کشمیر میں پچھلے ڈھائی مہینے میں ہونے والی لڑائی میں ایک سو چالیس مسلمان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حال ہی میں ایک سترہ سالہ لڑکے کی موت انڈین پولیس کے چلائے ہوئے گیس بم سینے پر لگنے سے ہوئی جسکی وجہ سے کشمیری سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل آئے۔ انڈین پولیس ان احتجاج کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی اس علاقے میں بغیر کسی مزید جانی یا مالی نقصان کے امن و امان بحال ہو جائے گا۔ اور ایک ایسا ماحول بن جائے گا کہ کشمیری مسلمان امن اور آرام کے ساتھ رہ سکیں گے۔
آج کشمیر میں ہونے والے واقعات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے اتنا کافی ہوگا کہ پچھلے ساٹھ سالوں میں کشمیر میں کیا ہوا اس پر مختصرا نظر ڈالی جائے۔ البتہ اس سے پہلے ہمیں ایک بہت ہی اہم پہلو پر زور دینا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں بہت سے مسلمان کشمیر میں شہید کیے گئے، بہت سے اپاہج ہوئے اور نسلی امتیازی پالیسی کی وجہ سے بہت سوں نے تکالیف اٹھائیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کشمیر کے مسلمانو ں پرایسی پالیسی اختیار کی گئیں جو آزادی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ مگر کشمیری مسلمانوں کو ان تمام پریشانیوں کے حل کے لیے فساد اور جھگڑے کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئیے۔ یہ یقینی بات ہے کہ ایسا طریقہ اختیار کرنے سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا بلکہ مزید نقصان اور تکالیف کا باعث بنے گا۔ کشمیر کے مسلمانوں کو ان مظالم ، سوچ اور تحریکوں کے پیچھے چھپی حقیقی وجہ سے ضرور لڑنا چاہئیے جو کہ بے رحمی، خود غرضی اور جھگڑوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اسکوبے اثر کرنے کے لیے علم، تہذیب اور سچائی کے ساتھ جدوجہد کرنی چاہئیے اور بے دینی کو ختم کرنے کے لیے پوری کوشش کریں جو کہ دجال کے نظام کا ایک اہم ہتیار ہے۔ کشمیر کے لوگ اپنی زمین پر آرام کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، حفاظت کے خوف سے آزاد، دوسرے مذاہب اور نسلوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ ۔
ان خواہشات کی تکمیل کے لیے جو واحد راستہ ہے وہ ہے کہ اللہ نے جو اخلاقی قدریں قرآن میں بیان کی ہیں انکو پھیلایا جائے اور لوگ ان اخلاقی قدوں کی روشنی میں کام کریں۔ اتجاج اور جمہوری حقوق کی آواز قانون کے اندر رہ کر ہونی چاہئیے اور فساد کا بلکل استعمال نہ ہو۔ یہ بہت اہم ہے کہ ایسا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے کے انڈین پولیس کو معصوم کشمیری لوگوں پر ہتیار اٹھانے کا موقع ملے۔ کیونکہ ایسا کرنا بلکل قرآنی اخلاقی قدروں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
قرآن سے جو چیز مطابقت رکھتی ہے وہ یہ کہ آخری دور کے اس سب سے زیادہ فسادی دور میں نبی صل اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر چلتے ہوئے دجالی نظام سے ہوشیار رہا جائے اور حضرت مہدی کے ساتھیوں میں شامل ہونے کے لیے جدو جہد کی جائے جو کہ دجال کے نظام کو بے اثر کریں گے۔ اللہ کے حکم کے مطابق متحد ہو جاوَ اور ایک مظبوط یک جہتی پیش کرو، تمام وسائل کو بروئے کار لا یا جائے اس بد دیانتی، ڈارونزم، مادہ پرستی، ایتھیزم اور بے دینی کی اصل وجوہات کے خلاف عقلی جدوجہد کرنے کے لیے۔
کشمیر کے لوگ جن پر صرف اس لیے ظلم ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں
دوسری جنگ عظیم کے اختتام تک بر صغیر برطانیہ کے تسلّط میں تھا۔ جب انگریز چلے گئے تو انڈیا کے مسلمانوں نے پاکستان بنایا۔ بہت سارے مسلمان جو کہ انڈیا میں رہ رہے تھے پاکستان ہجرت کر گئے۔ اگرچہ کشمیر کا علاقہ جو کہ "جموں اور کشمیر" کے نام سے جانا جاتا ہے انڈیا ، پاکستان اور چائنا کی سرحدوں سے ملتا ہے، ۶۷ فیصد مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے، انڈین سیاستدانوں کی چالاکیاں اور سازشوں کی وجہ سے انڈیا کے زیر حکومت رہ گیا۔ جب سے لے کر، ۲۰۰۱ کی مردم شماری کے مطابق، چالیس لاکھ مسلمان انڈین حکومت کی طرف سے دباوَ اور ظلم کا شکار ہوئے۔
کشمیر کے مسلمانوں نے اس ظلم و ستم سے نجات کی تلاش کی اور آزادی کا مطالبہ کیا مگر ۱۹۴۷ ، ۱۹۶۵ اور ۱۹۷۱ میں ان مطالبوں کی وجہ سے انڈین آرمی کی جانب سے انکا خوفناک قتل عام کیا گیا۔ اس قاتلانہ حملے میں ہزاروں کی تعداد میں مسلمان شہید ہوئے اور چار ہزار سے زیادہ خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انکی عصمت دری کی گئ۔
۱۹۹۰ میں انڈین حکومت نے ظلم میں زیادتی کی۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمانون بند کر دیا اور تشدد کے ذریعے شہید کر دیا۔گھروں میں لوٹ مار کی گئی اور اخبارات جو کہ اسلامی تعلیمات مہیّا کر رہے تھے بند کر دیے گئے۔ ظالم حکمران مزید آگے بڑھ گئے، پانی پر لگائے گئے بند کے دروازوں کو کھول دیا اور کشمیر اور پاکستان میں سیلاب کے ریلے کو چھوڑ دیا جسکی وجہ سے ہزاروں لوگون کی اموات ہوئیں اور پورے علاقے میں زبردست تباہی ہوئی۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آج تک تقریبا اسّی ہزار مسلمان کشمیر میں شہید کیے جا چکے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے ساتھ انڈین جیلوں میں زیادتیاں کی گئیں اور دس ہزار کا کچھ پتا نہیں چل سکا کہ کہاں گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کے لوگوں پر اس ظلم وستم، جھگڑے، بغیر کسی وجہ کے قید، تشدد اور مالی پاپندیوں کی وجہ صرف اور صرف یہ کہ وہ مسلمان ہیں۔ وہ یہ حربہ استعمال کر کے مسلمانوں کو متحد اور مضبوط ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔
تقریبا اسّی ہزار مسلمان اب تک انڈین حکومت کے ظلم کی وجہ سے کشمیر میں شہید ہو چکے ہیں۔
بہت سے مغربی ممالک ان کی آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے ان تمام مظالم کے باوجود خاموش ہیں۔
کچھ مغربی ممالک اپنے مفادات کے نقصان کے ڈر سے کشمیر کے لوگوں پر اس ظلم وستم کی پالیسی میں کوئی دلچسپی نہیں لے تے لہٰذا انڈیا کو آزادی ہے کشمیر کے مسلمانوں پر اس ظلم و ستم کو جاری رکھنے کی۔ یہاں تک کہ اگر عالمی میڈیا تنظیمیں اگر کچھ کچھ عرصے سے کشمیر میں ہونے والے واقعات کو اٹھاتی ہیں جو کے کئی سالوں سے جاری ہے تو اسے "انڈیا کے علاقے میں ہونے والے لوکل جھگڑوں" کا نام دے دیا جاتا ہے۔ مختصرا یہ کہ، تشدد، قتل اور انسانیت کے خلاف ظلم کو صحیح طریقے سے نہیں بیان کیا جاتا، اس ظلم و ستم کی کھلے عام مذّمت نہیں کی جاتی، اسی وجہ سے اس ظلم و ستم پر خاموشی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے تمام مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر رہنا چاہتے ہیں اور اپنی زمین پر رہنا چاہتے ہیں جہا ں پر وہ اپنے بچّوں کی امن اور حفاظت کے ساتھ پرورش کر سکیں۔
تمام مسلمان فوری طور پر کشمیری مسلمان بھائیوں کی آزادی اور قید سے چھٹکارے کے لیے اپنی ذمہ داری کو نبھائیں۔
اللہ نے قرآن می بہت سی آیتوں میں بتایا کہ مسلمان ایک دوسرے کے سر پرست ہیں اور اس نے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے جب مدد کی ضرورت ہو اور ایک دوسرے کی حفاظت اور دیکھ بھال کا حکم دیا ہے۔ اس نے علیحدہ ہونے اور ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بھی منع کیا ہے۔
مومن مردو عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مدد گار) دوست ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ، نماز کو پابندی سے بجا لاتے ہیں اور زکواۃ دیتے ہیں ، اللہ کی اور اسکے رسول کی با ت مانتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا۔سورۃ التوبہ ۷۱
اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔سورۃ آل عمران ۱۰۳
اللہ مندرجہ ذیل آیت میں مومنوں کو مخاطب کر کے ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم کرتا ہے۔
اور اپنے رب کے فرمان کو قبول کرتے ہیں اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور انکا کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے دیتے ہیں اور جب ان پر ظلم و زیادتی ہوتی ہے تو صرف بدلہ لیتے ہیں ۔سورۃ الشوری ۳۸، ۳۹
آج یہ وہ وقت ہے کہ تمام مسلمان اللہ کے اس حکم کو بجا لائیں۔ یہ بلکل نہیں بھولنا چاہئیے کہ تمام اسلامی ممالک ہر مسلمان پر ہونے والے تشدد، قتل، اپاہج کے ذمہ دار ہیں صرف اس لیے کہ وہ مسلمان ہیں۔ انشاء اللہ بہت جلد ان لوگوں کی آزادی اسلامی دنیا کے ہاتھوں ہو گی جب وہ حضرت مہدی کی روحانی قیادت کے نیچے دنیا کے آخری دور میں متحد ہونگے اور وہ دور یہ ہے جس سے ہم گزر رہے ہیں۔ لہذا پوری دنیا میں موجود مومنوں کو اپنے ضمیر کی آواز سننی چاہئیے اور یہ مان لے نا چاہئیے کہ یہ ان پر فرض ہے اور بغیر کوئی وقت ضائع کیے مظلوم بھائیوں کی آزادی کے لیے کام کرنا چاہئیے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس چیز کو حاصل کرنے کے لیے ایک راستہ ہے اسلامک یونین کا قیام، اسلامی دنیا کا اتحاد۔ناانصافی، ظلم، اختلافات، جھگڑے اور بد نظمی صرف اسلامک یونین کے قیام سے ہی ختم ہوگی۔ جب اسلامک یونین کا قیام ہوگا تبھی مسلمانوں کو اس قتل عام اور اپنی زمین پر ڈر کر رہنے سے آزادی نصیب ہوگی۔
کشمیر کے مسلمان پوری اسلامی دنیا کی مدد کے منتظر ہیں۔