’’زمین۔۔۔ اپنے کر�ۂ ہوائی اور سمندروں،پیچیدہ کرۂ حیات (بایو اسفیئر)، قدرے تکسید شدہ قشرِارض (Crust) سلیکا سے بھرپور آتشی اور تہہ دار اور کثیر شکلی چٹانوں کے ساتھ (جومیگنیشیم سلیکیٹ کے مینٹل اور قلب میں موجود) گرم لوہے پر بچھی ہوئی ہیں، اپنی برفانی چوٹیوں، صحراؤں، جنگلوں، ٹنڈرا کے خطوں، جھاڑیوں سے اٹے مقامات، تازہ پانی کی جھیلوں، کوئلے کے تختوں (beds)، تیل کے ذخائر، آتش فشانوں، دھوئیں کے بادلوں، فیکٹریوں، گاڑیوں، پودوں، جانوروں، مقناطیسی میدان، کرۂ روانی (آئنو اسفیئر)، وسط بحری گھاٹیوں (mid-ocean ridges) اور تمام حیرت انگیز خوبیوں سمیت۔۔۔ عقلوں کو خبط کردینے والی پیچیدگی کا حامل نظام ہے‘‘۔ جے ایس لیوس۔ امریکی ماہر ارضیات فرض کیجئے کہ دور خلاؤں سے ایک خلائی مسافر ہمارے نظامِ شمسی آتا ہے۔ اسے یہاں بڑے دلچسپ مناظر کا سامنا ہوگا۔ ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ وہ مسافر ہم خود ہیں۔ ہم نظامِ شمسی میں اس طرح سے داخل ہورہے ہیں کہ کہ سیاروں اور سورج کا مستوی (Plane) ہماری سیدھ میں ہے۔ ہم نظام شمسی کے سیارے پلوٹو پر سب سے پہلے پہنچیں گے۔ یہ سیارہ نہایت ٹھنڈا ہے جس کا درجہ حرارت منفی 238 درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ اس کا پتلا سا کرۂ فضائی صرف اس وقت وجود میںآتا ہے جب یہ اپنے خاصے بیضوی مدار میں حرکت کرتا ہوا سورج سے قدرے نزدیک جاتا ہے۔ باقی کے اوقات میں یہ برف کا ایک ڈھیر بنا رہتا ہے۔ سورج کی طرف بڑھتے ہوئے ہمیں دوسرا سیارہ ’’نیپچون‘‘ ملتا ہے۔ یہ بھی انتہائی سرد ہے جس کا درجہ حرارت منفی218 درجہ سینٹی گریڈ ہے۔ اس کے کرۂ ہوائی کا بڑا حصہ ہائیڈروجن، ہیلیم اور میتھین پر مشتمل ہے۔۔۔ اور یہ زندگی کیلئے زہریلا ہے۔ یہاں تقریباً سارا وقت 2000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے قیامت خیز ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔ اس سے گزرنے کے بعد اب ہم یورینس پہنچ رہے ہیں۔ اس پربھی گیس کی حکمرانی دکھائی دیتی ہے۔ البتہ اس کی سطح پر برف اور چٹانیں بھی ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت تقریباً منفی 214 ڈگری سینٹی گریڈ اور کرۂ ہوائی میں وہی ہائیڈروجن، ہیلیم اور میتھین گیسیں بکثرت موجود ہیں۔ یہ سیارہ بھی انسانی رہائش کے لئے قطعاً موزوں نہیں ہے۔ اگلا سیارہ زحل ہے جو اس نظام شمسی کا دوسر ابڑا سیارہ بھی ہے۔ اپنے حلقوں کی وجہ سے یہ فوراً نظر ��یں آجاتا ہے۔ زحل کے حلقے گیسوں، پتھروں، گرد اور برف سے بنے ہیں۔ زحل کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پورے کا پورا گیس پر مشتمل ہے۔ یہاں 75 فیصد ہائیڈروجن اور 25فیصد ہیلیم ہے۔ جبکہ اس سیارے کی کثافت، پانی سے بھی کم ہے۔ یعنی اگر آپ اس سیارے پر ’’اترنا‘‘ چاہتے ہیں تو آپکو اپنا خلائی جہاز ہوا سے بھری ہوئی کشتی کی طرح بنانا پڑے گا۔ ایک بار پھر یہاں کا اوسط درجہ حرارت بے حد کم ہے یعنی منفی 178 ڈگری سینٹی گریڈ۔ اب ہم مشتری پہنچ رہے ہیں جو اس نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ بھی ہے۔ یہ زمین کے مقابلے میں 318 گنا بڑا ہے۔ زحل کی طرح مشتری بھی ایک گیسی سیارہ ہے۔ کیونکہ ایسے سیارووں میں ’’فضا‘‘ اور ’’سطح‘‘ میں فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لہٰذا یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہاں کی ’’سطح کا درجہ حرارت‘‘ کتنا ہے۔ البتہ سیارے کے بیرونی حصوں کا درجہ حرارت منفی143 ڈگری سینٹی گریڈ معلوم کیا گیا ہے۔ مشتری کی فضا کی سب سے نمایاں چیز اس پر نظر آنے والا عظیم سرخ دھبہ ہے۔ اسے آج سے تین سو سال پہلے دریافت کیا گیا تھا۔ آج ماہرین فلکیات جانتے ہیں کہ یہ ایک زبردست اور بھیانک طوفانی نظام ہے جو مشتری کی فضا میں ہزاروں لاکھوں برس سے یونہی دندناتا پھر رہا ہے۔ یہ دھبہ اس قدر بڑا ہے کہ زمین جیسے دوچار سیارے تو آسانی اس میں سما جائیں گے۔ نگاہوں کو لبھانے کے لئے تو مشتری ایک خوبصورت سیارہ ہوسکتا ہے لیکن انسانی رہائش کے لئے قطعاً غیر موزوں ہے۔ اس کے یخ بستہ درجہ حرارت، طوفانی ہواؤں اور شدید تابکاری کی بنا پر کوئی بھی متنفس یہاں پہنچ کر فوراً ہی مرجائے گا۔ اب آرہا ہے مریخ۔ یہاں کے کرۂ ہوائی میں بھی انسان زندہ نہیں رہ سکتا کیونکہ اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ بکثرت موجود ہے۔ اس کی سطح پرجگہ بے جگہ پتھر اور گڑھے نظر آتے ہیں جو کروڑوں اور اربوں سال سے دوران یہاں برسنے والے شہابیوں (meteors) اور تیز ہواؤں کا نتیجہ ہیں۔ ان ہواؤں کی وجہ سے مریخ پر ریت کے ایسے طوفان اٹھتے رہتے ہیں جو بیک وقت چند دن سے لے کرچند ہفتوں تک جاری رہتے ہیں۔ یہاں کا درجہ حرارت گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ تاہم یہ منفی 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔ اس سیارے پر زندگی موجود ہوے کی توقعات اور مفروضات سب سے زیادہ ہیں لیکن اب تک شہادتیں یہی بتاتی ہیں کہ مریخ بھی زندگی سے یکسر خالی سیارہ ہے۔ مریخ سے دور ہٹتے ہوئے اور سورج کے قریب جاتے ہوئے راستے میں ایک نیلگوں سیارہ ہمیں نظر آتا ہے لیکن بعد کے تفصیلی مطالعے کے لئے فی الحال ہم اسے نظر انداز کرتے ہوئے آگئے بڑھ جاتے ہیں۔ اب ہماری مہم ’’زہرہ‘‘ (Venus) نامی سیارے پر پہنچ گئی ہے۔ اس سیارے پرہر جگہ روشن سفید بادل چھائے ہوئے ہیں۔ مگر یہاں کی سطح کا درجہ حرارت 450 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو سیسہ تک پگھلا دینے کے لئے کافی ہے۔کرۂ ہوائی کا بڑا حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ سیارہ زہرہ کی سطح پر کرہ ہوائی کا دباؤ ارضیاتی فضائی دباؤ (زمین پر ہوا کے دباؤ) سے 90 گنا زیادہ ہے۔ (اگر آپ زمین پر ہوں تو اتنا زیادہ دباؤ آپ کو سطح سمندر سے ایک کلومیٹر گہرائی میں اترنے کے بعد حاصل ہوگا۔) زہرہ کی فضا میں گیسی سلفیورک ایسڈ تہہ در تہہ پایا جاتا ہے جس کی موٹائی کئی کلومیٹر تک ہوتی ہے۔ لہٰذا جب کبھی زہرہ پر بارش ہوتی ہے تو وہ کوئی عام بارش نہیں ہوتی بلکہ ’’تیزابی بارش‘‘ (Acid rain) ہوتی ہے۔ ایسے جہنمی ماحول میں انسان تو کیا کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہاں سے مزید آگے بڑھ کر ہم عطارد(مرکری) پہنچتے ہیں۔ دیگر سیاروں کے مقابلے میں یہ چھٹا سا پتھریلا گولا محسوس ہوتا ہے جو ہر وقت سورج سے اٹھنے والی شدید شعاعوں اورحرارت کی زد میں رہتا ہے۔ سورج کی زبردست کشش کے باعث عطار د کی اپنے محور(Axis) پر گردش اتنی سست پڑ چکی ہے کہ جب یہ اپنے مدار میں دو چکر پورے کرتا ہے تو اس کی اپنے محور پر صرف تین گردشیں مکمل ہوپاتی ہیں۔ اسی بناء پر عطارد ایک طرف سے شدید گرم اور دوسری طرف سے انتہائی سرد رہتا ہے۔ اس سیارے کے دن اور رات میں درجہ حرارت کا فرق تقریباً 1000 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں بھی زندگی پنپ نہیں سکتی۔ اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نظام شمسی کے متذکرہ آٹھ سیاروں اور ان کے لگ بھگ 53 سیارچوں (satellites) میں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جسے زندگی کے وجود اور تسلسل کے لئے موافق یا سازگار قرار دیا جاسکے۔ یہ تمام کے تمام گیس، برف یا چٹانوں کے بے جان ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن اس نیلے سیارے کے بارے میں کیا خیال ہے جسے ہم نے نظر انداز کر دیا تھا؟ وہ دوسرے سیاروں سے خاص مختلف دکھائی دیتا ہے۔ اس کی قابل رہائش فضا، سطح کے خدو خال، درجہ حرارت، مقناطیسی میدان، متنوع عناصر کی فراوانی اور سورج سے انتہائی مناسب فاصلہ، ان سب کو دیکھ کر یہی احساس ہوتا ہے کہ شاید اسے خاص طور پر زندگی کے لئے ہی تخلیق کیا گیا ہے ۔۔۔ اور جیسا کہ ہم پر انکشاف ہوگا، حقیقت میں بھی ایسا ہی ہے۔ چند جملہ ہائے معترضہ اور ’’مطابقت پذیری‘‘ (Adaptation) کے بارے میں تنبیہ: باقی کے اس تمام مضمون میں ہم سیارہ زمین کی خصوصیات کا جائزہ لیں گے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین کو خاص طور پر زندگی کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے پہلے کسی بھی ممکنہ غلط فہمی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ اہم نکات کی وضاحت کر دی جائے۔ نظریہ ارتقاء کو سائنسی حقیقت سمجھنے والے لوگ ’’مطابقت پذیری‘‘(adaptation) کے تصور پر بھی پورا یقین رکھتے ہیں۔ یہ جملہ ہائے معترضہ انہی کے بارے میں ہیں۔ انگریزی لفظ Adaptation کی حالت فعل adapt ہے۔ اس کا مطلب ’’بدلتے ہوئے حالات کے مطابق خود کو تبدیل کرنا یا بہتر بنانا‘‘ ہے۔ جب ارتقاء پرست اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں توہ اس سے یہ مراد لیتے ہیں ’’کہ کسی جاندار یا اس کے (جسم کے) کسی حصے میں ہونے والی ایسی تبدیلی جو اسے درپیش ماحول میں وجود قائم رکھنے کے لئے موزوں ترین بنائے‘‘۔ نظریہ ارتقاء کا دعویٰ ہے کہ زمین پرموجود ساری زندگی صرف ایک جاندار (اکلوتے مشترک جد امجد) سے وجود میںآئی ۔۔۔ جو بذات خود ایک امکان کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا۔ اپنے خیالات کی حمایت میں یہ نظریہ لفظ ’’مطابقت پذیری‘‘ کا بکثرت استعمال کرتا ہے۔ ارتقاء پرستوں کا کہنا ہے کہ تمام جاندار بدلتے ہوئے ماحول سے مطابقت اختیار کرتے کرتے ہی نئی انواع (species) میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ (نظریہ ارتقاء کی دھوکے بازیوں اور جعلسازیوں کی تفصیلات، شمارہ جولائی، ستمبر اور اکتوبر 2001ء میں ’’نظریہ ارتقاء سائنسی فراڈ ہے!‘‘ کے عنوان سے سلسلہ وار شائع ہوچکی ہیں۔ یہ سلسلہ بھی جناب ہارون یحییٰ کی تصنیف سے ماخوذ تھا۔) مطابقت پذیری کے اس مخصوص مفہوم کے ساتھ، نظر ارتقاء اصل میں ’’لیمارک ازم‘‘ (lamarckism) کی ایک شکل ہے۔ نامیاتی ارتقاء کے اس نظریئے میں یہ کہا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پودوں اور جانوروں کی ساخت میں تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ یہی تبدیلیاں اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ سائنسی حلقے اس خیال کو ٹھوس بنیادوں پر۔۔۔ اور بجا طور پر مسترد کرچکے ہیں۔ کوئی سائنسی بنیاد نہ ہونے کے باوجود بھی مطابقت پذیری کا تصور بہت سے لوگوں کو آج بھی متاثر کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس مسئلے پر بحث کرنا ضروری ہے۔ زندگی کی مختلف اشکال میں مطابقت پذیری کی صلاحیت پر یقین کرنے کے اگلے مرحلے پر یہ خیال ابھرتا ہے کہ دوسرے سیاروں پر بھی زندگی وجود میں آسکتی ہے۔۔۔ جیسے کہ کبھی زمین پر نمودار ہوئی تھی۔ پھر پلوٹو پر رہنے والی چھوٹی سبز مخلوقات کا خیال بھی آتا ہے جو کسی طرح سے وہاں کے منفی 238 ڈگری والے ماحول سے ’’مطابقت‘‘ اختیار کرگئی ہوں۔ کسی ایسی مخلوق کی جانب بھی ذہن بھٹک جاتا ہے جو آکسیجن کے بجائے ہیلیم گیس کے سانس لیتی ہو ۔۔۔ اور شاید پانی کے بجائے سلفیورک ایسڈ پیتی ہو۔ ایسے خیالات کسی نہ کسی طرح سے انسان کو خوابوں کی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ وہ لوگ خاص طور پر ان خوابوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جن کے خیالات پر ہالی ووڈ کی فلموں نے اثر ڈالا ہوتا ہے۔ مگر یہ واقعی محض خواب و خیال کی اور (ہالی ووڈ فلموں کی) باتیں ہیں جنہیں گھڑنے کے لئے کچھ بھی تصور کرلیا جاتا ہے۔ حیاتیات اور حیاتی کیمیا کی خاصی بہتر معلومات رکھنے کے باوجود، ارتقاء پرست ماہرین ایسے غیرحقیقت پسندانہ خیالات کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھاتے۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ زندگی صرف اور صرف اسی وقت وجود میں آسکتی ہے جب موزوں ترین حالات اور عناصر بیک وقت دستیاب ہوں۔ اگر وہ واقعی اس پر پورا یقین رکھتے ہیں تو یہ ماننا پڑے گا کہ خلائی مخلوق کی کہانیاں گھڑنے اور انہیں پیش کرنے والے لوگ اندھوں کی طرح نظریہ ارتقاء سے چمٹے ہوئے ہیں ۔۔۔ اور انہوں نے حیاتیات و حیاتی کیمیا کے بنیادی حقائق تک بالائے طاق رکھ دیئے ہیں۔اسی غفلت اور بے حسی نے انہیں ایسے خوبصورت اور تحیرخیزمنظر نامے تشکیل دینے کے قابل بنایا ہے۔ لہٰذا مطابقت پذیری کے تصور میں فاش غلطی کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اس طرف توجہ کر نا ضروری ہے کہ زندگی صرف مخصوص لازمی کیفیات اور عناصر کی موجود گی ہی میں وجود پذیر ہو سکتی ہے۔ سائنسی اصول و ضوابط پر مشتمل، اب تک زندگی کا صرف ایک ماڈل ہی وضع کیا جا سکا ہے جسے ’’کاربن پر مبنی زندگی‘‘ (Carbon based life) کہا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں خود سائنس دان بھی اس امرپر متفق ہیں کہ اگر کائنات میں کسی دوسری جگہ زندگی ہوئی بھی تو وہ بھی کاربن پر ہی مبنی ہوگی۔ (مزید دیکھئے: گلوبل سائنس، شمارہ جنوری 2001ء ’’زندگی کی روح، کاربن‘‘۔) کاربن، دوری جدوَل (پیریاڈک ٹیبل) میں چھٹا عنصر ہے۔ یہی زمین پر زندگی کی اساس بھی ہے کیونکہ تمام نامیاتی سالمے (مثلاً نیوکلیئک ایسڈز، امائنو ایسڈز، پروٹینز، روغنیات اور شکریات وغیرہ) کاربن ہی کے دیگر عناصر کے ساتھ مختلف انداز سے ملنے پر تشکیل پاتے ہیں۔ کاربن ۔۔۔ ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن وغیرہ سے مل کرلاکھوں مرکبات بناتا ہے۔ کوئی دوسرا عنصر کاربن کی جگہ نہیں لے سکتا۔ کاربن کے سوا کسی دوسرے عنصر میں یہ صلاحیت بھی نہیں ہے کہ وہ ان متعدد اقسام کے کیمیائی بند بنا سکے جن پرزندگی کا انحصار ہے۔نتیجتاً اگر زندگی کائنات میں کہیں بھی، کسی بھی دوسرے سیارے پر موجود ہے تو وہ لامحالہ کاربن پر ہی مشتمل ہوگی۔ تاہم، ایسی متعدد شرائط ہیں جو بجائے خود ’’کاربنی زندگی‘‘ کے وجود کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ مثلاً کاربن والے نامیاتی مرکبات (مثلاًپروٹین) صرف مخصوص حدود کے درمیان درجہ حرارت میں ہی قائم رہ سکتے ہیں۔ یہ 120 ڈگری سینٹی گریڈ پر بکھرنا شروع ہوجاتے ہیں اور منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرار پر ان میں ناقابلِ تلافی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے۔ لیکن درجہ حرارت ہی وہ اکلوتی چیز نہیں ہے جو کاربن پر مبنی زندگی کے لئے موزوں و مناسب حدود کا تعین کرتی ہو۔ ان فیصلہ کن عوامل میں روشنی کی نوعیت اور مقدار، قوتِ ثقل کی مضبوطی، کرۂ ہوائی کی ترکیب (composition) اور مقناطیسی میدان کی مضبوطی وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک کیفیت بھی تبدیل ہوتی (مثلاً زمین کا اوسط درجہ حرارت 120 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوتا) تو زمین پر کوئی زندگی نہ ہوتی۔ لہٰذا ہیلیم سے سانس لینے اور سلفیوک ایسڈ پینے والی مخلوق کہیں موجود نہیں ہو سکتی، کیونکہ زندگی صرف کاربن ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ زندگی بھی خاص طور پر ترتیب دیئے گئے حالات کے تحت مخصوص حدود کے اندر ہی کسی ماحول میں موجود ہوسکتی ہے۔ یہ زندگی کے لئے بالعموم اور انسانوں کے لئے بالخصوص سچ ہے۔ زمین ہی ایک ایسا ماحول ہے جسے خاص طور پر زندگی کی خاطر تخلیق کیا گیا ہے۔ دنیا کا درجہ حرارت درجہ حرارت اور کرۂ ہوائی وہ پہلے دو عوامل ہیں جو زمین پر زندگی کے لئے لازم ہیں۔ اس نیلگوں سیارے کا درجہ حرارت جاندار اشیاء کے لئے قابل رہائش اور اس کا کرۂ ہوائی اس لائق ہے کہ (جاندار) اس میں سانس لے سکیں ۔۔۔ خاص طور پر پیچیدہ جاندار، مثلاً انسان۔ یہ دونوں بالکل مختلف عوامل ان حالات کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے ہیں جو ان دونوں کے لئے بیک وقت مثالی(Ideal) ثابت ہوئے۔ ان میں سے ایک، زمین کا سورج سے فاصلہ ہے۔ زمین کبھی زندگی کے لئے سازگار نہ ہوتی اگر وہ زہرہ کی طرح سورج سے بہت قریب یا زحل کی طرح سور ج سے بہت دور ہوتی۔کاربن پر مشتمل (نامیاتی) سالمات 120ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر منفی 20 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت کی حدود میں رہتے ہوئے ثابت و سالم رہ سکتے ہیں۔ اور زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جس کا اوسط درجہ حرارت ان حدود کے درمیان رہتا ہے۔ جب پوری کائنات کا بطور مجموعی جائزہ لیا جائے تو اس نوعیت کے خاص الخاص اور نپے تلے درجہ حرارت تک رسائی انتہائی مشکل نظر آتی ہے۔ کائنات میں درجہ حرارت، ستاروں کے لاکھوں ڈگری سینٹی گریڈ سے لے کر خلاؤں میں منفی 270 ڈگری سینٹی گریڈ تک پھیلا ہوا ہے۔ امریکی ماہرین ارضیات، فرینک پریس اور ریمنڈ سیور نے زمین پر قائم اوسط درجہ حرارت کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا ہے: ’’زندگی، جیسا کہ ہم اسے جانتے ہیں، درجہ حرارت کے نہایت تنگ وقفے (narrow interval) کے دوران ہی ممکن ہے۔ یہ وقفہ مطلق صفر (منفی273 ڈگری سینٹی گریڈ) اور سورج کی سطح کے درجہ حرارت کی حدود کے درمیان شاید 1 یا2 فیصد جتنا ہوگا‘‘۔ زمین پر(زندگی کے لئے) حرارتی حدود برقرار رہنے کا بھی بیک وقت سورج سے پیدا ہونے وانے والی حرارت اور زمین کے سورج سے فاصلے سے گہرا تعلق ہے۔ تخمینہ جات کے مطابق، اگر سورج سے خارج ہونے والی توانائی میں صرف دس فیصد کی بھی کمی ہوجائے تو زمین پربرف کی کئی میٹر موٹی تہیں ہر طرف دکھائی دینے لگیں گی ۔۔۔ اور اگر دس فیصد اضافہ ہوجائے تو یہاں رہنے والی تمام جاندار اشیاء جل کرمرجائیں۔ پھر زمین کے اوسط درجہ حرارت کا مثالی (آئیڈیل) ہونا ہی کافی نہیں بلکہ زمین تک آنے والی حرارت کا پورے سیارے پر نہایت متوازن اور ہموار انداز میں تقسیم ہونا بھی اشد ضروری ہے۔ اس امر کو یقینی بنانے کے لئے بھی متعدد خصوصی تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ زمین اپنے محور پر 23 درجے 27 منٹ جھکی ہوئی۔ یہ جھکاؤ قطبین اور خط استوا (equator) کے درمیانی علاقوں میں کرۂ فضائی کو بہت زیادہ گرم ہونے سے بچاتا ہے، اور انہیں (زندگی کے لئے) موزوں بناتا ہے۔ اگر یہ جھکاؤ موجود نہ ہوتا تو قطبین اور خط استواء کے درمیان درجہ حرارت کا فرق بھی بہت زیادہ ہوتا۔ ایسی صورت میں اوسط درجہ حرارت والے خطے (یعنی معتدل علاقے) بھی ایسے معتدل نہیں ہوتے جیسے آج ہیں ۔۔۔ اور وہ رہائش کے قابل بھی نہ ہوتے۔ زمین کی اپنے محور پر گردش کرنے کی رفتار بھی اس کے حرارتی توازن (Thermal balance)کو قائم رکھنے میں مدد گار ہے۔ زمین چوبیس گھنٹے میں اپنے محور کے گرد ایک چکر پورا کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ دن سے رات اور رات سے دن ہونے کا درمیانی وقفہ بہت کم رہتا ہے۔ یہ کم وقفہ بھی زمین کے روشن اور تاریک حصوں کے مابین حرارت کے فرق کو موزوں حدود میں قائم رکھتے ہیں۔ گردشی رفتار کی اہمیت سیارہ عطارد (مرکری) سے واضح کی جا سکتی ہے جہاں کا ایک دن وہاں کے ایک سال سے بھی لمبا ہوتا ہے اور جہاں ہر دن (روشنی) اور رات(تاریکی) میں درجہ حرارت کا فرق تقریباً 1000 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ حرارت کی موزوں تقسیم میں زمینی جغرافیہ بھی ایک اہم مددگار ہے۔ قطبین اور خط استوا کے علاقوں کے درجہ حرارت میں لگ بھگ 100 ڈگری سینٹی گریڈ کا فرق ہے۔ اگر یہی فرق کسی ہموار علاقے پر محیط ہوتا تو اس کا نتیجہ1000 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار پر سفر کرنے والی طاقتور ہواؤں کی شکل میں ظاہرہوتا، جو اپنے راستے میں آنے والی ہر شے کو اڑا لے جاتیں۔ اس کے برعکس، زمین پر جا بجا جغرافیائی رکاوٹیں ہیں جو حرارتی فرق کے ان ہولناک نتائج کو وقوع پذیر ہونے سے روکے رکھتی ہیں۔ ان رکاوٹوں سے ہماری مراد پہاڑوں کی زنجیریں ہیں۔ ان میں سے بعض تو مشرق میں بحرالکاہل سے شروع ہو کر مغرب میں بحر اوقیانوس تک چلی گئی ہیں۔ کچھ پہاڑی سلسلے ہمالیہ سے شروع ہوئے ہیں اور ایک وسیع علاقے کا احاطہ کرتے ہوئے اناطولیا میں کوہ ثور (Tausur) اور یورپ میں ایلپس (Alps) تک چلے گئے ہیں۔ سمندرپر استوائی خطوں کی اضافی حرارت شمال اور جنوب کی طرف منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ مظہر، پانی میں ایصالِ حرارت (Heat conduction) اور حرارت کو منتشر کرنے کی زبردست صلاحیت کا مرہون منت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ متعدد خود کارنظام بھی ہمہ وقت کارفرما رہتے ہوئے فضا کا درجہ حرارت متوازن بنانے میں مدد کرتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی حصہ زیادہ گرم ہونے لگتا ہے تو پانی میں تبخیر کی رفتاربھی بڑھ جاتی ہے اور یوں بادل بن جاتے ہیں۔ اگر بارش نہ بھی ہوتب بھی یہ بادل زیادہ درجہ حرارت کو خلاء کی طرف منعکس کر دیتے ہیں اور یوں ان کے زیر سایہ آنے والے علاقوں کی زمین اور ہوا کادرجہ حرارت زیادہ بڑھنے نہیں پاتا۔ زمین کی کمیت اور مقناطیسی میدان زمین کے سورج سے فاصلے، اس کی گردشی رفتار اور جغرافیائی خدوخال کی طرح زمین کی جسامت بھی کچھ کم اہم نہیں۔ سیاروں کے تصوراتی سفر کے دوران ہم دیکھ چکے ہیں کہ اگر عطارد زمین سے دس گنا چھوٹا ہے تو مشتری کی جسامت، زمین سے 318 گنا زیادہ بھی ہے۔ دیگر سیاروں کی بہ نسبت زمین کی موجودہ جسامت محض اتفاق ہے یا اسے بھی بہت سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے؟ جب ہم زمین کے طول و عرض کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پریہ عقدہ کھلتا ہے کہ زمین کو اتنی بڑی جسامت کے لئے ہی خاص طور پر وضع کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں امریکی ماہرین ارضیات فرینک پریس اور ریمنڈ سیور کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیے:’’۔۔۔اور زمین کی جسامت بالکل درست تھی ۔۔۔ یعنی نہ اتنی مختصر کہ اس کی کشش ثقل نہایت کمزور پڑ جائے اور کرۂ ہوائی میں شامل گیسوں کو خلاء میں فرار ہونے سے نہ روک سکے ۔۔۔ اور نہ اتنی زیادہ کہ کشش ثقل اس قدر طاقتور ہوجائے کہ ایک بہت کثیف کرۂ ہوائی وجود میں آجائے جس میں مضر گیسیں بھی شامل ہوں‘‘۔ زمینی کمیت کے علاوہ اس کا اندرون (interior) بھی خاص طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اپنے قلب (core) کی وجہ سے زمین ایک طاقتور مقناطیسی میدان کی حامل ہے جو یہاں زندگی کے تحفظ میں خصوصی ا ہمیت رکھتا ہے۔ پریس اور سیور کے مطابق: ’’زمین کا اندرون ایک بہت وسیع و عریض، لیکن نہایت خوبصورتی کے ساتھ متوازن بنایا ہوا ایک حرارتی انجن (Heat Engine) ہے جو تابکاری (Radioactivity) پر چلتا ہے ۔۔۔اگر یہ (موجودہ کے مقابلے میں) سست رفتار ہوتا تو زمین پر ارضیارتی سرگرمیاں بھی سست روی کے ساتھ جاری ہوتیں۔ شاید لوہا نہیں پگھلتا اور (زمینی اندروں کی انتہائی گہرائیوں میں) غرق ہو کر مائع قلب (Liquid core) نہیں بناتا اور مقناطیسی میدان بھی کبھی تشکیل نہ پاتا۔۔۔اگر یہ تابکار ایندھن زیادہ ہوتا اور (زمین کا حرارتی) انجن زیادہ تیز رفتاری سے چل رہا ہوتا، تو آتش فشانی گیس اور راکھ سورج سے آنے والی روشنی کا راستہ روک دیتیں۔ کرۂ ہوائی زیادہ کثیف بن جاتا اور ہر روز اآنے والے زلزلوں اور آتش فشانی دھماکوں کی وجہ سے زمین کی سطح بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کر تباہ ہوجاتی‘‘۔ مقناطیسی میدان، جس کا تذکرہ ان ماہرین ارضیات نے کیا ہے،زمین کے لئے زبردست اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مقناطیسی میدان زمین کے قلب کی ساخت کے باعث پیدا ہوتا ہے۔ زمینی قلب لوہے اور نکل(Nickle) جیسے بھاری عناصر پر مشتمل ہے جو نہایت اہم مقناطیسی خصوصیات کے حامل ہیں۔ اندرونی قلب (inner core) ٹھوس ہے جبکہ اس کا بیرونی حصہ(outer core) مائع ہے۔ قلب کی یہ دونوں تہیں ایک دوسرے کے گرد مسلسل حرکت کرتی رہتی ہیں اور اسی بناء پرزمین کا مقناطیسی میدان تشکیل پاتا ہے۔ سطح زمین سے ہزاروں میل اوپر تک پھیلا ہوا یہ مقناطیسی میدان، زمین کو خلاء سے آنے والی خطرناک اور ہلاکت خیز شعاعوں سے بھی بچائے رکھتا ہے۔ ’’وان ایلن بیلٹ‘‘ (Van Allen Belt) نامی یہ مقناطیسی خطوط ایک چھتری کی طرح کام کرتے ہیں اور سورج اور دور دراز ستاروں سے نکلنے والی مضر شعاعوں کو سطح زمین تک پہنچنے نہیں دیتے۔ حساب لگایا گیا ہے کہ وان ایلن بیلٹ بعض اوقات ایسے پلازما بادلوں (Plasma clouds) تک کوروک لیتی ہے جن کی توانائی ہیروشیماپر گرائے گئے ایٹم بم کے مقابلے میں بھی 100 ارب گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کائناتی شعاعیں (cosmic rays) بھی مساوی طور پر نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ زمین کا مقناطیسی میدان، ان شعاعوں کا صرف 0.1 فیصد حصہ گزرنے دیتا ہے جو کرۂ ہوائی میں بہ آسانی جذب ہوجاتا ہے۔ مذکورہ بالا مقناطیسی میدان پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے ہمیں (ا نسانوں کو)تقریباً ایک ارب ایمپیئر (amperes) کی حامل توانائی درکار ہوگی ۔۔۔ جتنی کہ پوری انسانی تاریخ میں پیدا کی جا سکی ہے۔ اگر یہ حفاظتی ڈھال موجود نہ ہوتی تو (سورج اور دوسرے ستاروں سے) وقتاً فوقتاً آنے والی خطرناک شعاعیں، زمینی حیات کو کب کا تبا ہ کر چکی ہوتیں۔ بہت ممکن ہے کہ ان حالات میں زمین پر کوئی زندگی وجود ہی میں نہ آتی۔ مگر جیسا کہ پریس اور سیور نے بتایا ہے، زمینی قلب اس سیارے کو محفوظ رکھنے کے لئے خصوصی درستگی اور اہتمام کے ساتھ بنایا گیا ہے۔ بالفاظِ دیگر ان سب باتوں کا ایک خاص مقصد ہے جسے قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے : ’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، مگر یہ ہیں کہ ہماری نشانیوں کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔‘‘ (سورۃ الانبیاء۔ آیت 32) کرۂ ہوائی کی موزونیت متذکرہ بالا تمام عوامل کے تجزیئے سے ہم پر یہ اچھی طرح واضح ہوچکا ہے کہ یہ سب کے سب زندگی کے لئے ’’انتہائی موزوں‘‘ ہیں۔ البتہ یہ تمام خصوصیات بھی تن تنہا زمین پر زندگی کے وجود کوضمانت فراہم نہیں کرتیں۔ اس کے لئے ایک اور جزو ’’کرۂ ہوائی کی ترکیب‘‘ (atmospheric composition) بھی بہت اہم ہے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ بسا اوقات سائنس فکشن فلمیں بھی لوگوں کو گمراہ کرتی ہیں۔ ان میں بڑے سکون و اطمینان سے یہ دکھادیا جاتا ہے کہ کوئی خلائی مخلوق، ایسے کسی دوسرے سیارے سے آرہی ہے جہاں کا کرۂ ہوائی سانس لینے کے قابل ہے۔ حالانکہ یہ جھوٹ کے پلندے کے سوا کچھ نہیں۔ اگر ہم کائنات کی اصل کھو ج کر سکتے ہیں تو ہم پر یہ انکشاف ضرور ہوتا ہے کہ سائنس فکشن میں پیش کئے گئے یہ خیالات کس حد تک غلط ہیں۔ ایسے کسی بھی دوسرے سیارے کی موجودگی، جس کی ہوا میں ہم سانس لے سکیں، حد درجہ ناممکنات میں سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کا کرۂ ہوائی کئی پہلوؤں سے خاص طور پر زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ہی ڈیزائن کیا گیا ہے۔ زمینی کرۂ ہوائی میں 77 فیصد نائٹروجن، 21 فیصد آکسیجن اور تقریباً ایک فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہیں۔ آیئے سب سے اہم گیس آکسیجن سے شروع کرتے ہیں۔ زندگی کے لئے آکسیجن ایک خاص وجہ سے بے حد ضروری ہے ۔۔۔ اور وہ یہ کہ زندگی کی پیچیدہ اقسام میں توانائی خارج کرنے والے سارے کیمیائی تعاملات میں آکسیجن کی حیثیت جزو لازم کی ہے۔ جبکہ یہ کیمیائی تعاملات، بذاتِ خود زندگی کے وجود میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ کاربنی مرکبات آکسیجن سے تعامل کرتے ہیں۔ ان تعاملات کے نتیجے میں پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور توانائی پیدا ہوتے ہیں۔ یہ توانائی چھوٹے چھوٹے ’’بنڈلوں‘‘ یعنی مخصوص مرکبات میں محفوظ ہوتی ہے جنہیں ’’اے ٹی پی ۔ ایڈینوسین ٹرائی فاسفیٹ‘‘ (ATP-Adenosine triphosphate) کہا جاتا ہے۔ مذکورہ تعاملات میں پانی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ساتھ ’’اے ٹی پی‘‘ بھی بنتے ہیں جنہیں خلیات توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زندہ رہنے کے لئے ہر وقت سانس لیتے رہتے ہیں تاکہ اپنی ضرورت پوری کرتے رہیں۔ ہوا میں آکسیجن کی فیصد مقدار بھی بہت نپی تلی اور متعین ہے۔ اس پہلو پر مائیکل ڈینٹن لکھتے ہیں:’’اس کرۂ ہوائی میں �آکسیجن زیادہ ہوتی تو کیا یہ تب بھی زندگی کو تقویب دیتا؟ نہیں !۔۔۔ آکسیجن بہت عامل (reactive) عنصر ہے۔ ہوا میں اس کی موجودہ فیصد مقدار بھی (یعنی 21 فیصد) موزوں درجہ حرارت پر زندگی کے تحفظ کی بالائی حدود کے قریب ہے۔ اگر ہوا میںآکسیجن کی مقدار صرف ایک فیصد بھی بڑھ جائے تو جنگلوں میں لگنے والی (قدرتی) آگ کا تناسب 70 فیصد بڑھ جائے گا۔‘‘ برطانوی حیاتی کیمیا دان، جیمز لولاک (Lovelock) اسی نکتے کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’فضا میں آکسیجن کی مقدار25 فیصد ہوتی تو خشکی پر موجود انواع و اقسام کے ان گنت نباتات کی بے حد معمولی تعداد عالمی آتشزدگی سے محفوظ رہ پاتی۔ یہ بھیانک آگ قطب شمالی کے ٹنڈرا سے لے کر منطقہ حارہ کے بارانی جنگلات تک کو یکساں طور پر تباہ کر ڈالتی۔ (ہوا میں) آکسیجن کی موجودہ مقدار ایک ایسے مقام پر ہے جہاں خطرہ اور فائدہ دونوں ہی بڑی خوبی سے ایک دوسرے کو متوازن کر دیتے ہیں‘‘۔ زمین فضا میں آکسیجن کا تناسب اس نپی تلی سطح پر ہونے کی وجہ ایک حیرت انگیز ’’بازیافتگی نظام‘‘ (ری سائیکلنگ سسٹم) ہے۔ جانور سانس لیتے ہیں اور آکسیجن جذب کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کردیتے ہیں جو ان کے لئے غیر ضروری ہوتی ہے۔ ان کے برعکس پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آکسیجن خارج کرتے ہیں اور یوں یہ توازن قائم رہتا ہے۔ پودے ہر وز لاکھوں ٹن آکسیجن فضا میں داخل کرتے ہیں۔ اس طرح زندگی کا تسلسل قائم و دائم ہوتا ہے۔ جاندار اشیاء کے ان دونوں گروہوں (جانورں اور پودوں) میں توازن اور تعاون کے بغیر ہمارا سیارہ ناقابل رہائش ہوتا۔ مثلاً یہ کہ اگر سارے کے سارے جاندار ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرکے آکسیجن خارج کرتے تو کرۂ ہوائی آج کی بہ نسبت کہیں زیادہ آسانی اور سہولت کے ساتھ جلنے کے عمل میں معاونت کرتا۔ یہاں تک کہ ایک معمولی سی چنگاری بھی بڑے پیمانے پر آگ لگا سکتی تھی۔ اسی طرح اگر تمام جاندار صرف آکسیجن جذب کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی خارج کرتے رہتے تو کرۂ ہوائی کی آکسیجن جلد ہی ختم ہوجاتی اور اس پرموجودزندگی بھی اختتام پذیر ہوجاتی۔ درحقیقت، زمینی کرۂ ہوائی ایک ایسے توازن کی حالت میں ہے جہاں خطرہ اور فائدہ بڑی خوبی سے ایک دوسرے کی تعدیل کرتے ہیں۔ یہی خیال جیمز لولاک نے بھی پیش کیا تھا۔ مزید برآں ہمارے کرۂ ہوائی کی کثافت تک سانس لینے کے لئے موزوں ترین سطح پر رکھی گئی ہے۔ کرۂ ہوائی اور عمل تنفس (Respiration) ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے میں سانس لیتے رہتے ہیں۔ ہم مسلسل اپنے پھیپھڑوں میں ہوا داخل کرتے اور خار ج کرتے رہتے ہیں۔ اس عمل کی ہمیں اتنی عادت ہے کہ ہم اسے بالکل عام سی بات سمجھتے ہیں۔ حالانکہ سانس لینے کا عمل حد درجے پیچیدہ ہے۔ ہمارے جسمانی نظام اس قدر مکمل انداز میں وضع کئے گئے ہیں کہ ہمیں سانس لینے کے لئے سوچنا بھی نہیں پڑتا ہے۔ ہمارا جسم خود ہی یہ تخمینہ لگا تا ہے کہ اسے کتنی آکسیجن کی ضرورت ہے اور پھر وہ ضروری مقدار کی فراہمی کا ازخود بندوبست بھی کرتا ہے خواہ ہم چل رہے ہوں، دوڑرہے ہوں، بیٹھے ہوں یا سورہے ہوں۔ سانس لینے کی اس قدر اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے جسم میں ہر وقت جاری لاکھوں(کیمیائی) تعاملات کے لئے آکسیجن کی ضرور ت ہوتی ہے۔۔۔ تاکہ ہم زندہ رہ سکیں۔ آپ میں یہ سطور پڑھنے کی صلاحیت اس لئے ہے کہ آپ کے پردۂ چشم میں موجود لاکھوں خلیات کو آکسیجن سے حاصل شدہ توانائی مل رہی ہے۔ اسی طرح ہمارے جسم کی تمام بافتیں اور انہیں تشکیل دینے والے خلیات، کاربنی مرکبات کو آکسیجن میں ’’جلا کر‘‘ (یعنی توڑ کر) ان سے حاصل شدہ توانائی استعمال میں لاتے ہیں۔پھر اس جلنے کے عمل سے پیدا ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا جسم سے فوری اخراج بھی اشد ضروری ہے۔ اگر ہمارے دوران خون میں آکسیجن کی سطح کم ہوجائے تو ہم پر غنودگی طاری ہونے لگتی ہے۔۔۔ اور اگر جسم میں آکسیجن کی عدم موجودگی چند منٹوں تک برقرار رہ جائے تو نتیجہ موت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ! ہم اسی لئے سانس لیتے ہیں۔ جب ہم سانس اندر کھینچتے ہیں تو آکسیجن ہمارے پھیپھڑوں میں موجود لگ بھگ 30 کروڑ چھوٹے چھوٹے خانوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ ان خانوں سے متصل ’’شعری رگیں‘‘ (capillary veins) چشم زدن میں اس آکسیجن کو جذب کرلیتی ہیں۔ یہ جذب شدہ آکسیجن پہلے دل تک اور پھر جسم کے دوسرے تمام حصوں تک پھیل جاتی ہے۔ ہمارے جسمانی خلئے اس آکسیجن کو استعمال میں لاتے ہیں اور خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ داخل کر دیتے ہیں ۔۔۔ جو پھیپھڑوں میں واپس پہنچتی ہے جہاں سے اسے باہر خارج کر دیا جاتا ہے۔ ’’صاف‘‘ آکسیجن کے داخلے اور ’’گندی‘‘ کا ربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں آدھے سیکنڈ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔ آپ شاید حیران ہو رہے ہوں گے کہ آخر پھیپھڑوں میں اتنے زیادہ (تقریباً 30 کروڑ) خانوں کی کیا وجہ ہے۔ ان کا مقصد ہوا کا سامنا کرنے والی سطح (surface) کے رقبے میں اضافہ کرنا ہے۔ یہ بڑے احتیاط سے کچھ اس طرح تہہ(fold) کئے ہوئے ہیں کہ جسم میں ہر ممکن حد تک کم جگہ گھیریں۔ اگر ان کی تہوں کو کھول دیا جائے تو یہ ٹینس کورٹ جتنی جگہ پر پھیل جائیں گے۔ یہاں ایک اور نکتہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔ پھپھیڑوں کے خانوں اور ان سے متصل شعری رگوں کو اتنا مختصر اور مکمل اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کے تبادلے(exchange) کی رفتار میں اضافہ ہوجائے۔ لیکن یہ بہترین ڈیزائن بجائے خود کئی دوسرے اجزاء پر منحصر ہے۔ کثافت، لزوجیت(viscosity) اور ہوا کا دباؤ، ان سب کو موزوں انداز سے ہوا کے داخلے اور اخراج کے لئے درست (مناسب) ہونا چاہئے۔ سطح سمندر پر ہوا کا دباؤ 760 ملی میٹر پارے کے برار، اور اس کی کثافت تقریباً ایک گرام فی لیٹر ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ سطح سمندر پر ہوا کی لزوجیت پانی کے مقابلے میں لگ بھگ 50 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ ان اعداد و شمار کو آپ اہمیت نہ دیں لیکن مائیکل ڈینٹن کے الفاظ میں: ’’کرۂ ہوائی کی عمومی خصوصیات اور مجموعی ترکیب (composition) کو؛ جن میں کثافت، لزوجیت اور دباؤ وغیرہ شامل ہیں؛ لازماً ویسا ہی ہونا چاہئے جیسی کہ یہ ہیں۔ خاص طور پر ہوا میں سانس لینے والے جانداروں کے لئے‘‘۔ جب ہم سانس لیتے ہیں تو ہمارے پھیپھڑے ایک قوت پر قابو پانے کے لئے توانائی صرف کرتے ہیں جسے ’’فضائی مزاحمت‘‘ (Airway resistance) بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ قوت ہوا میں حرکت کے خلاف موجود قدرتی مزاحمت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ البتہ کرۂ ہوائی کی طبعی خصوصیات کی بدولت یہ مزاحمت اس قدر کمزور ہوتی ہے کہ کہ ہمارے پھیپھڑے نہایت کم توانائی خرچ کر کے اس پر قابو پالیتے ہیں۔ اگر یہ مزاحمت زیادہ ہوتی تو ہمارے پھیپھڑوں کو بھی زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی، زیادہ توانائی صرف کرنا پڑتی اور سانس لینا دشوار ہوجاتا۔ اسے ایک مثال سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ انجکشن والی سرنج میں شہد کی بہ نسبت پانی بھرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ شہد پانی سے زیادہ گاڑھا اور لزج دار (viscous) ہوتا ہے۔ اگر ہوا کی کثافت، لزوجیت اور دباؤ زیادہ ہوتے تو سانس لینا اتنا ہی مشکل ہوتا جتنا سرنج میں شہد بھرنا ہے۔ اس کے جواب میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تو بہت آسان ہے۔ انجکشن کی سوئی کا سوراخ بڑا کر دیجئے تاکہ بہاؤ کی رفتار میں اضافہ کیا جا سکے۔ لیکن اگر پھیپھڑوں کی شعری رگوں کے معاملے میں ایسا کیا جاتا تو ہوا کا سامنا کرنے والا رقبہ کم رہ جاتا۔ یعنی اتنے ہی وقت میں کم کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آکسیجن کا تبادلہ ہوپاتا ۔۔۔ اور ہماری تنفسی (Respiratory) ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ بالفاظِ دیگر ہوائی کثافت، لزوجیت اور دباؤ کی انفرادی قیمتوں کو بھی عمل تنفس میں شرکت کے لئے مخصوص حدوں کے درمیان رہنا چاہئے اور جس ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس میں عین یہی خصوصیات ہیں۔ مائیکل ڈینٹن کی رائے ایک با ر پھر ملاحظہ ہو: ’’یہ واضح رہے کہ اگر ہوا کی کثافت یا لزوجیت میں سے کوئی ایک بھی خاصی زیادہ ہوتی تو فضائی مزاحمت بھی بہت بلند ہوتی اور موجودہ نظامِ تنفس کے ڈیزائن میں ایسی کوئی قابل فہم تبدیلی (ری ڈیزائننگ) ممکن نہیں جو استحالی اعتبار سے سرگرم(metabolically active)، ہوا میں سانس لینے والے کسی جاندار کو اتنے ہی موزوں انداز میں آکسیجن حاصل کرنے کے قابل بنا سکے ۔۔۔ کرۂ ہوائی کے تمام ممکنہ دباؤ(pressures) اور آکسیجن کی تمام ممکنہ مقداروں (contents) کے تقابلی جائزے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ایسا صرف ایک مختصر سا منفر علاقہ (حالات کی مختصر سی تعداد) ہے جہاں زندگی کی بقاء کی متعدد شرائط پوری ہورہی ہیں۔ یہ امر خصوصی اہمیت رکھتا ہے کہ (زندگی کے لئے) متعدد بنیادی شرائط، متنوع فیہ دباؤکے صرف ایک چھوٹے سے حصے میں پوری ہورہی ہیں !‘‘ کرۂ ہوائی کی یہ عددی قیمتیں صرف ہمارے سانس لینے کے لئے ہی ضروری نہیں ہیں بلکہ ہمارے نیلگوں سیارے کو نیلا رکھنے کے لئے بھی لازمی ہیں۔ اگر سطح سمندر پر ہوا کادباؤ موجود ہ سے خاصا کم ہوتا تو پانی کی تبخیر(vaporization) کا عمل بھی بہت تیز رفتار ہوجاتا۔ فضا میں پانی کی یہ اضافی مقدار ’’نبات خانے کے اثر‘‘ (گرین ہاؤس ایفیکٹ) کا باعث بنتی، یعنی فضا میں زیادہ حرارت جمع ہوجاتی اور زمینی درجہ حرارت بھی بڑھ جاتا۔ دوسری جانب اگر یہی دباؤزیادہ ہوتا تو عمل تبخیر میں کمی واقع ہوتی اور اس سیارے کا بڑا حصہ ریگستانوں میں تبدیل ہوکررہ جاتا۔ نہایت احتیاط اور خوبی سے متوازن یہ سارے نظام یہی ظاہر کرتے ہیں کہ کرۂ ہائی کو خاص طور پر اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ زمین پر زندگی وجود پذیر رہ سکے۔ یہ حقائق خود سائنس کے دریافت کردہ ہیں، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کائنات محض اتفاق سے وجود میں نہیںآئی تھی۔ بلا شبہ، اس کائنات کا ایک عظیم ترین خالق ہے جو اس پر حکمران ہے، جواپنی مرضی کے مطابق مادے کو ڈھالتا ہے اور کہکشاؤں، ستاروں اور سیاروں پر اسی کا حکم چلتا ہے جو اسی رب العزت کے تابع فرمان ہیں۔ قرآن جا بجا اس عظیم ترین ہستی، اللہ تعالیٰ کی قدرت و حاکمیت کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔ یہ نیلا سیارہ جس پر ہم رہتے ہیں، لوگوں کے رہنے کے لئے خاص طور پر بنایا گیا اور ’’ہموار کیا گیا‘‘ہے جیسا کہ قرآن پاک کی سورۂ نازعات کی 30 ویں آیت میں آیا ہے۔ اسی حوالے سے دیگر قرآنی آیات بھی ہماری رہنمائی کرتی ہیں: ’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے جائے قرار بنایا اور اوپر آسمان کا گنبد بنادیا۔ جس نے تمہاری صورت بنائی اور بہت ہی عمدہ بنائی۔ جس نے تمہیں پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا۔ وہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے۔‘‘ (سورۃالمومن۔آیت64) ’’وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے تابع کررکھا ہے۔چلو اس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق۔ اسی (اللہ) کے حضور میں تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر جانا ہے‘‘۔ (سورۃ الملک۔ آیت 15) زندگی کو ممکن بنانے والے توازن اب تک جتنی چیزوں کا ہم نے تذکرہ کیا ہے وہ سب زندگی کے لئے لازمی حیثیت رکھنے والے چند نازک توازن ہیں۔زمین کا تجزیہ کرتے وقت ہم ’’زندگی کے لئے لازمی‘‘ ان اجزاء کی خاصی لمبی فہرست تیار کر سکتے ہیں۔ امریکی ماہر فلکیات ہیوگ راس نے اپنے طور پر ان کی ایک فہرست مرتب کی ہے: سطح زمین پر قوت ثقل اگر زیادہ مضبوط ہوتی: تو فضا میں بہت زیادہ امونیا اور میتھین جمع ہوجاتی۔ اگر کمزور ہوتی تو: سیارہ زمین کے کرۂ ہوائی میں بہت زیادہ پانی شامل ہوجاتا۔ مرکزی ستارے سے فاصلہ اگر زیادہ ہوتا: تو پانی کا چکر جاری رکھنے کے لئے سیارہ بہت سرد ہوتا۔ اگر کم ہوتا: تو پانی کا چکر جاری رکھنے کے لئے سیارہ بہت گرم ہوتا۔ قشر ارض کی موٹائی اگر زیادہ ہوتی:تو کرۂ ہوائی سے بہت زیادہ آکسیجن، قشر ارض میں منتقل ہوجاتی۔ اگر کم ہوتی:تو ارض حرکی (ٹیکٹونک) اور آتش فشانی سرگرمیاں بہت شدید ہوتیں۔ گردش کا دورانیہ اگر طویل ہوتا: تو دن اور رات کے درجہ حرارت کا فرق بہت زیادہ ہوتا۔ اگر مختصر ہوتا:تو کرۂ فضائی میں چلنے والی ہواؤں کی رفتار بہت تیز ہوتی۔ چاند کے ساتھ دوطرفہ ثقلی عمل اگر زیادہ ہوتا: تو سمندروں، کرۂ ہوائی اور گردشی دورانئے پر مدو جزر کے اثرات بھی بہت شدید ہوتے۔ اگر کم ہوتا: تو مدار میں موجود ٹیڑھے پن (obliquity) کے باعث ہونے والی تبدیلیاں ماحول اور موسموں کو غیر قیام پذیر(Unstable) بنا دیتیں۔ مقناطیسی میدان اگر طاقتور ہو تا: تو برقی مقناطیسی طوفان بھی بہت شدید ہوتے۔ اگرکمزور ہوتا: تو ستاروں سے آنے والی ہلاکت خیز شعاعوں سے مناسب تحفظ فراہم نہیں کر سکتا تھا۔ البیڈو(سطح زمین تک پہنچنے والی مجموعی روشنی اور اس کی منعکس ہونے والی مقدار کی باہمی نسبت) اگر زیادہ ہوتی: تو برفانی عہد مسلسل قائم رہتا۔ اگر کم ہوتی: تو شدید گرین ہاؤس ایفیکٹ رونما ہوتا۔ ہوا میں آکسیجن اور نائٹروجن کا باہمی تناسب اگر زیادہ ہوتا: تو ترقی یافتہ زندگی کے لئے درکار تعاملات بڑی تیز رفتاری سے ہوتے۔ کم تر ہوتا: تو ترقی یافتہ زندگی کے لئے درکار تعاملات نہایت سست رفتاری سے ہوتے۔ کرۂ ہوائی میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور آبی بخارات کی مقداریں اگر زیادہ ہوتیں : تو شدید گرین ہاؤس ایفیکٹ رونما ہوتا۔ اگرکم ہوتیں : گرین ہاؤس ایفیکٹ ناکافی ہوتا(یعنی زمین سرد رہتی) فضا میں اوزون کی سطح اگر زیادہ ہوتی: زمین پر درجہ حرارت بہت کم ہوتا۔ اگر کم ہوتی: تو سطح زمین کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہوتا اور سطح تک الٹرا وائلٹ شعاعوں کی بہت بڑی مقدا ر ہر وقت پہنچ رہی ہوتی۔ زلزلیاتی سرگرمی (Seismic Activity) اگر زیادہ ہوتی: تو زندگی کی بیشتر اقسام صفح�ۂہستی سے مٹ چکی ہوتیں۔ اگر کم ہوتی: تو دریائی بہاؤ کے ساتھ سمندری تہہ تک پہنچنے والے اہم غذائی اجزاء بازیافت (ری سائیکل) ہو کر چٹانوں میں اٹھان (Tectonic uplift) کی بدولت بر اعظموں میں پھر سے شامل نہ ہوتے۔ زندگی کے وجود اور بقاء کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم لازماً جن ’’ڈیزائن کے فیصلوں‘‘ (Design Desicisions) پر پہنچتے ہیں،مذکورہ بالا حقائق ان کا ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ تاہم یہ بھی اتنا ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں کہ زمین کسی امکان کا، یا ’’اتفاقاً‘‘ ہونے والے پے درپے خوشگوار واقعات کا نتیجہ ہرگز نہیں۔ یہ اور ایسی لاتعداد تفصیلات بار بار ایک ہی سادہ اور واضح حقیقت کی تصدیق کر رہی ہیں: صرف اور صرف اللہ نے کائنات، ستاروں، سیاروں، پہاڑوں اور سمندروں(وغیرہ) کو بہترین انداز میں تخلیق کیا ہے۔ اسی ذاتِ پاک نے انسانوں اور دوسرے تمام جانداروں کو زندگی بخشی ہے اور اسی نے اپنی مخلوقات پر انسان کو خلیفہ مقرر فرمایا ہے۔ رحم اور طاقت کا اصل سرچشمہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے جو اپنے حکم سے کسی بھی شے کو عدم سے وجود میں لا سکتا ہے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی یہ تخلیقات کا ملہ اس طرح سے بیان فرماتا ہے: ’’کیا تم لوگوں کی تخلیق زیادہ سخت کام ہے یا آسمان کی؟ اللہ نے اس کو بنایا اور اس کی چھت خوب اونچی اٹھائی۔ پھر اس کا توازن قائم کیا اور اس کی رات ڈھانکی اور اس کا دن نکالا۔ اس کے بعد زمین کو اسی نے بچھایا۔ اس کے اندر سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیئے تاکہ تم اور تمہارے مویشیوں کے لئے سامان زیست فراہم ہو۔‘‘ (سورۃ النازعات۔ آیات27تا33)