ایسٹ ترکستان میں جو نسلی فسادات کو ابھارنے کی کوششیں کی جارہی ہیں وہ بہت ہی خطرناک ہیں۔پچھلے تقریبا ۶۰ سال سے ایسٹ ترکستان میں ہمارے مسلمان بھائی مختلف مشکلات کے زیراثر ہیں مگر وہ کبھی بھی شدت پسند یا فسادی نہیں بنے۔ ویغَرترک اعلی کردار کے مالک لوگ، اپنے اچھے اخلاق ، ایمانداری،حوصلہ مندی،دوستانہ طبیعت،حکومت کے فرمانبردار، نمک حلالی اور جاں نثاری کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔یہ عمدہ لوگ اعلی صلاحیتوں کے حامل ہیں جیسا کہ،معاف کرنے والے، امن پسند،محبت کرنے والے،دوسرے کے عقائید اور خیالات کا لحاظ کرنے والے، اور لوگوں میں تمیز کرنے والے انکے اخلاقی قدرو قیمت کی بنیاد پر نا کہ نسل کی بنیاد پر۔اسی وجہ سے علاقے میں انکا دوسرے لوگوں کے ساتھ کبھی کوئی نسلی فساد نہیں ہوا، خاص طور پر ھان چاِئنیز کے ساتھ اور کبھی مستقبل میں بھی نا ہوگا انشاءاللہ۔ویغر ترک ایسٹ ترکستان میں ایسا ماحول چاھتے ہیں جس میں ہر کوئی امن اور حفاظت کے ساتھ اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے رہ سکے چاہے کسی کا مذہب اور نسل کچھ بھی ہو۔اس چیز کو پانے کے لیے کچھ راستے مندرجہ ذیل بیان کئے جاتے ہیں۔
۱۔ یہ بات یقینی ہے کہ ویغر ترک امن اور حفاظت کے خواہاں ہیں۔مگر علاقے میں امن اسی وقت نافظ ہو سکتا ہے جب ہمارے ویغر بھائیوں کی حفاظت کی ضمانت دی جائے۔اس ضمن میں عالمی برادری پر یہ ایک اہم ذمہ داری عائید ہوتی ہے۔ویغر ترک اور چائینیز کو امن کے ساتھ رہنے کے لیے عالمی برادری اور اداروں کی مدد کی ضرورت ہے۔ان اداروں کی طرف سے ،خاص طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے حکومت چین پر جمہوری دباو اس بات کی ضمانت دیگا کہ ادارہ ایسے راستے کی تقلید کرتا ہے جواطمینان دلاتا ہے ہمارے ویغر بھاہئیوں کی مشکلات اور انکے جائز مطالبات کے حل کا اورانکے انسانی حقوق کی عزت کا۔جب ضروری حمایت اور صحیح سمت کا تعین ہوتا ہے تبھی عالمی برادری ایک کفیل کے طور پر کام کرتی ہے۔ایسا کرنے سے خطے میں امن قائم کرنا آسان ہو گا۔
۲۔ چائینا کے لیے یہ ایک قدرتی امر ہے کہ وہ اپنے قومی اور اقتصادی مفاد کی حفاظت کے لیے سر گرم ہے۔مگر ایسا جابرانہ اور جارحانہ رویّہ اختیار کرکے نہیں ہو سکتا۔ جو راستہ چائینا کو خوشحالی، اقتصادی مضبوطی اور سماجی و اخلاقی اصلاح کی طرف لے جائیگا اسکا تصّور یہ ہے کے انسانی حقوق کی عزت ہو، جمہوریت اور محبت ہو، اور جو کہ خیالات اور مذہب کا دفاع کرتا ہو۔اس مسئلے کا واحد حل جو کہ چائینا کے خطرات مثلا، توانائی کے ذرائع تک رسائی نا ہونا، اقتصادی نقصانات، علاقوں کا تباہ ہونا یا ٹوٹنا، ترکش اسلامک یونین کی بنیاد میں ہی ہے۔ترکش اسلامک یونین ایک ایسے ماحول کی بنیاد ڈالے گی جسمیں سرحدیں ختم کردی جائیں گی،سرمایہ کاری اور تجارت کی آزادی ہو گی،اور جہاں پر تمام برادریاں توانائی کے ذخائر کو برابری کی بنیاد پر حاصل کر سکیں گی۔اس طرح چائینا اپنی سرمایہ کاری کو ایک بڑے رقبہ پر پھیلا سکتا ہے تنزانیہ سے لیکرانڈو نیشیا تک۔ اور اپنی اشیاء کو ایک بڑے رقبہ میں بیچ سکتا ہے۔اور مسلمان بھی ایک بڑے پیمانے پر چائینا میں سرمایہ کاری کے قابل ہونگے۔ترکش اسلامک یونین کی بنیاد کے ساتھ چائینا بہت تیزی کے ساتھ ترقی کرے گا اور اپنے شہریوں کا کم قیمت مزدور کے طور پر استعمال سے بچ جائے گا اورہر جگہ کثرت افراط اور فراوانی سے لطف اندوز ہو گا۔
۳-اسلام امن کا مذہب ہے۔تشّدد کی تمام اقسام اسلام میں گناہ ہیں۔قرآن میں، اللہ مسلمانوں کو معاف کرنے کا حکم دیتا ہے۔ایک مسلمان جو قرآن پر عمل کرتا ہے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسّلم کی تقلید کرتا ہےاس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ امن پسند ہو،رحمدل ہو، محبت کرنے والا ،ہمدد ، صابر اور متحمل مزاج ہو۔ قرآن کی اخلاقی قدریں مسلمان کو پابند کرتی ہیں کہ وہ اپنے غصّہ کو قابو کرے،برآئی کا بدلہ اچھائی سے دے،ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آئے،مشکل ترین حالات میں بھی معاف کردے اور انصاف کا مظاہرہ کرے، اگرچہ یہ اسکے اپنے مفاد کے خلاف ہی کیوں نہ جاتا ہو۔قرآن کی اخلاقی قدروں کا پھیلنا اور سیکھنا سکھانا چائینا کے لیے عظیم فائدہ مند ہے۔اگر چائینا کی حکومت ھان چائینیز کی پرتشّدد تخریب کاری حملوں کی وجہ سے پریشان ہے تو اسکو چاہیے کے وہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی قدرو قیمت کے پھیلاو کے لیے ترغیب دے اور حوصلہ افزائی کرے۔ایسا چائینا جہاں کے لوگ قرآن پر عمل کرتے ہوں وہاں کسی فوج یا حفاظتی اقدامات کی ضررورت باقی نہیں رہتی۔بے آرامی اورمشکل بلکل ختم ہو جائے گی۔اسکا نتیجہ یہ ہوگا کہ معاشرہ ایسے لوگوں کو جنم دیگا جو ایک دوسرے پر بھروسہ اور ایک دوسرے کی عزت کرتے ہونگے، ایک دوسرے کو سمجھتے ہونگے،حکومت کے ساتھ باادب اور وفادار ہونگے،اور جو سارے امن کے ساتھ رھتے ہونگے، جو پیسہ خرچ کرتے ہیں اپنے شہریوں کی تعمیر پر بجائے فوجی اسلحہ اور فوجی ملازمین پر۔چائینا کو مطلوب نظام اور توازن قدرتی طور پر حاصل ہو جائے گا۔
۴۔ ہمارے ویغر بھائی انسانی صفت شرائط کا مطالبہ کرتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے مطابق آزاد رہنا چاہتے ہیں،وہ اپنی خواہش کے مطابق عبادت کے قابل ہونا چاہتے ہیں،وہ اپنی ثقافت کی حفاظت اور اپنے وجود کو برقرار رکھنا چاہتےہیں، یہ سب جائز اورانسانی صفت ہیں۔اسکو حاصل کرنے کے لیے ویغر لوگوں کے لیے سب سے موئثر راستہ کہ وہ ایک مثبت ثقافتی چھلانگ لگائیں،اپنے اندر بہتری لائیں مخالف مادہ پرست اور مخالف ڈارون تعلیم کے ساتھ،اپنی اقتصادی طاقت کو بڑھائیں، اور اپنے آپ کو وسائل کے ساتھ اور روحانی طور پر طاقت ور بنائیں۔ترک ویغر لوگوں کو بھولنا نہیں چاہیے کہ وہ چائینا میں مسلمانوں کے اور اسلام کے بہت ہی اہم نمائندے ہیں۔انکو چائنیز لوگوں کے ساتھ ایک نمونہ کے طور پر پیش آنا چاہیے اپنے اخلاق ، شرافت، پاکدامنی، توازن اور میانہ روی کے ساتھ۔ ایک ویغر جو ثقافتی طور پر ترقی یافتہ اور وسائل کے اعتبار سے مضبوط ہو، واضح طور پر اپنے حقوق کے دفاع اور اسلامی اقدار کو پھیلانے کے مواقع پائے گا۔اگر اللہ نے چاہا تو، ویغر معاشرہ کا مستقبل ،جو اللہ کو پسند کرتا ہے، ثقافت کی حفاظت کرتا ہے،مخالف ڈارون اور مخالف مادہ پرست ہے،اسکے لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں،جو کہ کامل قرآنی اقدار کو عمل میں لاتے ہیں اور امن کی حمایت کرتے ہیں، محبت کرتے ہیں، برداشت کرتے ہیں، رحمدل ہیں،روشن اور عمدہ ترین ہوگا۔انشاءاللہ۔
جس دور سے ہم گزر رہے ہیں ایک بہت ہی مقدّس ہے جسمیں حضرت مہدی کا ظہور ہوگا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی دنیا میں واپسی ہوگی۔وہ وقت آ چکا ہے جب جنگ اور اختلافات ختم ہو جائینگے، جب اسلحہ ختم ہو جائے گا، جب لوگ محبت کرینگے اور آپس میں بھائی بن کر ایک دوسرے کو گلے لگائینگے،جب ایک دوسرے پر بھروسہ کرینگے اور اخلاقی اقدار کا تسلط ہوگا۔یہ اللہ کی تقدیر ہے۔یہ تقدیر اپنے آپ کو چائینا میں بھی عیا ں کرے گی اور یہ وہ وقت ہوگا جب چائینیز اور ویغر دوست کی طرح رہینگے، جب وہ تمام مالدار ہونگے، جب وہ لطف اور لگن کے ساتھ ایک روشن تہذیب کو تعمیر کریں گے۔