خیرالقرون اور خلفاے راشدین کے ادوار میں کسی مذہب کی کوئی ضرورت نہ تھی کیوں کہ اس وقت لوگ براہِ راست معلم کائنات۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور صحابہ کرام سے اپنی تشنگی علم بجھالیاکرتے تھے۔
غیر اسلامی عقائدونظریات(بدعات)پرمبنی مبتدعانہ تحریکات اور فرقہ وارانہ اختلافات کے سراٹھانے کے باعث رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور صحابہ کرام کے سچے وارثین علماے حق نے عقائدو اعمال کی پرکھ کے لیے کئی اصول مقررفرمائے ۔ حق وباطل کے درمیان خط امتیازکھینچتے ہوئے اسلام کواس کی خالص شکل میں عوام الناس کے سامنے پیش کردیا۔ جماعت اہلسنّت اسی طرح کی کوششوں کے نتیجے میں معمورۂ وجود میں آئی ہے۔
کچھ ایسے عوامل ہیں جنھوں نے اہل سنت کو ان مبتدعانہ تحریکوں سے ممتاز کررکھاہے جن میں سے بعض نے دین دار طبقہ کو اہل سنت کے مقررکردہ معیاروں کی مخالفت پرآمادہ کیاہے؛اس لیے جادۂ رسول پرگامزن افرادکو ایسے فتنوں کے تدارک کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہناچاہیے اورعقائداہل سنت کی روح کومدنظررکھ کر اس پرعمل پیراہوناچاہیے ۔
اہلسنّت کے متفقہ مسائل
۱: اللہ ۔عزوجل ۔پرایمان :
قرآن وحدیث میں مذکور اللہ تعالیٰ کے اسماے حسنیٰ پر ایمان رکھنااسلام کابنیادی عقیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کوانسانی صفات سے متصف جاننادرست نہیں کیوں کہ مخلوق سے خالق کی مشابہت نہیں کی جاسکتی۔ اللہ کے جملہ اسماے حسنیٰ قرآن میں مذکورہیں،اس موقع پرحددرجہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے اور مبتدعانہ نظریات کوکبھی بھی خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
اہل اسلام کبھی بھی اپنے عقیدہ کے سلسلہ میں کسی ریب وترددکوراہ نہ دیں۔اورجب تک شمع ایمان دلوں میں روشن ہے کسی نقص وعیب کی بنیاد پر خودکو کافرتصور نہ کریں؛ کیوں کہ عقیدہ کے سلسلہ میں ایسا گمراہانہ پس منظر ہمارے سرمایہ ایمان کوغارت کرسکتاہے ۔ اللہ رب العزت قرآن کریم میں فرماتاہے :
وَ مَنْ أحْسَنُ قَولاً مِّمَّنْ دَعَا إلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحاً وَّ قَالَ إنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o (سورۂ فصلت:۴۱؍۳۳)
اور اس شخص سے زیادہ خوش گفتارکون ہوسکتاہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے: بے شک میں (اللہ ورسول کے)فرماں برداروں میں سے ہوں۔
۲: اہل سنت کاقرآن پرعقیدہ :
قرآن‘ اللہ کانازل کردہ کلام ہے،اور پھراسی کی طرف لوٹ جائے گا۔ یہ آخری آسمانی کتاب ہے اور تاقیامت اس کی حقانیت و قانونیت برقرار رہے گی۔ بعض مبتدعانہ تحریکیں اس سلسلہ میں جداگانہ خیالات رکھتی ہیں۔
وَ إنَّکَ لَتُلَقَّی الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَکِیْمٍ عَلِیمٍ o (سورۂ نمل: ۲۷؍۶)
اور بے شک آپ کو(یہ)قرآن بڑے حکمت والے،علم والے(رب) کی طرف سے سکھایاجارہاہے۔
۳: اِس جہاں میں دیدارِ الٰہی ناممکن ہے :
رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔نے کسی بھی مقام پریہ نہیں فرمایاکہ انھوں نے حقیقتاً اللہ کو دیکھا۔اس مناسبت سے جو لوگ جس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں علماے اسلام نے اس کی تردید کی ہے۔اہلسنّت کے عقیدہ کے مطابق قبل ازمرگ اللہ تعالیٰ کے دیدار کا دعوی جھوٹاہے۔ ایک حدیث میں رسول کریم۔صلی اللہ علیہ وسلم۔فرماتے ہیں کہ مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رؤیت محال ہے۔(صحیح مسلم)
۴: جنت میں اہل ایمان رؤیت الٰہی سے مشرف ہوں گے :
مستندکتب احادیث میں یہ حوالہ موجود ہے کہ قیامت کے بعد آخرت میں لوگ اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کادیدار کریں گے،جب کہ فرقہ ہاے جہمیہ،معتزلہ،اوررافضہ اس کے خلاف ہیں۔
اللہ تعالیٰ عرش وفرش سے پاک اوراس کی ذات زمان ومکان سے بالاترہے۔ فرقہ کرمیہ اس سلسلے میں کچھ ایسے جداگانہ نظریے رکھتاہے جوعقائداہلسنّت سے بالکل مطابقت نہیں رکھتے۔
۵: مرنے کے بعدکیاہوگا؟
اہل سنت وجماعت قیامت اور عذاب قبرکے متعلق رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کی زبان اقدس سے نکلے ہوئے الفاظ پرایمان رکھتے ہیں،اس کے برعکس معتزلہ اس پریقین نہیں رکھتے۔اوراہلسنّت کے مطابق قبر مومن کے لیے جنت کے باغات میں سے ایک باغ اور کافر کے لیے جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھاہے۔ہرانسان کوقبرکے اندرمنکرنکیرکے سوالات کاسامناکرناہوگا۔جب کہ فرقہ قدریہ اس سوال وجواب کے منکرہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے روگردانی، معرفت رسالت سے غفلت ،سنت نبوی اوراحکام قرآن کی نافرمانی کے سبب قبرمیں دہشت ناک عذاب سے دوچار ہونا یقینی امرہے۔ عرصہ محشر میں روح دوبارہ قالب جسم میں ڈال دی جائے گی اس وقت کفار سے ان کے اچھے اور برے اعمال کے بارے میں پوچھ گچھ نہ ہوگی بلکہ ان کے اعمال پہلے ہی گنے جاچکے ہوں گے اور جب وہ اپنے گناہوں کااعتراف کرلیں گے تو ان کوان کے کیے کی سزاچکھائی جائے گی۔
جہنم کے اوپربنائے گئے پل صراط پرسلامتی سے گزرجانے والاہی جنت کامستحق ہوگا۔اس کے بعد ان کو جنت وجہنم کے درمیان کھڑاکیاجائے گا۔ یہاں پر دنیاکے باہمی حقوق کا تصفیہ ہوگا ،اور اہل حق کو ان کا حق لوٹایاجائے گا۔ اگر وہ اس مقام پر محفوظ ومغفور قراردیے جاتے ہیں توان کو جنت میں داخلہ کے پروانے جاری کردیے جائیں گے۔
۶: شفاعت نبوی :
بروزِمحشر رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔مختلف قسم کی شفاعتیں فرمائیں گے ،پہلی شفاعت روزِجزامیں اکٹھے تمام لوگوں کے لیے ہوگی ،دوسری جنتیوں کے دخولِ جنت کے لیے اور تیسری دوزخیوں کے لیے ہوگی۔ اعمال بدکے نتیجے میں جہنم کے اندر سزاکاٹنے والوں کی نجات کے لیے بھی آپ شفاعت فرمائیں گے ۔زندوں کااپنے مردوں کے ایصال ثواب کے لیے دعاو صدقہ کرنابھی فائدہ بخش ہوتاہے۔
شفاعت نبوی کے بارے میں فرقہ وہابیہ نے مختلف نظریات گڑھ لیے ہیں جوعقائداہلسنّت سے میل نہیں کھاتے ۔
۷: قضاوقدرپرایمان :
اہلسنّت اچھی وبری تقدیرپرایمان رکھتے ہیں ۔ایمان بالتقدیرکے دودرجے ہیں :
پہلادرجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے اگلے اور پچھلے اعمال سے باخبر ہے، ان کی فرماں برداری اور نافرمانی والے اعمال وقوع پذیرہونے سے پہلے ہی اس کے علم میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمام موجودات کی تقدیر کولوحِ محفوظ میں قلم بندفرمادیاہے۔انسان کو ایک فرشتے کے وسیلے سے شکم مادر ہی میں اس کی تقدیراسے ودیعت کردی جاتی ہے دراں حالیکہ ابھی اس کی روح بھی اس کے بدن میں نہیں بھونکی گئی ہوتی ۔فرقہ قدریہ کے بعض افراد نے اس سلسلہ میں کئی غلط نظریات گڑھ رکھے ہیں۔اہل اسلام کو اس نہایت نازک مسئلہ میں بہت ہی حساس ہوناچاہیے۔
اس کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ منشاے الٰہی سب سے بالاترہے۔ کسی شخص کا زیورِ ایمان سے آراستہ ہونا یا نہ ہونا محض رضاے الٰہی کے بعد ممکن ہے۔فرقہ قدریہ نے تقدیرکے اس پہلو کوبالکل نظرکردیاہے۔
۸: ایمان قول وفعل کامجموعہ ہے جوگھٹتا بڑھتارہتاہے :
یہ اہلسنّت کابنیادی عقیدہ ہے کہ ایمان کاگراف نیکیوں کی وجہ سے بڑھتارہتاہے اور گناہوں کے باعث روبزوال ہوتارہتاہے ۔ جملہ اعمالِ خیر‘دین وایمان کے زمرے میں آتے ہیں۔
۹: اہل قبلہ کی بسبب معصیت تکفیر ناجائزہے :
عقیدۂ اہل سنت رکھنے والے کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ خانہ کعبہ کی طرف رُخ کرکے نمازپڑھنے والے کی تکفیر کرے اگرچہ وہ ضعیف الایمان ہی کیوں نہ ہو۔خارجیت‘ اسلام کی پہلی مبتدعانہ تحریک ہے جس نے پہلی دفعہ اس مسئلہ میں رخنہ ڈالا۔
کافربظاہرکتناہی نیکوکار ہواس کو اپنے کیے کاکچھ فائدہ نہ ملے گا۔ اور ایک مسلمان خواہ کتنا ہی گناہ کیوں نہ کرلے صرف گناہ کی بنیادپر اس کی تکفیر نہیں کی جاسکتی جب تک کہ وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہ ٹھہرائے۔
۱۰: کراماتِ اولیابرحق ہیں :
اولیا ء اللہ کی کرامتیں حق جاننا، اللہ تعالیٰ کا ان کے ہاتھوں سے غیر معمولی واقعات کاصادر کرنا اورعلم کے مختلف شعبوں میں ان کے انکشافات پریقین کرنا اہلسنّت کے بنیادی عقائد میں سے ہے ۔
۱۱: رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کامعجزانہ سفرمعراج :
قرآن اور احادیث کی شہادتوں کے مطابق رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔نے جسمانی اور روحانی طورپر آسمانوں سے پرے دنیا کی سیرفرمائی۔ اس معجزانہ سفرمعراج کے منکر کو کافرقراردیاجائے گا۔ قرآن پاک میں ہے کہ رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔کا بیت المقدس تک جاناایک حقیقت واقعیہ ہے،اورمستند احادیث بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔نے آسمانوں کی سیر فرمائی ۔
سُبْحَانَ الَّذِيْ أسْرَی بِعَبْدِہٖ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إلَی الْمَسْجِدِ الأقْصَی الَّذِيْ بَارَکْنَا حَولَہُ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا إنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ o (سورۂ اسرا: ۱۷؍۱)
وہ ذات(ہرنقص اورکمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے(محبوب اور مقرب) بندے کو مسجدحرام سے(اس)مسجداقصیٰ تک لے گئی جس کے گردونواح کوہم نے بابرکت بنادیاہے تاکہ ہم اس(بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔بے شک وہی خوب سننے والاخوب دیکھنے والاہے۔
اس معجزہ پر ایمان نہ لانے والے کفارو منافقین نے فتنہ جگانے کی خاطر اس کامذاق بنانے کی کوشش کی ۔ اس فتنہ کوپورے مکہ میں پھیلادیاگیا کیوں کہ وہ آپس میں ہرملاقاتی کو اس کے بارے میں بتاتے تھے ۔ ان میں سے کسی نے ابوبکرصدیق۔رضی اللہ عنہ۔سے پوچھاکہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ایک ہی رات میں مکہ سے بیت المقدس تک جانے کادعویٰ کررہے ہیں آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ آپ نے اپنے معمول کے مثالی اعتماد اور اطاعت شعاری کے ساتھ اس پھیلنے والے فتنے کاجواب ان الفاظ میں دیا کہ اگر حضور۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ ایسافرماتے ہیں تویہ سچ ہے۔
۱۲: وجودِ باری تعالیٰ کااعتراف :
وہ لوگ کافر ہیں جو اپنے اقوال سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار نہیں کرتے اگرچہ ان کا دل اس کا معترف ہے ۔ اور وہ لوگ منافق ہیں جو اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے وجود پر یقین نہیں رکھتے اگرچہ قولاً اس کو قبول کرتے ہیں۔ لیکن کسی ظاہری انکار یامنافقت کے کسی ٹھوس ثبوت کے بغیرکسی کومنافق ٹھہراناجائزنہیں۔
۱۳: روزِ جزا۔
روزجزاکائنات کے لیے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ زندگی کا آخری دن ہے۔ روزِ جزامیں ہر ایک کے اعمال کا حساب لیا جائے گا کوئی بھی دنیا میں کسی دوسری جسم و صورت میں واپس نہیں لوٹایاجائے گا۔ کیوں کہ حضرت آدم ۔علیہ السلام۔ سے لے کر روزِ جزاتک دنیا میں آنے والے ہر ذی روح کا بدن پہلے سے تیارشدہ ہے۔ اسی طرح کوئی بھی روح کسی دوسرے جسم کے ساتھ دنیاے ارضی کی طرف نہیں لوٹے گی۔
۱۴: جنت کی بشارت پانے والے خوش نصیب صحابہ :
(صحابہ کرام خصوصا) عشرۂ مبشرہ کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال ان کے حق میں گستاخی پرمحمول ہوگا اور یہ ان عظیم شخصیات کی حق تلفی ہے۔ ان خوش بخت صحابہ کرام کے اسماے گرامی حسب ذیل ہیں :
۰ حضرت ابوبکر۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت عمر۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت عثمان ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت علی ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت طلحہ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت زبیرابن عوام۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت سعد بن ابی وقاص۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت سعید ابن زید۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت عبد الرحمن بن عوف۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
۰ حضرت ابوعبیدہ ابن جراح ۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
تاریخ اسلام کاابتدائی دور ان عظیم شخصیات کے کارناموں سے بھراپڑاہے ۔رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔نے احادیث میں ان کی عظمت بیان فرمائی ہے ۔مزیدیہ بھی فرمایاکہ میرے بعد ان میں سے بعض اس قابل تھے کہ انھیں درجہ نبوت فائز کیاجاتا(مگرچوں کہ دروازۂ نبوت مجھ پربندہوچکاہے)۔اسی وجہ سے ان پر افتراپردازی رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔پرافتراپردازی کے برابر ہے۔
مبتدعانہ تحریکوں کی ایک مشترکہ صفت ہے کہ وہ عشرۂ مبشرہ کے بارے میں آوازے کستے ہیں رہتے ہیں ۔اہل سنت کاایسے نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔
۱۵: پیغمبرکے علاوہ کوئی معصوم نہیں :
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے اقوال کی حفاظت فرماتاہے۔ جماعت اہل سنت کی نمائندگی کرنے والے عظیم وجلیل علماے دین کے مکتوبات ومنقولات پرعمل پیرا ہونااہل اسلام کے لیے نہایت ضروری ہے۔تاہم چندانتہاپسند تحریکوں کے دعوے اس کے برعکس ہیں جن کی اتباع مسلمانوں پر لازم نہیں۔
۱۶: اسلام کے بنیادی ماخذ :
قرآن وسنت سے متضاد کوئی بھی شی درجہ قبولیت نہیں پاسکتی۔ یہ اہل سنت وجماعت اور دوسرے فرقوں کے درمیان ایک نشانِ امتیاز ہے۔ بلاشبہہ رسول اللہ ۔صلی اللہ علیہ وسلم ۔نے فرمایاہے کہ جب بھی کسی مسئلہ میں ہمارا اختلاف ہو توہمیں قرآن وسنت کی طرف رجوع لاناچاہیے۔ اہلسنّت کاعقیدہ ہے کہ کسی ایسے عمل کوجزءِ اسلام بنانے سے بہرحال گریزکرناچاہیے جوقرآن وسنت کاحصہ نہیں۔
۱۷: قرآن وسنت میں تاویلات کی کوئی گنجائش نہیں :
عقل وقیاس سے قرآن وسنت کی تاویل کرنا درست نہیں کیوں کہ ہمارے مکتب فکر کے علمااورصحابہ کرام نے علوم کو براہِ راست قرآن وسنت سے حاصل کیاہے۔ اہل ایمان‘ قرآن وسنت سے مطابقت رکھنے والے ہرمسئلہ کو قبول کرتے ہیں اور اس کے مخالف ہرشے کوچھوڑ دیتے ہیں۔ اہل سنت وجماعت کادوسرے فرقوں سے امتیازی نشان یہ ہے کہ وہ ان کوتمام علوم کاسرچشمہ قراردیتے ہیں۔ اپنے مفروضوں،من مانیوں اور خواہشات کی بجائے وہ ان دونوں کی روشنی میں اپنے جملہ مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ کسی کو قرآن وسنت میں شکوک وشبہات نکالنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔