قرآن میں اللہ ایمان والوں کو حکم دیتے ہیں متحد ہونے کا، کفّار کے خلاف صف آرا ہونے کا، ایک دوسرے سے محبت کرنے کا اور بھائی بندی کا، درگزر کرنے کا اور محافظ بننے کا، اور سختی سے منتشر ہونے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے گریز کرنے کا۔اللہ فرماتے ہیں:
"اور اللہ کی رسی کو سب مضبوطی سے مل کر تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو- اور اللہ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت ڈال دی، پس تم اسکی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔اللہ تعالی اسی طرح تمھارے لیے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاوَ۔سورۃ آل عمران ۱۰۳"
"سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہا کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔ سورۃ الحجرات ۱۰"
"اور اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرتے رہو اور آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاوَ گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر اور سہار رکھو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ سورۃ الانفال ۴۶"
" کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہو جائے گا- سورۃ الانفال ۷۳"
"بیشک اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اسکی راہ میں صف بستہ جہاد کرتے ہیں گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی عمارتیں ہیں-سورۃ الصف ۴"
" اور جب ان پر ظلم ہوتا ہے تو وہ صرف بدلہ لے لیتے ہیں-سورۃ شورٰے ۳۹"
یہ صرف چند آیتیں ہیں مسلمانوں کے اتحاد سے متعلق۔ ان میں سے اور پورے قرآن میں سے یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مذہبی فرض ہے مندرجہ ذیل کے لیے:
*مسلمانوں کو متحد ہونا ہے
*ایک دوسرے سے بھائی بندی، محبت اور الفت
*جھگڑوں سے گریز کرنا
*ایک دوسرے کے دوست اور محافظ بننا
*ہر قسم کے حالات میں ایک دوسرے کی حفاظت اور دیکھ بھال کرنا
*ایک دوسرے سے مشورے کرنا
* اور کفّار کے خلاف ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے جڑ جانا ایک عمارت کی طرح اور انکے خلاف عقلی جدوجہد کرنا۔
دوسرے لفظوں میں اسکے خلاف جو عمل ہیں:
*اتحاد کے بجائے منتشر ہونا
*ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے بھائیوں جیسا سلوک نا کرنا
*درگذر نا کرنا، حفاظت نا کرنا اور ایک دوسرے کو نا سمجھنا
*کفّار کے خلاف عقلی جدو جہد میں مسلمانوں کے ساتھ متحد نا ہونا ایک گناہ ہے
اگر مسلمان دنیا ایک مظبوط، مستحکم اور آسودہ حال تہذیب کو کھڑا کرنا چاہتی ہے جو ہر شعبے میں دنیا کی رہنما ئی کرے تو اسکو ایک یونین کی شکل میں کام کرنا ہوگا۔ ایسی یونین کی عدم موجودگی ہی ذمہ دار ہے مسلمانوں میں جھگڑے ، علیحدگی، مشترکہ آواز کے نا ہونے، اور معصوم مسلمانوں کی حفاظت نہ ہونے کی۔ فلسطین ، کشمیر، ایسٹ ترکستان اور فلپین میں اور ایسی بہت سی دوسری جگہوں میں لاتعدا عورتیں، بچّے بوڑھوں کو ظلم و ستم سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی زمّہ داری کسی اور کے بجائے مسلمان دنیا پر عائد ہوتی ہے۔ مسلمانوں کو ہرگز حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے یہ الفاظ نہیں بھولنے چاہئیں:
"ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اسکے ساتھ برا نہیں کرتا نا ہی اسے چھوڑتا ہے"
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ایک مضبوط اور متحرک یونین نہیں بنا سکے جو کہ اصل وجہ ہے آجکل کی بہت سی بیماریوں کی۔جب ایک مضبوط ترکش اسلامک یونین جنم لے گی تو اوّل تو ایسی مشکلات اٹھیں گی نہیں یا پھر توقعات سے بہت جلدی حل کر لی جائیں گی۔
مسلمانوں میں مختلف تہذیبوں، ثقافتوں اور تصّورات کا ہونا ایک قدرتی امر ہے اور اس میں کوئی برائی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ایک کلمہ کی چھتری کے نیچے ان اختلافات کا متحد ہونا باہمی برداشت اور یک جہتی کی بنیادوں پر۔ سوچ میں، عمل میں، اور مختلف زاویہ نظر کا ہونا ہر معاشرے میں مشترک ہے اور بہت عام سی بات ہے۔ اسلامی اقدار ہم سے چاہتی ہے کہ ہم ہرگز نہ بھولیں کے ان اختلافات کے باوجود مسلمان آپس میں بھائی بھائی اور بہنیں ہیں۔ کسی بھی نسل، زبان ، قوم یا اسلام کی کسی بھی شاخ کی اتباع کرتا ہو آپس میں بھائی بہن ہیں۔لہذا ان اختلافات کو وجہ علیحدگی یا جھگڑنے کی وجہ بنانے کے بجائے ان کی قدر کرنی چاِہئیے۔ یہ غلط نظریہ سوچ کو اصل مقصد سے منتقل کرتا ہے اور ضروری اور اہم معاملات میں دیری کا سبب بنتا ہے۔
باہمی تعلقات میں یقین اور اچھا کردار بہت اہمیت کے حامل ہیں نا کہ نسل، زبان، دولت ، اثرورثوخ اور دفتر۔ مومنوں کے درمیان محبت اللہ سے محبت ، اللہ کے ڈر ، اچھے اعمال اور اچھے کردار کی وجہ سے بڑھتی ہے۔ اگر لوگ اپنے آپ کو اللہ کی راہ پر گامزن کریں اور ہر عمل اور رویّہ میں اللہ کے حکم کو مدنظر رکھیں اور اللہ کی خوشنودی اور رحمت کی امید میں اچھے کام کریں تو دوسرے مومنین ان کی عزت کریں گے اور ان سے محبت کریں گے۔جسکے نتیجہ میں کھال کا رنگ، نسل اور مال ودولت کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی اور انکی وجہ سے محبت نہیں کی جائے گی۔محبت کا یہی معیار مسلمان قوموں کے تعلقات کے درمیان بھی ہونا چاہئے جو کہ خالص قرآنی بصیرت کے بنیادوں پر ہو۔ اگر حالات انکو ایسا کرنے سے روکیں تو انکو مندرجہ ذیل باتوں پر توجہ دینی چاہئیے۔
*کیا یہ مسلمانوں کے اتحاد سے بڑا مسئلہ ہے؟
*کیا یہ ہل نہیں کیا جاسکتا؟
*کیا کفّار کے خلاف کام کرنے کے بچائے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اختلافات قابل قبول ہے؟
جو کوئی بھی دیانتداری سے ان سوالوں کا جواب دے وہ جانے گا کہ سب سے اہم ضرورت اس نا ختم ہونے والے اختلافت سے دور رہا جائے اور قرآنی بنیادوں پر ایک یونین کو قائم کیا جائے۔
اسلامی دنیا کو ہر حال میں اپنے اختلافات کو ایک طرف کرنا ہوگا اور یہ یاد کرنا ہوگا کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں تاکہ وہ ایک ایسا نمونہ مہّیا کرسکیں جو سچے اسلامی کردار اور معیار کی عکاسی کرتا ہو۔ مومنوں کا یہ اتحاد اللہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ مخلص مسلمانوں کو اللہ کی ان عنایات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اسکے احکامات کی تعمیل کرنی چاہئے اور علیحدہ نہیں ہونا چاہئیے۔