جگر میں پایا جانے والا ہر ایک خلیہ ۵۰۰ مخلتف قسم کے کیمیائی اعمال کو انجام دیتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح وہ ہر اس عمل کے بارے میں جانتا ہے جو نظام دوران خون، نظام ہضم، نظام اخراج، اور دوسرے نظام میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی وجہ سے ہر خلیہ مسلسل اور شدید عمل کی آماجگاہ ہے۔
اگر جگر کا کوئی بھی حصہ خراب ہوتا ہے یا سکڑتا ہے، اسکے خلیہ فوری طور پر اس ناکارہ حصہ کی مرمت کرنے کے لیے ایک دوسرے نئے فعل کی طرف متوجہ ہوتے ہیں - تیز رفتار ضرب کا عمل - ان خلیوں کی غیر معمولی قابلیت کے نتیجے میں، جگر جسم میں پایا جانے والا وہ واحد عضو ہے جو اپنی تعمیر خود کرتا ہے۔ جیسے ہی جگر اپنی اصلی جسامت پر واپس آتا ہے اور ٹھیک ہو جاتا ہے تو یہ خلیے فورا اس عمل کو بند کر دیتے ہیں۔
جگر میں پائے جانے والے خلیوں میں اور جو انگلیوں کی پوروں میں پائے جاتے ہیں کوئی فرق نہیں۔یہ دونوں بلکل ایک ہی طرح کی معلومات رکھتے ہیں۔جو چیز انمیں اختلاف رکھتی ہے وہ یہ کہ معلومات کا کون سا حصہ وہ استعمال کرتے ہیں۔ آنکھوں سے نظر نہ آنے والا واحد خلیہ یہ جانتا ہے کہ نئی تخلیق کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے لہذا وہ اپنے آپ کو نقل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب وہ یہ جان لیتا ہے کہ تخلیق نو کا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے تو وہ اور اس جیسے دوسرے خلیہ فوری طور پر اس عمل کو ایک انتہا ئی منظم اندا ز میں روک دیتے ہیں اور اس عمل کے دوران کوئی بے ضابطگی یا دغا بازی نہیں ہوتی۔ تعمیر نو کے دوران کوئی بھی خلیہ اپنے اصلی کام کو نہیں چھوڑتا لہذا نظام میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ ہر نئے پیدا ہونے والے خلیہ کو یہ نہیں بتانا پڑتا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ البتہ ہر نیا خلیہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جگر میں اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔
یہ وسیع تر نظام انسان کے اختیار میں نہیں۔ صرف اللہ جو غیب کا جاننے والا ہے، نے ہر جاندار کو اور اسکے خلیات کو پیدا کیا اور وہ ہی ہے جو انکو ہر لمحہ قابو میں رکھتا ہے اور انکی نگرانی کرتا ہے۔اسی کی کرامات ہیں یہ سب۔ یہ کراماتی نظا م اللہ کا کام ہے جو ہمیشہ رہنے والا ہے، غیب کا جاننے والا ہے اور بہت طاقتور ہے۔
"لوگو اگر تمہیں مرنے کے بعد جی اٹھنے میں شک ہے تو سوچو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر نطفہ سے پھر خون بستہ سے پھر گوشت کے لوتھڑے سے جو صورت دیا گیا تھا اور بے نقشہ تھا۔ یہ ہم تم پر ظاہر کر دیتے ہیں۔ سورۃ الحج -(۵)