اللہ تعالیٰ نے تمام دنیاوی معاملات کو سلجھانے کیلئے انسان کو دعا کرنے کا سلیقہ بتایا ہے اور اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ یقیناًاپنے خادم کی دعا سے رجوع کرے گا۔ اور یہ ایک انسان کے لئے بہت بڑی خوشخبری ہے۔خلوص سے کی گئی دعا کے پیچھے ایک بہت بڑی حقیقت چھپی ہے۔ایک شخص اپنی بے اختیاری میں خواہش کرتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو جائے مگر دراصل اسکی اپنی خواہش اللہ کی رضا پر مقدم ہوتی ہے۔انسان کو توقع یہ ہوتی ہے کہ اسکی دعا قبول ہو جائے اور وہ یوں نہیں سوچتا کہ اللہ کی رضا کیا ہے۔ حالانکہ ہماری تمام تر خلوص یہ ہونا چاہئے کہ ہم اللہ سے اور اللہ ہم سے محبت کرے۔ ہمیں اللہ پر تمام یقین ہو۔ ہمیں اللہ کے تمام وعدوں اور الفاظ پر یقین ہو۔ کسی شک کے بغیر، ہمیں اللہ کی ربوبیت وتخلیق پر یقین ہو، لازوال رحمت و رحمانیت، لازوال احسانات ورحیمیت کو سراھے اور اسکی تخلیق کے مظہر پر یقین رکھے۔ یہ یاد رکھئیے کہ اللہ کبھی بھی کسی وقت بھی دعا کی قبولیت کر سکتا ہے۔ اور پھر دل میں کوئی شک نہ لائے ۔تب ہی وہ شخص اللہ کی رضا اور دعا کی قبولیت کا مظہر بنے گا۔
معاشرے میں بے شمار لوگ اللہ میں اس لئے یقین نہیں رکھتے کہ جیسا کہ اللہ کا حق ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اتفاقی طور پر یا کبھی کبھی اللہ سے دعا مانگتے ہیں۔ یہ لوگ ظاہری طور پر عبادت کرتے ہیں اور قرآن میں دیئے گئے احکامات کی منافی کرتے ہیں۔درحقیقت جب وہ دیکھتے ہیں کہ جب وہ دنیاوی معاملات و ضروریات کی حصولی پر پورے نہیں اترتے یا مصائب جھیلنے کی سکت نہیں رکھتے،تکالیف و بیماری ان پر آپڑتی ہے تو وہ اللہ کا نام لے کر گریہ ڈالتے ہیں مگر دراصل صرف وقتی طور پر اپنے مقاصد و مشکلات کو دور کرنے کا حل دعا سے نکالتے ہیں۔
وہ لوگ جو اپنے عام حالات زندگی میں اللہ کو ساتھ نہیں رکھتے،شکر نہیں کرتے،عبادت گزاری و خوف نہیں رکھتے ۔صرف اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتے ہیں تو اللہ ایسے لوگوں کا ذکرقرآن میں اس طرح کرتے ہیں۔
) ’’آپ کہہ دیجئے (اے رسولؐ) کہ وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور دریا کی ظلمات سے نجات دیتا ہے۔تم اسے پکارتے ہو،تذلل ظاہر کرتے اور چپکے چپکے، کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دیں تو ہم ضرور حق شناسی والوں میں سے ہو جائیں۔‘‘
) ’’آپؐ کہ دیجئے کہ اللہ ہی تمکو ان سے نجات دیتا ہے اور ہر غم سے ، تم پھر بھی شرک کرتے ہو۔‘‘(سورۃ انعام63-64)
) ’’اور سمندر میں مصیبت پہنچتے ہی جنھیں تم پکارتے تھے سب گم ہو جاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی رہ جاتا ہے،پھر وہ جب تمہیں خشکی کی طرف بچا لاتا ہے تو تم منہ پھیر لیتے ہو۔ انسان بڑا ہی ناشکرا ہے ۔‘‘( بنی اسرائیل۔67)
ان آیات میں جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ وہ ہیں جو اپنی دعا سے فائدہ ملتے ہی دوبارہ اپنے شرک کی طرف دوبارہ پلٹ جاتے ہیں حالانکہ وہ اللہ کی ربوبیت کا مظاہرہ دیکھ چکے ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کی تخلیق ، قرب، محبت، الفت اپنے بندے کی حفاظت کا مظاہر ہ کرنے کے باوجود اس حقیقت تک پہنچنے سے قاصررہتے ہیں جس سے وہ خالص اللہ کے بندے بن سکیں۔
اور پھر کچھ اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو اللہ میں یقین کی وجہ سے ہر روز اللہ کی تجلیا ت سے فیضیاب ہوتے ہیں اور وہ اس حقیت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ اللہ کے فضائل کا فیض اور انعامات انکی روزمرہ زندگی میں شامل ہوتے ہیں۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ دنیا کے کچھ تکنیکی حقائق کی وجہ سے وہ اس شک میں پڑ جائیں کہ اللہ نے دعا سنی کہ نہیں اور وہ اس سے آشکار نہ ہو سکیں کہ اللہ نے کس چیز میں بھلائی رکھی ہے۔ اور وہ کچھ حقائق پر خود ہی فیصلہ کر لیں کہ کیا ہونا چاہیے۔ مثلاً تکنیکی تجزیہ ایسے ہو سکتا ہے کہ2+2=4 اور اس 4کی جگہ کچھ اور نہیں آسکتا۔ وہ لوگ اس طرح کے تکنیکی مسائل میں گھیر سکتے ہیں اور ان کا یقین کمزور پڑسکتا ہے۔ کہ جو وہ چاہتے ہیں انکو بلکل ویسا ہی کیوں نہیں ملتا اور پھر یقین کامل نہ رکھنے والے کاش کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اور وہ اللہ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ’’بے شک یہ تو یوں ہے مگرمجھے امید یہی ہے کہ یہ یوں ہی ہو گا۔‘‘
مگر وہ جانتے نہیں کہ وہ اپنے ہی جائزے سے اس کو پورا کرنے پر مقدم نہیں ہوتے اور ایسے لوگ صرف اپنی ہی بات منوانے پر تلے ہوتے ہیں ۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے، انکی خواہشات میں اللہ کی رضاء نہیں ہوتی۔جبکہ انسان کو اللہ کی رضا میں اپنی رضاء رکھنی چاہیے۔اس دنیا میں اپنی خواہشات کو مقدم رکھ کر زندگی گزارنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم اللہ سے تعلق کو مقدم رکھیں جس سے ہمارہ تعلق اللہ سے مضبوط ہوگا وہ یہ ہے کہ ہم خلوص دل سے دعا کریں ۔ اس یقین سے کہ جو اللہ کرے گا ۔ بہتر کرے گا اور یہ کہ ہم اللہ کی حکمت کے سامنے اپنے دماغی جائزہ کو محدود سمجھیں اور یہ کہ تمام معاملات و طاقت اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور اللہ ڈھکی چھپی اور کھلی باتوں کا جاننے والا ہے۔ اور یہ ہمیں جان لینا چاہیے کہ تکنیکی فیصلے اور دماغی جائزہ عموماً ہمیں دھوکے میں ڈال دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ اس سے بہت دور ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کے دل میں اللہ کی محبت، یقین ، مکمل ایمان ہوگا تو تب ہی اللہ تمام مسائل بہترین طریقہ سے نپٹائے گا۔ یہ یقین رکھیں کہ اللہ کی رحمت اپنے بندے کو ہر مشکل سے نکال لینے والی ہے۔
اللہ اپنی آخری کتاب قرآن میں بہت واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور اللہ وہاں سے اپنے بندے کی مدد کرتا ہے جہاں سے ہمیں امید نہیں ہوتی۔ اللہ اپنے حکم سے ہر طرح اور ہر قسم کے لوگوں پر اپنی رحمت سے فتح بھیج سکتا ہے۔ اللہ نے اپنی رحمت سے حضرت موسیٰ ؑ اور انکی قوم بنی اسرئیل کی بھی مدد کی تھی جب فرعون کے سپاہی ان کے پیچھے تھے اور سمندر سامنے تھا۔ اسی طرح اللہ نے ایک نبی کو اولاد دی جبکہ وہ اور انکی بیوی بوڑھے تھے اور پھر وہ بھی وقت تھا جب ایک نبی ویل مچھلی کے پیٹ میں تھے اور پھر ان پر رحمت نازل کی گئی تھی۔ اور پھر وہ نبی جو اندھے کنویں میں پھینکے گئے تھے جہاں کوئی انکو دیکھ نہیں سکتا تھا اور پھر انکو اللہ نے نکالا تھا۔
اس طرح قرآن کھول کھول کر اضح طور پر بیان کرتا ہے۔ تمام وہ واقعات جن میں اللہ نے اپنے بندوں پر خاص کرم کیا اور ان تمام واقعات میں حکمت یہ ہے کہ ان سب اللہ کے نیک بندوں نے اللہ کی لازوال طاقت اور ہمدردی پر شک نہیں کیا اور جو حالات اللہ کی طرف سے بنائے گئے ان پر خوش رہے۔ اللہ قرآن میں یہ سامنے لاتا ہے کہ وہ ہر دعا کو سننے والا ہے اور وہ لوگ جو اللہ پر مکمل ایمان ویقین رکھتے ہیں اور شرک نہیں کرتے کامیاب رہتے ہیں۔
) ’’یقیناًتمہارے مالوں اور تمہاری جانوں میں تمہاری آزمائش کی جائے اور یہ بھی یقین ہے کہ تمہیں ان لوگوں کی جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور مشرکوں کی بہت سی دکھ دینے والی باتیں بھی سننی پڑیں گی اور اگر تم صبر کرلو اور پرہیز گاری اختیار کرو تو بہت بڑی ہمت کا کام ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)
) ’’ہمیں نوح نے پکارہ تو دیکھ لو کہ ہم کیسے اچھے دعا قبول کرنے والے ہیں۔‘‘(سورۃ الآفّٰت۷۵)
) ’’اور تمہارے رب کا فرمان سرزد ہو چکا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا یقین مانو کہ جو لوگ میری عبادت سے خود سری کرتے ہیں وہ ابھی ابھی ذلیل ہوکے جہنم میں پہنچ جائیں گے۔‘‘(سورۃ الاغافر۶۰)
) ’’بے کس کی پکار کو جبکہ وہ پکارے کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین میں نائب بنایا ہے کیا اللہ کے ساتھ اورمعبود ہے یا تم بہت کم نصیحت اور محبت حاصل کرتے ہو۔‘‘(سورۃالا نمل۶۲)
) ’’تم اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو۔ تذلل ظاہر کیلئے بھی اور چپکے چپکے بھی۔ واقعی اللہ انکو ناپسند کرتا ہے جو حد سے نکل جاتے ہیں۔‘‘(سورۃ العراف۵۵)