں سے پاک دامن عورتيں اور تم سے پہلے والے اہلِ کتاب کے درمیان سے پاک دامن عورتيں، جن کوایک بار جب آپ شادی کريں توجہیز ديتے ہيں، کسی زنا کاری یا ان سے محبت کرنے کے مطلب سے نہيں. لیکن، جيسے کؤی بھی جوایمان مسترد کرتا ہے، کے اعمال کچھ بھی نہیں رہيں گے اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا "(سورت مأئدہ، 5).
اسکولوں کے درمیان دشمنی اور خونریزی کمزور ایمان والے لوگوں کے نظریات ہیں
کمزور ایمان رکھنے والے لوگوں کی سب سے زیادہ علامتی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اسکولوں کے درمیان خونریزی اور جارحیت چاہتے ہیں. شیعہ اور سنی کے درمیان دشمنی لوگوں کے دلوں میں نفرت سے جنم پاتی ہے. اس طرح کی نفرت اور غصے کے ساتھ وہ لوگ يہانتک بھی کہہ سکتے ہیں کہ 'الحمد للہ، میں ایک سنی ہوں، ماشاﷲ میں ایک عظیم مسلمان ہوں، اب اللہ کی رضا کے لئے، میں تمام شیعہ کو ذبح کرنے جا رہا ہوں ااور ہر شیعہ کوقتل کرکے مجھے اجروثواب حاصل ہوگا '، جو مکمل طور پر قرآن کے خلاف ہے. کچھہ شیعہ بھی ايسے ہيں جنکا دماغ اسی ٹیڑھی حالت کی غمازی کرتا ہے. تاہم، يہ لوگ اصل ميں ملحد ہيں، جونفرت سے بھرپور ہيں جو اپنے غیظ و غضب کی ضروریات کو پورا کرنے کے راستے ڈھونڈھتے ہيں اور وہ عذر کے طور پر اسلام کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ ایک مسلمان جان بوجھ کر کبھی بھی کسی بھی زندہ چیز کو تکلیف نہیں ديگا۔. اچھے، نیک، مذہبی سنی اور شیعہ اس طرح کے خیالات کبھی نہیں رکھيں گے، اور وہ بالکل اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے لڑنا غیر قانونی ہے اور اگر وہ ایسا کچھ کرتے ہیں،تو ایک گناہ کے مرتکب ھونگے.
سنی اور شیعہ کو اسلامی یونین قائم ہونے تک اپنی دانشورانہ مہم جاری رکھنی چاہئے. بيشک مختلف ِفکری اسکول اور خیالات ہوتے ہیں، تاھم اہم بات ہے اللہ کی محبت کے ساتھ رہنا اور ايسی مضبوط دانشورانہ مہم میں شامل ہوکر اللہ کی رضا کے لئے اپنی دولت اور زندگی کی قربانی دینے کے لئے تیار رہنا۔ ایک آیت میں اللہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت اور بدلے میں اجروثواب دينے پر اِسطرح توجہ دلاتا ہے :
"سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام ليں، اور الگ الگ نہ ہوں. یاد رکھیں تم پراللہ کی برکت ہویٔ جب تم دشمن تھے اورپھر اس نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اسطرح جوڑا کہ تم ُاس کی برکت سے بھائی بھائی بن گئے. تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اور اس نے تمہيں اس سے بچایا. اس طرح اللہ تعالی اپنی نشانیوں کو تم پرصاف صاف عياں کرتا ہے، تاکہ تمہاری پُر امید طريقے سے رہنمائی ہو جاۓ۔’’ (سورہ ال 'عمران، 103).
عدنان آکتر: مثال کے طور پر، بہت سے لوگ شیعہ یا سنی کے خلاف ایک گہری نفرت کو ٹھکانا بنا ليتے ہيں، سنی شیعہ سے نفرت کرتے ہیں، جبکہ شیعہ سنی سے نفرت کرتے ہيں. بہت سے لوگوں کو يہ مسئلہ ہے. یقینا لاکھوں ايسےبھی ہیں، جو اسطرح نہيں ہيں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے ايسے ہیں جو ان خطوط میں سوچتے ہیں. اصل میں کچھ کالم نگار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں سب سے بڑی فرقہ وارانہ جنگ ہو جائے گی، اور اگر ان لوگوں کے دماغ کی ايسی ہی حالت رہی تو يہ منظر نامہ بہت دور کی کوڑی نہیں ہے. لیکن مہدی نظام اِسکی روک تھام کر رہا ہے اور یہ ایسی چیز کو روکنا جاری رکھيگا.کوئی بھی اس حقیقت سے لاپرواہی نہيں برت سکتا. کچھ لوگوں کا يہ غلط کہنا ہے کہ ہم اُنہيں اسلامی مشاہدات کی مشق کيسے کرنی ہے، سکھاينگے اور پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ٹھيک ہے، اِسکی کوشس کريں ، پرائمری و سیکنڈری سکولوں میں ابتدایٔ مذہبی نصاب مرتب کيے جاتے رہے ہيں. دہشت گرد، تخريب کار سبھوں نے مزہب کی تعليم حاصل کی ہؤی ہے۔ بہت سے پی کے کےدہشت گردوں کے والدین دراصل مذہبی لوگ ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اسلامی طرز عمل کيا ہے، وہ جانتے ہیں کہ نماز کسطرح ادا کرنی ہے. وہ نماز کی نقل اُتارتے ہيں،پھر اس کا مذاق بنانے کی کوشش کرتے ہیں. ایسا اس لئے ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ کس طرح کرنا ہے، اگر وہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتے ہوں تو کيا وہ اس کے ساتھ مذاق کرنے اور اس کی حرکت نقل کرنے میں کامیاب ہو نگے؟،. وہ نمازکے بارے ميں چھوٹی سے چھوٹی بھی تفصیلات جانتے ہيں ۔ وہ روزہ، صدقہ، يہ سب جانتے ہيں. تو يہ اسلام کو کسطرح عمل ميں لانا ہے ،کے بارے میں جاننا نہیں ہے. وہ ڈارونست اور مادیت پرست لوگ ہيں. آپ چاہتے ہیں ڈارونست اور مادیت پرستوں کو قرآن پڑھايا جأے جو بھی آپ چاہيں ، ان کو حفظ کروائں، اسلام کے احکام سکھائں، لیکن اس کا ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن یہ سب بہت آسان ہو جاتا ہے، جب کوئی شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے. دین میں کوئی پیچیدہ اُلجھے طریقے نہيں ہیں. آخر ميں وہاں کچھ بھی ايسا نہیں ہے کہ انسان کو مہينوں تربیت کی ضرورت پڑے . قوانین، اسلام کے طریقوں کو صرف ایک دن میں سیکھا جا سکتا ہے. ایک عام شخص يہ سب صرف ایک دن میں سیکھ سکتا ہے، اور وہ اس کے بعد اسلام پر بہت آسانی سے عمل پيرا ہو سکتا ہے. صحابہ کرام کے اوقات ميں محمد رسول اللہؐ کفار کو مليں گے اور کفار اُن پر يقين کرتے تھے۔ وہ اُن کے درس میں شرکت کرتے تھے. ان سے صرف ایک ہی گھنٹہ، آدھہ گھنٹہ بات کرنے کے بعد، وہ میدان جنگ میں اسلام کے لئے کام کرنے کے لئے رخصت ہو جا تے. وہ محمد رسول اللہؐ کے انتقال کے بعد بھی سپین اور بہت سے مختلف مقامات پر گۓ۔
وہ وہاں اُن لوگوں کے ساتھ گۓ جو اسلام سےنۓ نۓمتعارف ہوۓ تھے. حقیقت میں تو اُن نئے لوگوں کومسلمان ہوۓ صرف ایک یا دو گھنٹے ہوسکے جب انہوں نے وہ بڑے بڑے کام کیے.اسلام کے بارے میں کوئی بات پیچیدہ نہیں ہے. یہی وجہ ہے کہ حکومت کو نوجوانوں کو قدامت پسند بنانے کی کوشش روک دينی چاہیے۔ اس کے بجائے، انہيں ڈارونست۔ مادیت پرستی کی تعلیم کو ختم کرنا چاہئے اور ایمان کی معروف علامات کو پھیلانے اور لوگوں کے ایمان کو تقویت پہنچانے کا کام کرنا چاہئے. ان کے عقیدے کو تقویت ملنے کے بعد ايک ايسی نسل پيدا ہو جائگی جو اللہ سے محبت کريگی اور اللہ سے خوف رکھيگی. آپ قدامت پرستی کی طرف سے کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے. سلطنت عثمانیہ قدامت پسند تھی اور وہ تنزل پزير ہویٔ. قدامت پرستی آپ کی مدد نہیں کريگی. آپ کيا تحفظ کرنے جا رہے ہو؟ کون سا ایمان؟ ظاہر ہے، وزیر اعظم ايسا نہيں کہہ سکتا ہے اور یہ اس کے لئے بہت عام بات ہے. وہ ایک سیکولر نظام میں یہ نہیں کہہ سکتا. لیکن، میں ایک فرد کے طور پر یہ کہہ سکتا ہوں. ایک قدامت پسند بننے کی کویٔ ضرورت نہیں ہے، ہاں ایک اچھا مسلمان ہونے کی ضرورت ہے. یہ ایک اچھا مسلمان ہونے کے بارے میں ہے. 68 جنریشن '. وہ اصلی کٹر ہیں، وہ حقیقی قدامت پسند ہیں. وہ تحفظ، کيساتھ سب کچھ محفوظ کر ليتے ہيں، ذرا ذرا سی تفصیلات بھی. وہ اُسی موسیقی ، اُنہی دنوں کے گانے سنتے ہيں، کچھ بھی تبديل نہيں ہوتا، سب کچھ ایک جيسا ہی رہتا ہے، جس طرح سے وہ چلتے، بات کرتے، کپڑے پہنتے، کھانا کھاتے ہيں. کچھ عبدالحميت اور کچھ عبدالمسيت کے قديم دنوں سے چمٹے ہوۓ ہيں. وہ يقيناً بہت غلط ہے. اُنہيں يہ کرنا چاہیے کہ، اُنہيں اسلام کا بتا يا ہوا مسلمان بن جانا چاہئے. اس کے بارے میں کچھ بھی پیچیدگی نہیں ہے۔ (4 فروری، 2012 ٹی وی اے۹).
حضرت مہدیؑ اسلام کے احکام پر توجہ مرکوز کرنے سے پہلے ایمان کی معروف علامات پر توجہ کرينگے، اور اللہ کے حکم سے، ڈارونست۔ مادیت پرست ذہنی حالت اور ایمان کی کمزوری کو تباہ کرديں گےا:
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ حضرت مہدیؑ قرآن، سائنس، حکمت اور عقل کی بنیاد پر ایک دانشورانہ مہم کے ذریعے ماديت ، ڈارونسم ، اور الحاد کی تباھی پر کام کریں گے.
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرميا کہ حضرت مہدیؑ سائنس اور دانشوری کے ذرائع سے ایمان کی کمزوری اور ایمان کے فقدان کو ذہنی طور پر تباہ کر دیں گے:
امام مسلم ميں ابو حريرہؒ نے ايک حدیث بيان کی ، ايک دن نبی کريم محمدؐ نے اپنےساتھیوں سے کہا کہ:
"... يہ سپاہی، جب ایک شہر جاتے ہیں، تو وہ ہتھیاروں کے ساتھ لڑائی نہیں لڑتے، نہ ہی تیر کا استعمال کرتے ہیں. وہ صرف ﻻالہٰ الا اللہ، اللہ اکبر کہہ کر اللہ کی حمد کرتے ہيں. اس بیان کے بعد شہر کے دو اطراف قلعوں کی دیواروں میں سے ایک گرجائے گی. اس کے بعد وہ دوسری بار کہيں گے. جس پردوسری ديوار نیچے آجائگی. تیسری بار دیواريں اسلام کی افواج کے لئے نیچے گر جائننگی اور وہ ان دیواروں کو پار کرکے اندر داخل ہوجائنگے اور شہر کو فتح کر ليں گے " (امام شارانی، موت ۔قیامت کا دن۔ اوقات کے اختتام اور اُسکی بد شگونياں ، صفحہ 445-446.)
بديع الزمان نے یہ بھی کہا کہ حضرت مہدیؑ کے تین عظیم فرائض میں سے ایک مادیت اور ملحد فلسفے کومکمل طور پر خاموش کراکے لوگوں کے عقیدے کو دوبارہ مضبوط کرنے کيلٔے اُنکی مدد کرنا ہوگا:
ایک: سائنس اور فلسفہ کے اثر و رسوخ ، اور انسانیت میں مادیت اور فطرت پسندی کی وبا پھيلنےکے پيشِ نظر، [حضرت مہدیؑ کا] پہلا فرض ایمان کو بچانے کے لئے سب سے پہلے فلسفہ اور مادی سوچ کو مکمل طور پرخاموش کروانا ہے۔ کيونکہ مومنوں کو بد چلنی سے بچانا ہے [مومنوں کو صحیح راہ سے گمراہ ہونے سے بچانا) ... (امر داگ ضميمہ، صفحہ 259)
جیسا کہ نبی کريم محمدؐ کی احاديث اوربديع الزمان کے بیانات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ، حضرت مہدیؑ ، اللہ کے حکم سے اس بات کو یقینی بنائنگے کہ ہر کوئ اللہ تعالی کے وجود اور اس کے ناموں کو بہتر سمجھتا ہو. وہ لوگوں کو مادہ پرستی سے پیدا ہو نيوالےدھوکوں سے بھی بچائںگے۔ آخری اوقات میں ٹیکنالوجی بہتر ہونے کيساتھ، سائنس بہت آگے بڑھے گی، جو اللہ کے وجود کو ثابت کریگی. حضرت مہدیؑ زیادہ مؤثر طریقہ سے لوگوں کو یہ سچ بتائنگے اور دنیا بھر میں مثبت نتائج حاصل کریں گے۔
.قرآن پاک میں ہمارے رب تعالٰی ایک آیت میں، غلط خیالات کی ذہنی طور پر تباہی کيطرف توجہ دلاتے ہيں:
"بلکہ ہم نے باطل کے خلاف سچ تيزی سے استوار کيا ہے اور یہ اسے بيچوں بيچ کاٹتا ہے اور صفایٔ سے اسےغائب کرديتا ہے ...!" (سورت الانبيا ، 18)
جب تک کویٔ مضبوط یقین رکھتا ہے، مذہب پر عمل کرنا اُس شخص کے لئے بہت آسان ہے. دین میں کوئی پیچیدہ یا مشکل طریقے نہيں ہیں. اسلام بہت آسان مذہب ہے جو کسی کو بھی سمجھ آ سکتا ہے. ادائگی نماز سيکھنے کيلۓ کسی کو بھی ایک طویل عرصہ درکارنہیں ہوتا. اسلامی طرزِ عمل ایک عام شخص صرف ایک دن میں سیکھ سکتا ہے، اور وہ اس کے بعد اسلام پر بہت آسانی سے عمل پيرا ہو سکتا ہے. اصحابہ اکرام کے وقت، محمد رسول اللہؐ بت پرستوں سے ملتے اور ان سے بات کرتےاور وہ ان پر یقین کرتے. وہ اُنکے درس میں شريک ہوتے. صرف ایک گھنٹہ، آدھہ گھنٹہ محمد رسول اللہؐ سے بات کرنے کے بعد، وہ اسلام کی راہ ميں کام آنے کے لئے، میدان جنگ میں چلے جاتے. اسلام کے بارے میں کویٔ پیچیدگی نہیں ہے. اسی لئے حکومت کو نوجوانوں کو قدامت پسند، بنانے کی کوشش کی بجائے ڈارونست ۔ مادیت کی تعلیم کو ختم کرنا چاہئے اور ایمان کی نشانیوں کو بتانے کيطرف بڑھنا چاھئے۔ کمیونٹی کا ايمان بڑھانے کے بعد، ايک ايسی نسل جو اللہ سے محبت کرتی ہے اور اللہ سے ڈرتی ہے، اُٹھ کھڑی ہوگی اور اللہ کے حکم سے اسلامی دنیا کی آزمائش ختم ہوجائگی.
حضرت مہدیؑ، جسطرح سے بديع الزمان نے بیان کیا، 'کتابوں و دستاویزات کے ساتھ ایمان کی علامات پھیلائں گےاور اللہ پہ مخلص یقین حاصل کرنےاور قرآن کی اخلاقی اقدار پر عمل پيرا ہونے میں لوگوں کی مدد کريں گے۔
آخر اوقات میں ڈارونسم اور مادہ پرستی افراد کے ايمان کو روکنے ميں سب سے اہم عوامل ثابت ہونگے. لہذا سائنسی طریقوں کے ذریعے، اللہ کے حکم سے، ڈارونسٹ اورمادیت پرست نظریات کا باطل پن، اور ایمان کی نشانیوں کا افشا ہونا ، اللہ پر ایمان حاصل کرنے ميں لوگوں کی مدد کريگا.
ایمان کی معروف نشانیاں لوگوں کے ایمان کے حصول ميں مددگار ہوتی ہيں
ایمان کی معروف نشانیوں کی مدد، لوگوں کے ایمان حاصل کرنے ميں سب سے زیادہ اہم وجوہات میں سے ایک ہیں. ایمان کے بغیر ایک شخص گہرے اندھيرے پن میں ہے، اور وہ اپنے ارد گرد تخلیق کے شواہد نہیں دیکھ سکتا. کمیونٹی کی ساخت کی وجہ سے جسميں وہ رہتا ہے، جو مذہب سے دور ہے، اس کا ذہن روز مرہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی باتوں ميں دھنسا ہوا ہے اور اس کا شعور اِس حد تک کمزور ہو گيا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد تخليق کردہ اَن ِگنت معجزات نہیں دیکھ پا رہا. اس طرح کا شخص اگرمخلص ہے اور اپنے دل کی بات مانتا ہے، تو وہ يقيناً ﷲ کا وجود اور اللہ کی وحدانیت اور اس کے لامحدود علم اور طاقت اور یہ کہ اللہ نے سب کچھ زندہ یا غیر زندہ پیدا کيا، دیکھ سکتا ہے۔ اسلئے ایمان کی معروف نشانیاں باضمیر لوگوں کی مدد کرنے میں بہت اہم ہیں، کيونکہ ايسے لوگ ملحدانہ تجاویز کی وجہ سے سچایٔ سے دور رکھے گۓ.
ايسے اندھے لوگوں کی توجہ ایمان کی معروف علامات کيطرف مبزول کرنے سے ان کی مدد بہت سی ايسی چیزیں ديکھنے ميں ہوگی جن کے بارے ميں وہ پہلے سے آگاہ نہیں تھے، اور انہیں اس اندھا پن جسميں وہ پہلے سے دوچار رہے تھے، سےچھٹکارا حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی. لوگوں کی آنکھيں تخلیق کے معجزات ديکھنے کيلۓ کھولنا، جو ان کے لئے ایک معمولی نظارا ہو سکتا ہے، اُنکو گہری تفہیم حاصل کرنے ، ان کے ضمیر جگانے اور ذہنی طور پرنظامِ کُفر کی ملحدانہ تجاویز کو تباہ کرنے میں اُنکی مدد کريگا.
پہلی بات جوايک باضمیر شخص سوچے گا کہ جب وہ واضح طور پرایمان سے معروف علامات دیکھتا ہے يہ ہوگی کہ 'یہ اتفاقات کی مصنوعات نہیں ہو سکتی ہيں، يہ اتفاقات کے نتيجے ميں نہيں ہو سکتيں'. وہ اُسوقت قادرِ مطلق اللہ کے وجود کوکہ جس نے يہ سب کچھ پيدا کيا، سمجھنے لگيں گے اور اُس پر يقين لائں گے. ایک آیت مندرجہ ذیل ذکر کرتی ہے:
"وہ لوگ جو اللہ کی یاد، کھڑے، بیٹھے اور اطراف ميں پڑے کرتے ہيں، اور آسمان اور زمین کی تخلیق کی عکاسی کرتے ہيں: ٰاے ہمارے رب، آپ نے کچھ بھی بے عبس پیدا نہیں کيا ہے. آپ کی عظمت ہو! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائے "(سورہ ال عمران، 191).
عدنان آکٹر: حضرت مہدیؑ اس سے پہلے کہ اسلام کے احکام کيطرف بڑھيں، ایمان سے معروف علامات پر توجہ مرکوز کرينگے
عدنان آکٹر: جب حضرت مہدیؑ آيںٔں گے تو وہ اسلام کے احکام پر توجہ مرکوز نہیں کرينگے. دوسرے الفاظ میں، وہ لوگوں کو وضو کرنے، یا نماز یا روزہ رکھنے کے قواعد و ضوابط کی تعلیم نہیں دیں گے. بديع الزمان کہتے ہيں حضرت مہدیؑ ایمان کی نشانیوں، اللہ کے وجود اور وحدانیت میں توجہ مرکوز رکھيں گے. 'سب سے اہم پہلو یقین ہے. وہ کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سب سے اہم بات آج شریعت اور زندگی ہے. تو بہت سے لوگ وسوسوں ميں پڑ جاتے ہيں اور لوگوں کو پرکھنے لگ جاتے ہيں اور ان پر تنقید کرتے ہوۓ کہتے ہيں کہ تم اپنی داڑھی کيوں منڈھواتےہو؟ آپ کی مونچھیں اس شکل کی ہونی 'چاہیے تھيںٰ. یا وہ اِس سے بھی آگےجا کرکہتے ہیں کہ تمہيں نماز ادا کرنی چاہئے، اور تمہيں بالکل اس طرح نماز ادا کرنی چاہئے. وہ اللہ میں یقین نہیں رکھتا ہے اور آپ اُس کو نماز کی درست ادائگی کے بارے میں بات کر رہے ہیں. یا روزے کے بارے میں بات کررہے ہيں. یا کویٔ اور بنیاد پرست ایک آدمی کے پاس جاتا ہے، اور اس سے کہتا ہے کہ 'آپ مسجد میں کیا کر رہے ہیں، آپ نے رمضان المبارک کے دوران کبھی روزہ نہیں رکھا'. بس پہلے اُس سے پوچھو، کيا وہ ايمان رکھتا ہے. کیا آپ نے پوچھا ہے؟ نہيں۔ بديع الزمان کا کہنا ہےٖکہ بہت سے لوگ غلط سوچتے ہيں کہ سب سے زیادہ اہم چیزیں زندگی اور شریعت ہیں اور اس وجہ سے اگر حضرت مہدیؑ اب زندہ ہوتے (اگر وہ بديع الزمان کے ہمعصر تھے)، تو وہ تین فرائض انجام دینے کے قابل نہیں ہوپاتے کیونکہ یہ اديت ﷲ سے مطابقت نہیں رکھتا ہے. تو شاید وہ سب سے زیادہ اہم بات پر سب سے پہلے توجہ مرکوز کرتے اور باقی چھوڑ ديتے. ' تو وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ وہ ایمان کی علامات کے بارے میں 24/7 بات کریں گے. لوگ حضرت مہدیؑ سے پوچھیں گے کہ نماز کس طرح ادا کرنی ہے، اور وہ کہیں گے، 'مجھے اس کا کوئی علم نہیں ہے.' وہ کیا کہنے جا رہے ہيں؟ وہ اپنی توجہ ایمان سے معروف علامات ، اللہ کے وجود اور وحدانیت، اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں، آخرت، جنت، اور جہنم پر مرکوز کریں گے. درحقيقت وہ ايسی چيزوں پر جو کہ ایمان کی بنیاد ہيں، توجہ دیں گے۔
(A9, on January 1, 2012)