تمام اقوام کی جانب سے ترکی اسلامی یونین کے قیام کا مطالبہ
ترکی اسلامی یونین میں کسی مسلمان کو ‘ کسی یہودی کو ‘ اور کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی اور نہ کسی کا قتل ہوگا نہ کوئی زخمی ہوگا اور نہ ہی کوئی غریب ڈراور خوف کے سایہ میں رہے گا اور نہ ہی وہ کسی دباؤ میں رہے گا۔ قانون اور انصاف کیلئے کوئی بھی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی کسی اجنبی کا قتل ہوگا ۔غربت باقی نہیں رہے گی۔پیداوار میں کوئی قلت نہیں ہوگی ‘ سب کا خیال رکھا جائے گا کسی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔
اللہ تعالی ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کی راہ میں بہتر معاشرہ تشکیل دینے کیلئے آگے بڑھتے ہیں‘ جس سے ان کا مرتبہ بلند اور مستحکم ہوتا ہے (سورہ الصاف:4)
وہ جو غلط راہ پر چلتے ہوئے بھی اپنا محاسبہ کرتے ہیں۔ (سورہ شوری:39)
ہردن ترکی اسلامی یونین کے بغیر نقصاندہ اور تباہ کن ثابت ہو رہا ہے ۔
ترکی اسلامی یونین کو بغیر کسی تاخیر کے قائم کیا جانا چاہئے ۔
پوری ترکی قوم اس عظیم اتحاد کی پشت پناہی کرتی ہے ۔
تمام ترکی ریاستوں اور اسلامی ممالک اس اتحاد کو ناگزیر سمجھتے ہیں اور اپنی خوشی سے اس اتحاد کی تائید کرتے ہیں۔
ترکی اسلامی یونین ، تمام دنیابشمول ، امریکہ، روس، چین اور یوروپ کے روحانی اورمادی مفادات کیلئے کام کرے گی اوردنیا میں امن قائم کرنے کے اقدامات کرے گی ‘ بھائی چارگی ، اخوت اور محبت بڑھانے کے اقدامات کو فروغ دے گی۔
ترکی اسلامی یونین کا قیام ہی ایک ایسا حل ہے جو فوری طورپر دنیا میں پھیلی دہشت گردی ، بدنظمی، عدم تحفظ اور عالمی بحران پر قابو پاسکتی ہے۔
ترکی اسلامی یونین ایک محبت کیلئے قائم کی جانے والی یونین ہے ۔یہ دلوں کو جوڑنے والی اور والہانہ لگاؤ پیدا کرنے والی یونین ہوگی۔اس یونین کے قیام کا اہم مقصد محبت ، ایک دوسرے کی مدد، درد مندی ، تحمل اور ایک دوسرے کو سمجھنا ہے ۔اس کے علاوہ یونین کے قیام کے اہم مقاصد میں انسانی فلاح، آرٹ، سائنس اورٹکنالوجی کو اعلی سطح تک ترقی دینا ہے ۔ایک بار اگریہ یونین کا قیام عمل میں آجاتا ہے تو اس سے نہ صرف ترکی کے مسلمان بلکہ ساری دنیا مستفیذ ہو سکے گی۔
حالیہ تبدیلیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ترکی اسلامی یونین فاؤنڈیشن کے قیام کیلئے مسلم دنیا منتظر ہے ۔بلکہ اس کے اقدامات کی
ستائش کر رہی ہے‘ اس سے تمام اسلامی ممالک اورقریب جمع ہونے لگے ہیں۔یونین کا سب سے پہلا اور اہم مقصد مستقبل قریب میں آذربائیجان(Azerbaijan)اور ترکی کو مشترکہ طورپرختم کرتے ہوئے دوریاستوں سے واحد ریاست بنانا ہے۔
ترکی جو ایک سو پر ریاست ہے‘ اسلامی دنیا کی قیادت کرنے کا تیقن دیتی ہے اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو یکجا کرسکتی ہے ۔ وسیع وعریض طورپر پھیلے ہوئے ممالک جیسے کوکاسوس سے تنزانیہ اورمراقش سے فجی تک پھیلے تمام مسلمانوں کو ایک چھت کے نیچے جمع کریگی۔ اتحادترکی اسلامی دنیا کو مستحکم اور مضبوطی کا موقف عطا کرے گی ۔اور اس پر ایقان رکھنے سے اعتقاد اور اس کی کارگردگی میں اضافہ کا سبب بنے گی ۔صرف حقیقی اعتقاد ہی دوستانہ تعلقات اور اتحاد کو برقرار رکھنے میں مدد گارثابت ہوگی۔مسلمانوں کے آپس کی حقیقی دلی محبت سے ہی اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوگی اور اس میں خودغرضی کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔ ایک ایسی یونین جس کا قیام ایک ایسے مضبوط پائے پر مستحکم ہے جسے ساری انسانیت مانتی ہے۔او ر وہ ہے اللہ تعالی کا خوف اور اس سے والہانہ محبت ۔اس اتحاد کو کوئی بھی بگاڑ نہیں سکتاجب تک اللہ تعالی کی رضا اور اس کی مرضی شامل رہے گی ۔
ترکی اسلامی یونین ساری دنیا میں امن رائج کرے گی
ترکی اسلامی یونین مسلم ممالک کے درمیان تنازعوں کی یکسوئی کرتے ہوئے دنیا کے اسلامی ممالک میں امن کی راہ ہموار کریگی۔ اور ان ممالک کے درمیان جنگی صورتحال پیدا کرنے والے عناصر کی شدیدمذمت کرے گی اور جنگ جیسی صورتحال کو ٹالنے کیلئے ایک فورس تیار رکھے گی ‘ جو ایسے حالات پر قابو پانے میں مدد گار ثابت ہو سکے گی۔
ترکی اسلامی یونین کے قیام سے ، امریکہ، یوروپ، چین، روس، اسرائیل مختصر سے وقفہ میں سکون کی سانس لے سکیں گے ۔ دہشت گردی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ خام مال کی تقسیم کو یقینی بنانے کی ضمانت دی جائے گی۔ سماجی ، معاشی نظام میں بہتری پیدا کی جائے گی اور متضاد تہذیبوں کا خاتمہ ہو جائے گا ۔امریکہ کو اس کے ملک سے ہزاروں کلو میٹر دور فوجوں کو بھیجانا نہیں پڑے گا ۔اسرائیل کو چاردیواری میں قید نہیں رہنا پڑے گا ۔معاشی نظام پر گرفت رکھنے والے ممالک سے یوروپی ممالک راست تعلقات رکھ سکیں گے۔روس کو مزید سیکوریٹی کی ضرورت نہیں ہوگی۔چین کو خام مال کی تلاش کیلئے مشکلات کا سامنا کرنا نہیں ہوگا۔
یوروپی ممالک اگر دہشت گردسرگرمیوں سے نجات پالیتے ہیں ‘ تو اس کیلئے ایک قابل قدر اعزاز ہوگا۔ ترکی اسلامی یونین ایسے سرگرمیوں کے انسداد کی قائل ہیں۔ ترکی اسلامی یونین اسلامی دنیا میں پھیلے سب مسائل اور بدنظمی کو ختم کرنے کے اقدامات کرے گی ۔ترکی اسلامی یونین تہذیب اور تمدن کو برقرار رکھنے کیلئے ساتھ ساتھ یوروپ سے بھی عظیم تہذیب قائم کرنے کی مساعی کرے گی۔ اور ترک ریاستیں ایک صحت مند اور دولت مند علاقوں کی تشکیل بہتر کر سکتی ہے ۔ترکی اسلامی یونین عظیم دولت ، افراط ، امن وامان قائم کرنے کیلئے اقدامات کرے گی۔
ترکی اسلامی یونین کے قیادت سنبھالنے کیلئے عدنان اخترکے انٹرویوک کے اقتباسات
585958 نبی کریم ﷺ کی حدیث کے مطابق اس کا ذکر ہے کہ آخری ایام میں ترکی قوم پربہت بڑی ذمہ داری عائدکی جائے گی اور اس حدیث شریف میں استنبول کی خاص کر نشاندہی کی گئی ہے ۔ اور ترکی قوم اخلاق اقدار کے ساتھ موزوں طریقہ پر اس ذمہ داری کو نبھانے کی متحمل ثابت ہوسکتی ہے۔اور جس کسی سے بھی کہا جاتا ہے وہ اس سے متفق نظرآتا ہے ۔ ترکی قوم کے کردار اس طرح ہیں کہ وہ مذہبی رواداری کی پاسدار ہے اورکٹراسلامی اصول پر گامزن ہوتی ہے اوراسی قوم کو یہ قیادت کی کمان سنبھالنے کا حق ہے ۔یہ اپنے فرائض کی تکمیل کے ساتھ بہتر قیادت کرسکتی ہے۔ یہ کسی نسلی ذات پات کوترجیح دینے کی قائل نہیں اور کوئی سچامسلمان ایسا کبھی دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ہم لوگ اللہ کے خدمت گزار ہیں جہاں پر تقویٰ کو ترجیح دی جاتی ہے (اللہ تعالی کا خوف، جو بندے کو غلط کاموں سے روکتا ہے اور اللہ تعالی کو رضامند کرنے کا مشتاق ہوتا ہے )
نسلوں میں امتیاز پیدا کرنا اور گناہوں سے روکنااس کے صفات میں شامل ہے۔ اللہ تعالی ایسے بندوں کی مدد کرتا ہے جو اچھی سونچ رکھتے ہیں اور ان کیلئے بہتر اجر عطاء کرتا ہے ۔اورجب میں ترکی اسلامی یونین کی ترکی ریاستوں کی مدد کے ذریعہ ترکی کی قیادت میں قیام کی بات کرتا ہوں تب میرے سامنے ترکی قوم کے اخلاقی اقدار کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس قوم کوبہت ہی حساس اور بہتر بنایاہے اوران کے ذریعہ دنیا بھر میں انصاف کو قائم کرنے اور امن پھیلانے کے کام کا خواہاں ہے۔
یہ ایک قدرتی فطری قیادت کی متحمل ہے جو تکالیف کے انسداد ، مشکلات ، بھوک مری کے خاتمے ، ہمت ودلیری، مذہبی اخلاق اقدار اور ایمانداری کے ساتھ وفادار بھی ہے۔ Anatolian قوم بہت ہی نیک سیرت ہو تی ہے۔اگر آپ کالے سمندر (Black Sea region) کے علاقوں میں چلے جائیں تو آپ ان کے اخلاقی اقدار دیکھ کر حیران ہو جائیں گے ۔اگر آپ Anatolia کے جنوبی مغرب علاقوں میں جائیں تو آپ ان کے اخلاقی مظاہروں کو دیکھ کر تعجب میں پڑ جائیں گے ۔الفاظ کے ذریعہ ان کی مہمان نوازی ، خلوص، احترام ، ہمدرد سلوک اور عزت کو قلمبند نہیں کر سکیں گے۔ ان کا ثانی آپ کودنیا کے کسی بھی علاقے میں نہیں ملے گا۔
خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ ہے کہ ترکی کو اس قیادت کاورثہ عظیم تر سلطنت عثمانیہ( Ottoman Empire) سے ترکہ میں حاصل ہوا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ترکی اسلام کا مظہر ہے ‘ جو ایماندارانہ طریقہ کار مقبولیت پر منحصر ہے ‘ جس میں ظلم ، زبردستی، تشدد قطعی نہیں ہے۔یہ تمام اہم بنیادی چیزیں اس قیادت میں شامل ہیں۔ مذکورہ مثالیں مسلم دنیا کیلئے رول ماڈل ہوں گے اور مغربی ممالک کے سربراہوں کیلئے ذہنوں میں اٹھنے والے شکوک کا ازالہ کریں گے ۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ مقدس اور یادگار نشانیاں ترکی میں ہیں ۔چوتھی بات یہ ہے کہ ترکی دنیا کے تمام ممالک کا سنٹر ہے اور ترکی ریاستوں کے ذریعہ یوروپی اور اسلامی ممالک سے رابطہ بنانے کیلئے ایک اہم مقام پر قائم ہے۔ہم لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ کام کی ذمہ داری نبھانے کے قائل ہیں اور جس کیلئے ہم مشتاق ہیں اور کوئی دوسرا ہماری طرح باشعور نہیں۔
ترکی اسلام یونین ہی عالمی معاشی بحران پر قابو پاسکتی ہے
ترکی اسلامی یونین تجارتی امورکو استحکام بخشتے ہوئے معاشی ترقی کی ضامن ہو سکتی ہے ۔
مسلم ممالک میں آپسی مفاہمت اور اشتراک کے درمیان، معاشی، سیاسی اور تہذیبی امور میں واقع خامیوں کی نکاسی کرے گی ۔ایسے ممالک جو اس خامیوں سے پاک ہیں وہ یونین کے وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ممکنہ حد تک انفراسٹکچرکو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس سے معاشی ترقی ممکن ہوگی ، سائنس اور ٹکنالوجی میں سرمایہ کاری بڑھے گی ۔اس سے تعلیمی سطح میں اضافہ ہوگا اور معاشی ترقی ہوگی ۔ اس سے معاشرے میں کئی امور میں بھی کئی فائدے ہوں گے۔
ترکی اسلامی یونین مسلم ممالک کو استحکام بخشتے ہوئے ترقی نو کی طرف لے جائے گی۔اسلامی مشترکہ مارکٹ کے قیام کیلئے کئے جانے والی کوششوں کی وجہ سے اس سے ایک ملک کی اشیاء آسانی سے دوسرے ملک کو بہ آسانی قوم ونسل کے امتیاز کے بغیر منتقل کی جاسکے گی۔تجارتی علاقے بڑھیں گے‘ اس سے تمام مسلم ممالک فیض یاب ہوں گے ۔اس سے مارکٹ شیئرس میں اضافہ ہوگا‘ برآمدات بڑھیں گے اور مسلم ممالک میں صنعتوں کے قیام کیلئے راہ ہموار ہوگی اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ ٹکنالوجی میں بھی ہمہ گیرترقی ممکن ہو گی۔
ترکی اسلام یونین کے قیام سے توانائی کے وسائل کی ضمانت ہوگی ‘ ترکی اسلامی یونین کے بیانرکے تحت تمام علاقو ں میں امن اور سلامتی کے ساتھ زیر زمین ذخائر پر کنٹرول کرے گی اور جمہوری طریقہ نظام کے تحت ان وسائل کا ایک اچھے انداز میں استعمال کرے گی۔
ان وسائل کا بہترطورپر استعمال کیا جائے گا۔ان وسائل کے متوازن استعمال کے ذریعہ اسلامک ممالک یاکسی دوسرے طبقہ کو استحصال کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔یہ ایک تبدیلی ہوگی ‘ جس سے سیاسی پالیسیوں میں ایک طرح کا توازن رکھا جائے گا اور خاص کر آئیل کی پیداواراور قیمتوں پرعالمی پیمانے پر معاشی امور کو پر گرفت رکھنے میں مدد ملے گی۔
ترکی اسلامی دنیا ایک طاقتور معیشت بن کرابھرے گی اور شمالی دنیا اور دیگر معاشروں پر چھاجائے گی۔سب ہی معاشرے توانائی(پاور) تلاش کرے گی اوراس سے بغیرکسی بھید بھاؤ کے مشترکہ تجارت کرنے کی مساعی کی جائے گی۔
مزید یہ کہ مغربی ممالک کے مالیاتی اداروں کی امدادہمارے علاقوں کو ترقی دینے کیلئے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اس کے بجائے یہ امدادعالمی معیشت کو استحکام بخشنے کیلئے استعمال کی جاسکے گی۔
اس پس منظر کے سبب ترکی قوم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور ترک قوم کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ ترکی اسلامی دنیا کی قیادت کرے۔امن و امان قائم کرنے کی جہد کرے اور تمام دنیا کیلئے خوشحالی کا ذریعہ بنے۔
ترکی اسلامی دنیا کی قیادت دنیا کی تاریخ میں ایک سب سے بڑا چیلنج ثابت ہو گی ۔یہ ترک قوم کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری ہے یا پھر دوسرے معنوں میں ترک ہونے کے ناطے محض ترکوں کا تحفظ مقصد نہیں، بلکہ تمام ترک اسلامی دنیا کا تحفظ اور ساری انسانیت کیلئے امن وامان کو قائم کرنا ہے۔