قرآن آخری آسمانی کتاب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انساں کی رشدوہدایت کے لیے نازل فرمایاہے۔ اس میں ہرچیزکاکھلابیان ہے نیز انسان کو راہِ راست پرلگانے کی جملہ ہدایات اس کے اندرمضمرہیں۔قرآن کی بہت ساری آیتوں سے اتباعِ رسول کے اشاریے ملتے ہیں۔اسے ایک بڑاہی پرعظمت نکتہ سمجھناچاہیے کیوں کہ قرآن کی صحیح تفہیم ‘ سنت رسول پرعمل پیراہوئے بغیر ممکن نہیں ہوسکتی۔ سنت ‘قرآن کی تشریح کا نام ہے۔عقائداہل سنت مستند احادیث اور علماے متاخرین کی تحقیقات کامجموعہ ہے۔ یہاں یہ وضاحت بھی کرتے چلیں کہ سنت کو قرآن سے جداکرکے نہیں سمجھاجاسکتا۔قرآن کے اندر یہ بات موجودہے کہ رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ بارِگراں کودورفرماتے،قانون سازی کرتے اور امت پرقرآن کے ظاہری وباطنی اسرارو رموزآشکارفرماتے تھے۔بلاشبہہ اعمال نبوی کا مطالعہ بتاتاہے کہ آپ انے گوناگوں مسائل سے متعلق صحابہ کرام پرعلم وحکمت کے دروازے وافرمادیے تھے ۔ وقت کے جید علماے کرام نے نہ صرف ان کی تشریح وتفصیل کی بلکہ اپنی روزمرہ کی عملی زندگی میں انھیں اتارابھی اورپھرصدیوں کے تواترسے نسلا بعدنسل وہ معلومات ہم تک پہنچیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ عمران میں واضح فرمایاہے کہ رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی حیثیت بنی نبوعِ انساں کے لیے ایک معلم ومربی کی سی ہے۔ لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ إذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أنْفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ o (سورۂ آل عمران:۳؍۱۶۴) بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جوان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتاہے ۔ ’’کتاب وحکمت کی تعلیم‘‘والے فقرے پر بطورِ خاص توجہ مرکوزکرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اتباعِ سنت نبوی کے بغیر قرآن کی سمجھ اور اس کے احکام پر عمل بالکل ہی ممکن نہیں۔ ہمارے دین کی اساس قرآن وسنت پراستوارہے ۔ نزول قرآن کے وقت درسگاہِ نبوت کے خوشہ چیں حضرات آپ اکے اسوۂ حسنہ کومدنظررکھ کردین کے احکام پرسرگرم عمل ہواکرتے تھے۔ رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی حیاتِ مبارکہ دین کومکمل طورپربرتنے کا ایک ایسامثالی نمونہ ہے جوہماری قرآن فہمی کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ دین کے احکام کوسمجھنے کے لیے نمازکوایک واضح مثال کے طورپرپیش کیاجاسکتاہے۔بڑی مشہوربات ہے کہ پنج وقتہ نمازاسلام کاایک اہم فریضہ ہے،چند آیات قرآنی میں نمازووضوکاعمومی تذکرہ ملتاہے،تاہم ان کے طریقہ اداکوبآسانی سمجھنے کے لیے سنت نبویہ کی تفصیلات پرمطلع ہوئے بغیرممکن نہیں کیوں کہ آیتوں میں اس بات کی کوئی تفصیل نہیں ملتی کہ انھیں کیسے اداکرناہے،کیاکیاپڑھناہے،مردوعورت کے طریقہ اداکیاہوں گے،نمازوں کے مراتب،وضو کی تفصیلات اورنواقض وضووغیرہ ۔یہ جملہ تفصیلات محض سنت نبوی کوسامنے رکھ کرہی سمجھی جاسکتی ہیں۔ نمازِ جمعہ اور اس کی تفصیلات کے سلسلہ میں رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے ارشادات کوایک دوسری مثال کے طورپر پیش کیا جاسکتا ہے۔حسن گفتار،نظافت،آداب طعام،پاک بازی جیسے مسائل کے علاوہ روزہ ووضو اور حج جیسے فرائض کے بارے میں آیتیں توموجود ہیں لیکن یہ آیات ان عبادات کاتفصیلی خاکہ نہیں پیش کرتیں ۔ان کے طریقہ ادا کی تفصیلی معلومات رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے اقوال وافعال ہی سے میسر آسکتی ہیں جو اہل علم سے ہوتی ہوئیں پوری شان دیانت کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں۔ تاریخ کے ہردور میں علماے کرام کی کوشش رہی ہے کہ عوام اپنے طریقہ ہاے عبادت کو سنت نبوی کے سانچے میں ڈھال کربجالاتے رہیں۔عہدرسالت سے لے کر آج تک مسلمانوں نے سنت کے تابع رہ کرعبادتیں سرانجام دی ہیں ۔ پنج وقتہ نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور قربانی جیسی عبادات آج تک علی حالہٖ باقی ہیں کیوں کہ وہ منہاجِ سنت کے مطابق اداہوتی چلی آرہی ہیں،لہٰذا سینکڑوں سالوں سے بلاتغیرچلی آتیں ان عبادات پربحث ومباحثہ کاآغازکرنانیز اوقاتِ نماز، اور ان کی تعداد جیسے مسائل پر قیاس آرائی کرنایکسر فضول ہے۔ یہ وہ تمام فرائض ہیں جن کو شرح وبسط کے ساتھ احادیث میں بیان کیاگیاہے ۔جب ہم قرآن کی آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں تو اتباعِ رسول کے سلسلہ میں کئی آیتیں سامنے آتی ہیں۔مثلا ایک آیت میں اتباعِ رسول کی بابت درج ذیل انداز میں خطاب ہواہے۔ إنَّا أرْسَلْنَاکَ شَاہِداً وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا o لِتُؤمِنُوا بِاللّٰہِ وَ رَسُولِہٖ وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوہُ وَ تُسَبِّحُوہُ بُکْرَۃً وَّ أصِیْلاً o إنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ إنَّمَا یُبَایِعُونَ اللّٰہَ یَدُ اللّٰہِ فَوقَ أیْدِیْہِمْ فَمَنْ نَّکَثَ فَإنَّمَا یَنکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَ مَنْ أوْفیٰ بِمَا عَاہَدَ عَلَیْہُ اللّٰہُ فَسَیُؤتِیْہِ أجْرًا عَظِیْمًا o (سورۂ فتح:۸تا۱۰) بے شک ہم نے آپ کو مشاہدہ فرمانے والا اور خوش خبری دینے والا اور ڈرسنانے والابناکربھیجاہے۔تاکہ(اے لوگو!)تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان(کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حدتعظیم وتکریم کرو، اور (ساتھ ہی) صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو۔(اے حبیب!)بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں)اللہ کاہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تواس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پرہوگا اور جس نے(اس) بات کو پورا کیاجس(کے پوراکرنے) پر اس نے اللہ سے عہدکیاتھاتو وہ عنقریب اسے بہت بڑااجر عطافرمائے گا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَا أرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاًO (سورۂ نساء:۴؍۸۰) جس نے رسول کاحکم مانابیشک اس نے اللہ(ہی) کاحکم مانا، اور جس نے روگردانی کی توہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔ ان آیات کے اس نکتہ پر بطورِ خاص توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ آیات تصورِ اتباعِ رسول پر کیسازور دے رہی ہیں۔ یہ نکتہ ثابت کرتاہے کہ اتباعِ رسول بالفاظِ دیگر اوامرواصولِ رسول کی اتباع بذات خود عبادت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہم پرفرض قراردیاہے۔ جب ہم ان آیتوں پرغوروخوض کرتے ہیں تو یہ حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔مالک ومختارہیں جس چیزکاچاہیں حکم کردیں اور جس چیز سے چاہیں منع فرمادیں۔ مثال کے طور پر یہ آیت کریمہ دیکھیں : مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتہُوا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ o (سورۂ حشر:۵۹؍۷) اور جو کچھ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) تمھیں عطافرمائیں سو اسے لے لیا کرو اور جس سے تمھیں منع فرمائیں سو ( اس سے) رُک جایاکرو،اور اللہ سے ڈرتے رہو...... یہ آیت دکھاتی ہے کہ رسول کریم ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔قرآن کے منہیات کے علاوہ چاہیں توبہت ساری چیزیں اپنی امت کے لیے منع فرمادیں۔ علاوہ ازیں ان آیات کے ذریعہ اہل ایمان کوایک بارپھر مطلع کیاگیا ہے کہ اگروہ آپس میں الجھ پڑیں تو رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی بارگاہِ عظمت میں حاضر ہوں،اورآپ کے صادرکیے فیصلے کوتہ دل سے قبول کرلیں۔ دوسری طرف رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کوحاکم نہ ماننے یاآپ کے فیصلوں پرچہ می گوئیاں کرنے کوان آیات میں بغاوت سے تعبیر کیاگیاہے ۔پیغمبراعظم ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کے قوت فیصلہ کی قطعیت نیزآپ کے فیصلوں کو تہ دل سے مان لینے کی اہمیت پرایک دوسری آیت میں یوں روشنی ڈالی گئی ہے : وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لاَ مُؤمِنَۃٍ إذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُولُہُ أمْرًا أنْ یَّکُونَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أمْرِہِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِینًا o (سورۂ احزاب:۳۳؍۳۶) اور نہ کسی مومن مردکو(یہ)حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یاحکم)فرمادیں تو ان کے لیے اپنے(اس)کام میں(کرنے یانہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کی نافرمانی کرتاہے تو وہ یقیناًکھلی گمراہی میں بھٹک گیا۔ یہاں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی آیات میں اتباعِ رسول کی کتنی تاکیدفرمارہا ہے۔ اس وجہ سے قرآن کے ساتھ سنت نبوی پر عمل پیراہوکرہی ایک مکمل اسلامی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق پیش کردہ آیتوں کی تفاصیل بلاشبہہ صداقت کی آئینہ دارہیں؛اس لیے سنت نبوی سے انحراف کی باتیں کرنا مکمل طورپرقرآن کی روح کے خلاف ہے۔ عالم اسلام کے ایک عظیم عالم دین حضرت امام مالک‘ سنت کوکشتی نوح سے تعبیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ کی سنت کشتی نوح کی مانند ہے۔ جو اس پرسوار ہوگیاوہ توبچ گیااورجونہ چڑھاوہ غرق آب ہوا۔ صرف عقیدۂ اہل سنت وجماعت ہی نجات حقیقی کی ضمانت ہے،اس لیے افرادومعاشرہ سبھی کواس کے رنگ میں رنگ جاناچاہیے۔