ارتقاء کے حامی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جاندار چیزیں بے جا ن مادے سے ازخود وجود میں آئیں، جبکہ یہ ایک بے بنیاد واہمہ ہے جو حیاتیات(Biology) کے تمام قوانین کے منافی ہے۔
ڈارون کے ارتقاء کے نظریے کے حوالے سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا انسان بندر کی نسل سے ہے یا نہیں؟کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ایسے بہرحال بہت سے سوال ہیں جنکا ارتقاء کے نظریے نے جواب دینا ہے۔پہلا سوال یہ ہے کہ زمین پر پہلے جاندار کا ظہور کیسے ہوا؟
ارتقاء کے حامی اس سوال کا جواب ایسے دیتے ہیں کہ پہلا جاندار ایک خلیہ تھا جو کہ بے جان مادے سے اتفاقیہ وجود میں آگیا۔ اس نظریے کے مطابق زمین پر کبھی بے جان مادے جیسے پتھر، مٹی، مختلف گیسوں وغیرہ کا وجود تھااور بارش اور بجلی کے چمکنے کے عمل سے اس بے جان مادے سے ایک جاندار خلیہ وجود میں آگیا۔
بہرحال ارتقاء کا یہ نظریہ بیالوجی کے ایک بہت بنیا دی قانون کے برخلاف ہے ، جسکے مطابق زندگی، صرف زندگی سے ہی وجود میں آتی ہے۔یعنی بے جان مادہ زندگی کے وجود میں آنے کا سبب نہیں بن سکتا۔
بے جان اشیاء سے زندگی کا وجود میں آنا محض ایک لا یعنی واہمہ ہے۔ یہ عقیدہ جو Spontaneous generation کہلاتا ہے، اسکے مطابق چوہے گندم سے بنے ہیں اور سنڈیاں گوشت سے از خود وجود میںآگئیں ہیں۔ جسوقت ڈارون نے یہ نظریہ پیش کیا تھا اس وقت زندگی کو بہت سادہ سمجھا جاتا تھا، اسوقت یہ خیال بھی عام تھا کہ خوردبینی اجسام بھی بے جان مادے سے وجود میں آتے ہیں۔
فرنچ ماہر حیاتیات لوئی پاسچر نے اس نظریے کا خاتمہ کر دیا۔ لوئی پاسچر کے الفاظ ہیں ’’بے جان مادے سے زندگی کی شروعات کا دعویٰ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے دفن ہوگیا ہے۔(Sidney Fox, Klaus Dose, Molecular evolution and the origin of life, New York:Marcel Dekker, (1977, p.2
پاسچر کے بعد بھی ارتقاء کے حامیوں کا یہی مؤقف رہا کہ پہلا جاندار خلیہ اتفاقیہ وجودمیں آگیا۔ لیکن اس سلسلے میں بیسویں صدی میں کئے جانے والے تمام تجربات ناکامی سے دوچار ہوئے۔ایک خلیہ کا اتفاقی وجود تو رہا ایک طرف، یہ بھی ممکن نہ ہوا کہ دنیا کی جدید ترین لیبارٹریز باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے ایک خلیہ ہی تخلیق کر سکیں چناچہ اس سوال نے، کہ پہلا جاندار خلیہ کب وجود میں آیا، نے نظریہء ارتقاء کو آغاز ہی میں مشکلات سے دوچار کر دیا۔
مالیکیولی سطح پر نظریہء ارتقاء کے ایک نمایاں طرفدارپروفیسر جیفری نے اعتراف کیا ہے ۔
’’آج جبکہ ہم بیسویں صدی کو خیرآباد کہ رہے ہیں، ہمیں اب بھی اس غیر حل شدہ مسئلے کا سامنا ہے جسکے ساتھ ہم بیسویں صدی میں داخل ہوئے: زمین پر زندگی کیسے وجود میں آئی؟‘‘۔(Jeffery Bada, "Origins" Earth, February 1998,p.40) ۔
زندگی کے زندگی سے وجود میں آنے کے نظریے نے نہ صرف یہ کہ نظریہء ارتقاء کو بے بنیاد قرار دیابلکہ یہ بھی دکھایا کہ زمین پر زندگی پہلے دفعہ زندگی سے ہی وجود میں آئی، یعنی زندگی خدا کی تخلیق ہے۔ صرف اللہ ہی ہے جو بے جان چیزوں میں جان ڈال سکتا ہے۔ قران پاک کے الفاظ میں۔
’’وہ خدا زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے‘‘۔ (سورۃ الروم .19 )