قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آوٗ گے"۔(سورۃالمومنون:۱۱۵) مندرجہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ کا پیغام واضع ہے کہ بنیِ نوح انسان کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ اسے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لئے تخلیق کیاگیا ہے،ان میں سے ایک خاص مقصد مندرجہ ذیل آیت میں واضح کیا گیا ہے۔
"اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں"۔(سورۃالذٰرےٰت: ۵۶)
اس آیت سے واضح ہے کہ کائنات میں انسان کی تخلیق کا ایک مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت و تسبیح ہے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے اُسے اوسطََ۶۰سے ۷۰سال کی زندگی عطا کی گئی ہے ۔ہر فرد ایک مقررہ وقت تک اس زمین پر زندہ رہے گا ۔اس وقت کا علم صرف اور صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو معلوم ہے جیسا کہ سورۃ رعد میں بیان فرمایا ہے کہ اس دنیا کی زندگی آخرت کی ہمیشہ کی زندگی کے مقابلے میں بہت قلیل ہے ۔
"۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دنیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا فائدہ ہے۔"(سورۃالرعد: ۲۶)
دنیا کی اس عارضی اور حقیر زندگی میں ہر شخص اپنے رویوں ، اخلاقی قدروں ، ارادوں اور مختلف واقعات کے ذریعے آزمایا جائے گا اور اس کے لئے صرف یہ کہنا کہ "میں ایمان لایا" کافی نہیں ہے۔ ایمان اور یقین اس کے طرز عمل سے بھی نظر آنا چاہیے ۔ یہ اس لئے کہ ہر شے چاہے وہ ظاہر ہو یا پوشیدہ قیامت کے دن اعمال نامے میں ظاہر کر دی جائے گی اور لوگوں سے ذرہ برابر بھی ناانصافی نہیں کی جائے گی۔
"۔۔۔ ۔۔ ۔۔اور اُن پر دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔" (سورۃالنساء: ۴۹)
جنہوں نے اچھے اعمال کیے ہوں گے اور اپنے رب کو راضی کیا ہوگا اُنکا ٹھکانہ جنت میں ہو گا جو کہ ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے اور ان کا وہاں ربِ کائنات کی ابدی نعمتوں اور فرشتوں کے سلام سے استقبال کیا جائے گا۔ اس کے برعکس وہ لوگ جنہوں نے شیطان کا راستہ اختیار کیا اور اپنے نفس پر ظلم و جبر کیا، ان کو اس کے بدلے میں قیامت کے دن جہنم میں ڈالا جائے گا جو کہ نہایت ہی برا ٹھکانہ ہے ۔یہ سب کچھ اس لئے ہو گا ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ مختصر سی زندگی اس لئے عطا فرمائی ہے تاکہ وہ یہ آزمائے کہ اچھے اعمال اور برے اعمال کو ن کرتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ الملک میں بیان کیا گیا ہے۔
"اُسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کرتا ہے۔۔۔۔۔"(سورۃالملک: ۲) اچھے اور برے اعمال کے ذریعے آزمائش قرآن کریم میں کئی مقامات پر یہ بات واضح کی گئی ہے کہ انسان کی بُرے اعمال کے ساتھ ساتھ اچھے اعمال کے ذریعے بھی آزمائش کی جائے گی ۔
"اور اے پیغمبر ہم نے تم سے پہلے کسی آدمی کو بقائے دوام نہیں بخشا۔ بھلا اگر تم مر جاؤ تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہینگے۔ ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تم لوگوں کو سختی اور آسودگی میں آزمائش کے طور پر مبتلا کرتے ہیں۔ اور تم ہماری طرف ہی لوٹ کرآؤگئے۔"(سورۃالانبیاء: ۳۴۔۳۵)
لوگوں کو چاہیے کہ دولت کی کثرت ،فراوانی اور اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے وقت اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اخلاقِ حمیدہ کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیں ۔اور اس دوران ربِ کائنات کی نصیحت اور احکامات کا خیال رکھیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دولت کی فراوانی میں بھی آزمائش اور امتحان ہو ۔ہو سکتا ہے کہ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناشکری ہو جائے۔ خاص طور پرہر اس شخص کے لئے جو کہ اس حقیر ، عارضی اور ناپائیدار دنیا میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ حالانکہ مضبوط ایمان کا مالک انسان کسی بھی قسم کے حالات سے دوچار ہو، وہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نا شکری نہیں کرتا ۔
مزید برآں ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کی قدرتی و ناگہانی آفات ، بیماریوں ، کفار کی طرف سے ہر قسم کی جارحیت ، الزام تراشیوں ، پھانسی کے پھندے ، تضحیک یا پھر ظلم و تشدد کے ذریعے آزمائش کی جائے۔ لہٰذا ایک مومن یہ جانتے ہوئے کہ یہ تمام ایک امتحان ہے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ۔ کیونکہ اس صبر کے بدلے میں وہ ابدی نعمتوں کا حقدار قرار پائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کی اس عارضی اور حقیر دنیا کو آخرت کی ابدی دنیا کے بدلے خرید لیا ہے، کیونکہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے نفس اور جائیداد سب کے سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ان میں کوئی بھی نفع یا نقصان ان کے اخلاقی اقدار، ایمانی قوت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ روحانی لگاؤ پر اثر انداز نہیں ہوسکتا ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اُن تمام اقسام کی مشکلات کا سامنا انسان کو کرنا پڑے کیونکہ یہ قدرت کا اٹل قانون ہے جوکہ قرآن کریم سے واضح ہے تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس قسم کی تکالیف اور مشکلات غیر متوقع حالات میں رونما ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مصائب طویل عرصے تک جاری رہتے ہوئے نظر آئیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص جبکہ وہ امیر ترین ہے اور اچانک کسی ناگہانی قدرتی آفت کے ذریعے اپنا سب کچھ کھودے اور غربت کے پھندے میں پھنس جائے ۔یہ بھی ممکن ہے کہ شاہراہ زندگی میں کامیابی سے سفر کرتے ہوئے ناکامی سے دوچار ہو جائے۔ یہ سب اُس ربِ کائنات کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور جو صبر کا دامن مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے خوشخبر ی اور ہمیشہ کی نعمتوں کا وعدہ ہے ۔
"ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور تم کو قیامت کے دن تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ تو جو شخص آتشِ جہنم سے دور رکھا گیا ہے اور بہشت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچ گیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے۔ اے اہلِ ایمان تمہارے مال و جان میں تمہاری آزمائش کی جائے گی اور تم اہلِ کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔ تو صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمیت کے کام ہیں"۔ (سورۃاٰل عمران :۱۸۵۔۵۶ ۱)
جو بھی مومن ان مشکلات و تکالیف میں اعلیٰ اخلاقی قدروں ، جرات، حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کرے گا آخرت میں اس کا انعام و اکرام بھی اتنا ہی بڑھتا جائے گا ۔ اس عارضی اور حقیر دنیا میں کس کس طرح سے مومنین کی آزمائش کی جائے گی اوران کو کس کس طرح کے حالات میں کیسا رویہ یاطرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے،یہ بڑے اعلیٰ طریقے سے سورۃ البقرہ میں بیان کیا گیا ہے۔
"اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوروں اور میووں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کرینگے۔ تو صبر کرنے والوں کو خدا کی خوشخبری کی بشارت سنا دو ۔ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے راستے پر ہیں ۔"(سورۃالبقرہ:۱۵۵۔۱۵۷)
ان مشکل حالات میں مسلمانوں کے طرزِ عمل سے ایک بات جوکہ آشکار ہوتی ہے وہ ان کے ایمان کی مضبوطی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار ہیں ۔ جیساکہ قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ مومنین پریہ حالات اس وقت آتے ہیں جبکہ ان کی قدرت کی طرف سے کڑی آزمائش مطلوب ہوتی ہے۔ جب وہ گردشِ زمانہ کے بھنور میں لپیٹ لیے جاتے ہیں جیساکہ مندرجہ ذیل آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔
"جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل مارے دہشت کے گلوں تک پہنچ گئے ۔۔۔۔۔"(سورۃالاحزاب:۱۰)
جیساکہ قرآنِ کریم میں بیان فرمایا گیاہے کہ "ان کے دل گلے کو آتے ہیں" یہ وہ وقت ہے جبکہ ہر قسم کی مشکلات ، بیماریاں اور قدرتی و ناگہانی آفات جوکہ ایک انسان سوچ بھی نہیں سکتا، اسے چاروں اطراف سے گھیر لیتی ہیں۔ تاریخ میں انبیاء اور سچے مومنین پر اس قسم کے حالات کی مثالیں موجود ہیں اور یہ قرآنِ کریم میں موجود ہیں اور ان صبر آزما حالات کو (سورۃ البقرہ : ۲۱۴) ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
"کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی بہشت میں داخل ہو جاؤ گے اور ابھی تم کو پہلے لوگوں کی سی مشکلیں تو پیش آئی ہی نہیں ۔ان کو بڑی بڑی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور وہ صعوبتوں میں ہلا ہلا دئیے گئے ۔۔۔۔۔۔" (سورۃالبقرہ:۲۱۴)
ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ان الفاظ میں جواب دیتے ہیں۔
"۔۔۔۔ہم خداہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔" (سورۃالبقرہ:۱۵۶)
اور وہ ہر قسم کے حالات، مصائب اورزمانے کے گردشِ ایام میں اسی پر بھروسہ رکھتے ہیں اور بھرپور نیازمندی اور اطاعت سے سرِتسلیم خم کرتے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
راضی با رضا ایک مسلمان یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے ایک مقررہ تقدیر کے تحت تخلیق کی ہے اور اسے جس بھی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے امر سے ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ مشکلات و مصائب میں صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے جذبے اور حوصلے کے ساتھ اس میں بھی تسکین محسوس کرتا ہے، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تخلیق کیا ہے ۔سورۃ انعام میں ہر قسم کے حالات و واقعات چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے اللہ تعالیٰ کی مرضی سے رونما ہوتے ہیں ، مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔
" اور اُسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور اسُے جنگلوں اور دریاؤں کی سب چیزوں کا علم ہے اور کوئی پتا نہیں جھڑتا مگر وہ اس کو جانتا ہے اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اورکوئی ہری اور سوکھی چیز نہیں مگر کتابِ روشن میں لکھی ہوتی ہے۔" (سورۃالانعام:۵۹)
انسان زمانے میں رونما ہونے والے واقعات کو ظاہری تناظر میں دیکھ اور پرکھ رہا ہوتا ہے کیونکہ انسان مستقبل کے بارے میں نہیں جان سکتا، اس لیے وہ ہمیشہ رونما ہونے والے واقعات میں مخفی حکمت و دانائی کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے ہی ا س محدود وقت کو تخلیق کیااور اس کی ذات خود لا محدود ہے ۔اور وہ اس محدود وقت سے باہر ہر اس شئے کی زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہے جوکہ اس پر انحصار کرتی ہیں ۔یہی وہ نقطہ ہے جہاں قضائے الہٰی کی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ قضائے الہٰی یا تقدیر اللہ تعالیٰ کا بیک وقت رونما ہونے والے واقعات، چاہے وہ مستقبل اور ماضی سے متعلق ہوں کے علم کا نام ہے۔ باالفاظ دیگر وہ واقعات ہمارے لیے پراسرار ہیں کیونکہ ہمارا علم محدود ہے اور اللہ تعالیٰ ہر اس شئے کا علم رکھتا ہے جسے ہم نہیں جانتے ۔
تقدیر کے بارے میں علم وہ ہے جس کا احاطہ منکرین نہیں کر سکتے۔قضائے الہٰی پر ایمان کی بدولت مومنین مشکلات اور مصائب کے وقت تحمل اور دلیری سے ثابت قدم رہتے ہیں ،کیونکہ مومنین جانتے ہیں کہ کوئی بھی ناگہانی آفت واقع نہیں ہوتی سوائے اللہ تعالیٰ کی رضا کے۔ جو بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی راہنمائی فرماتا ہے اور اسے ہدایت دیتا ہے۔
"کوئی مصیبت نازل نہیں ہوتی مگر اللہ کے حکم سے اور جوشخص اللہ پر ایمان لاتا ہے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور خدا ہر چیز سے باخبر ہے" ۔ (سورۃاتغابن:۱۱)
اللہ تعالیٰ کے پاس ہر شئے کا علم ہے۔ مومنین ان حالات میں بھی صبرو تحمل اور اطمینان و سکون حاصل کر تے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ سب کچھ تقدیر اور قضائے الہٰی کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس لئے وہ ہما وقت راضی با رضا رہتے ہیں۔
ایک مسلمان جوکہ تقدیر کی حقیقت سے آشنا ہے، آزمائش کی مخفی حکمت جانتا ہے اور رنج و الم ، مصائب ، فقر اور غربت کے اوقات کو صبر و تحمل سے برداشت کرتا ہے اور ان حالات میں مطمئین رہتا ہے اور اس سے تسکین حاصل کرتا ہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ ان حالات میں وہ جن اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی منشا ہے۔ اطمینان اور تسکینِ قلب کا یہ تحفہ صرف مومنین کے لیے مختص ہے ۔مسلمان کبھی بھی ان مصائب والم میں مایوسی ، ذہنی دباوٗ، دکھ ، درد اور غم کا اظہار نہیں کرتے ،کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ واقعات چاہے اچھے ہوں یا برے اللہ تعالیٰ ان حالات کو ان کے لئے اچھا کردے گا ۔تاہم یہاں ایک نقظہ ہے جسے غلط نہیں سمجھانا چاہیے وہ یہ کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے مومنین ہر قسم کے مصائب و الم اور مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں وہ سب کچھ کھو سکتے ہیں، جسمانی طور پر کمزور پڑھ سکتے ہیں، بیمار پڑھ سکتے ہیں، زخم کھا سکتے ہیں یا ان کی موت واقع ہو سکتی ہے یا وہ مارے جا سکتے ہیں۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی شئے مسلمانوں کے لیے نقصان دہ نہیں ہو سکتی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو صبر و تحمل کے بدلے اس دنیا اور آخرت میں کئی گنا انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔ اس مختصر سی زندگی میں آزمائش کے بعدمومنین کو آخرت کی ابدی زندگی اور جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ مسلمان جو کہ اس حقیقت سے آشنا ہیں، مشکلات میں بھی صبرو تحمل کا مظاہرہ جوش و جذبے سے کرتے ہیں، مشکلات کے ان لمحات میں ان کا قضائے الہٰی اور ذاتِ باری تعالیٰ پر بھروسہ آشکار ہوتا ہے ۔مصائب و الم کے لمحات کے موقع پر مومنین کا طرز عمل قرآن کی اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
"کہہ دو کہ ہم کو کوئی مصیبت نہیں پہنچ سکتی بغیر اس کے جو خدا نے ہماری لیے لکھ دی ہو ۔وہی ہمارا کارساز ہے اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے" ۔ (سورۃالتوبہ :۵۱)
ہر مشکل کے بعد آسانی ہے قرآنِ کریم کی آیات میں ربِ کریم نے مشکلات و مصائب کے ساتھ ساتھ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ وہ ہر مشکل کے بعدمومنین کو آسانی اور اطمینان بھی عطا کرے گا ۔کئی آیات میں اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ وہ مومنین کو آسانی عطا فرماتا ہے۔
"ہاں ہاں مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اور بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے" ۔ (سورۃانشراح:۵۔۶)
جیسا کہ ان آیات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ ان مومنین کے اعمال درست کر دیتا ہے اور ان کو اپنی طرف سے مدد فرماتا ہے جوکہ مشکلات و مصائب سے دوچار ہوتے ہیں۔ قرآن پاک کی آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ فرشتوں کے ذریعے مومنین کی مدد فرماتا ہے اور وہ ایسا اس لیے کرتا ہے تاکہ ان کے لئے خوشخبری کا باعث ہو (سورۃال عمران ۱۲۳۔۱۲۷)۔ فرشتوں کے ذریعے مدد کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ مومنین کے لئے اطمینانِ قلب اور تسکین بھی نازل فرماتا ہے (سورۃسورۃ التوبہ : ۴۰)۔
یہ جانتے ہوئے کہ ہر شئے ایک امتحان ہے، آزمائش ہے ،مسلمان اتحاد و اتفاق کا مظاہر ہ کرتے ہیں، اور وہ اس بات کابھی احاطہ کرتے ہیں کہ وہ آخرت کی زندگی کے لیے تیاری کررہے ہیں۔ ان مشکلات کے تناظر میں ان کو بہت بڑی آسانی کی خوشخبری دی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا کی زندگی میں بھی کامیابی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ قربِ قیامت کی نشانیاں جیسا کہ ہم جانتے ہیں، قربِ قیامت میں واقع ہونے والے حالات و واقعات کے بارے میں نشانیوں کی تفصیلاََ معلومات حضور ﷺ کے احادیث مبارکہ میں موجودہے۔ ان تمام معلومات کے مطابق آخری دور میں کچھ واقعات رونما ہونگے ۔حدیث میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ قربِ قیامت کے پہلے اول دور میں انتشار، اخلاقی تنذلی ، جنگ ، دہشت، بھوک، افلاس اور تضادات کا دور دورہ ہو گا۔ اس کے علاوہ زلزلوں کی کثرت کی خبر بھی قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے، جوکہ حضور ﷺ کی احادیث مبارکہ سے واضح ہے ۔
"وہ وقت (قیامت)اس وقت تک وقوع پذیر نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب تک کہ زلزلے کثرت سے نہیں آئیں گے ۔" (بخاری)
اللہ تعالیٰ ان معاشروں کو جوکہ اخلاقی اقدار سے بے راہ روی اختیار کرچکے ، اخلاقی تنزلی کا شکار ہوچکے ، انتشار ، تضاد اور قدر تی آفات کی نظر ہو چکے، اپنے خاص بندے جوکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مالک ہو گا جس کا نام مہدی ؑ ہوگا یا جوکہ سچائی کی طرف راہنمائی کرے گا ، کے ذریعے دوبارہ صراطِ مستقیم پر لے جائے گا حضرت مہدی ؑ انسانیت کو دوچار تمام انتشار ، معاشرتی مسائل اور سماجی مشکلات کو حل کریں گے اور وہ امن و سکون ، عدل و انصاف ، تحفظ اور خوشخالی کے ضامن ہونگے اور ساری دنیا میں اخلاقی اقدار کا دوردورہ ہوگا یہ مبارک دور جیسے حضور ﷺ نے ’سنہری دور‘ کے طور پر بیان کیا ہے ایک ایسا ماحول ہوگا جس میں ہر طرف کثرت اور فراوانی ہوگی جبکہ ہر قسم کی آسانی اور سہولت انسانیت کو عطا ہوگی اور یہ تمام پکے اور مخلص مومنین کے لیے اس دنیا میں اعلیٰ انعام ہوگا یہ سنہری دور ہی مبارک دور ہوگا جبکہ قرآنی اخلاقی اقدار ، عدل و انصاف ، ایثار پسندی و ہمدردی اور خیراتی و رفاہی کام ہر طرف نظر آسکیں گے ۔
یہ حقیقت کہ قیامت کے آثار یکے بعد دیگرے تیز ی سے رونما ہو رہے ہیں اس سے واضح ہے کہ و ہ مبارک اور سنہری دور نزدیک آرہا ہے اس سنہری دور کی خوشخبری بلا شعبہ تمام مسلمانوں کے لیے بڑی فخر کی بات ہے ۔
ٓٓآئیے !ذرا اپنا تجزیہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں زندگی جیسی نعمت سے نوازا ہے تو اپنی زندگی میں ہم نے کیا کھویا اور پایا جیسا کہ پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں اوسط عمر ۷۰ سال عطا کی ہے اسی اوسط عمر کا اگر ریاضیاتی جائزہ لیں تو پائی گراف کے تحت کچھ اس طرح تجزیہ بنتا ہے ایک ایسا انسان جو اپنی ۷۰ سالہ زندگی میں پابندی سے نماز پڑھتا ہے اور ہر نماز کو بیس منٹ وقت دیتا ہے اور روزانہ ایک گھنٹے سے ڈیڑھ گھنٹہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا ہے اپنی ستر سالہ زندگی میں ہر سال ایک ماہ کے روزے پابندی سے رکھتا ہے اور پینتالیس دن حج کے گزارتا ہے تو اس کی ستر سال عمر سے ۱۳ سال ۶ ماہ بنتے ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اپنی ۷۰ سالہ عمر کے باقی ۵۶ سال اور چھ ماہ وہ کہاں گزارتا ہے؟ میرے مسلمان بھائیو! یہ عرصہ وہ معاملات میں گزارتا ہے اب اگر وہ ۱۳ سال ۶ ماہ یعنی عبادات پر زور دیتا ہے تو اس کے ۵۶ سال اور ۶ ماہ بے کار میں گزر جائیں گے یوں اس کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے اگر وہ ۵۶ سال اور ۶ ماہ پر زور دیتا ہے یعنی معاملات میں تو ٹھیک ہے مگر عبادات میں کوتاہی کرتا ہے تو یوں بھی اس کی شخصیت نامکمل رہ جاتی ہے ثابت یہ ہوا کہ انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دونوں میں اعتدال پیدا کرے یہی انبیاء کی شان ہے جن بھی اقوام نے اس اعتدال کو برقرار رکھا اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دئیے ۔
موجودہ دور میں ہم نہ تو معاملات میں درست ہیں اور نہ ہی عبادات میں یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عذاب نازل ہو رہا ہے جس کی واضح مثال زلزلے کے ملبے سے ملنے والی برہنا لاشیں ہیں آئیے مل کر توبہ کریں اور اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستے کو اختیار کریں ۔ آمین۔