سائنٹفک امریکن کے مدیرِ اعلیٰ جان رینی کو ہارون یحییٰ کا جواب
اپنی جولائی 2002 ء کی اشاعت میں ماہنامہ ’’سائنٹفک امریکن‘‘ نے ’’تخلیق پرستوں کی نامعقولیت کے 15 جوابات‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا۔ تاہم اس جارحانہ تحریر میں تخلیق پرستی (creationism) کا کوئی سائنسی جواب فراہم کرنے کے بجائے ڈاروِن پرست حلقو ں کی جانب سے محض کٹرپن اور تعصب کا عملی مظاہرہ کیا گیا تھا۔
سائنٹفک امریکن کے (جس کا شمار دنیا کے ممتاز سائنسی جرائد میں ہوتا ہے) شمارہ جولائی 2002 ء میں ایک دلچسپ مضمون شائع ہوا۔ ’’تخلیق پرستوں کی نامعقولیت کے 15 جوابات‘‘ کے عنوان سے یہ مضمون جسے جریدے کے مدیرِ اعلیٰ (ایڈیٹر انچیف) جان رینی نے تحریر کیا تھا، نظریہ ارتقاء پر ڈاروِن پرستوں کی راسخ الاعتقادی کی کئی مثالیں سمیٹے ہوئے تھا۔ اپنے مذکورہ عنوان کے ساتھ ہونے والی ابتداء ہی سے یہ مضمون اور اس کا جارحانہ انداز اسی امر کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں جس کی نشاندہی ہم برسوں سے کرتے آرہے ہیں: یعنی ڈاروِن کے پیروکار اس نظریئے (ارتقاء) سے یوں چمٹے ہوئے ہیں جیسے یہ کوئی عقیدہ ہو۔ (نظریہ ارتقاء پر) تنقید کے خلاف ان کے غیر متحمل رویّے بھی اسی فلسفیانہ شدت پسندی کا نتیجہ ہیں۔
زیرِ نظر مقالے میں آپ سائنٹفک امریکن کے شائع کردہ، مذکورہ مضمون میں موجود غلطیوں، غلط فہمیوں اور چالبازیوں تک کا احوال ملاحظہ کریں گے۔
مشکل سوالات سے فرار:
اگر آپ ایسے کسی نظریئے (Thesis) کے پندرہ سوالوں (اعتراضات) کے جوابات دینے جارہے ہیں کہ جس کی آپ مخالفت کرتے ہیں، تو آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ ان میں سے ہر ایک پر معقول انداز میں بحث کریں گے۔ اس کے برعکس، اگر آپ تصوراتی اور غیر حقیقی سوالات پیش کرتے ہوئے ان کے جوابات دینے میں وقت ضائع کریں تو آپ کے قارئین کو فطرتاً آپ کی ذمہ دارانہ سرشت پر شبہ ہوگا۔ اصل سوالات پر گرفت کرنے سے فرار کا عمل اس امر کی علامت ہے کہ آپ خود کو، اور اپنے قارئین کو دھوکا دے رہے ہیں۔
سائنٹفک امریکن کے ’’پندرہ جوابات‘‘ بھی اسی ’’سچ سے فرار‘‘ کی ایک مثال ہے۔ ابتداء ہی سے ان میں سے بیشتر سوالات یہ حقیقت آشکار کردیتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے:
’’ارتقاء محض ایک نظریہ ہے۔ یہ کوئی حقیقت یا سائنسی قانون نہیں ہے‘‘۔
’’ارتقاء غیر سائنسی ہے کیونکہ یہ قابلِ آزمائش یا قابلِ تکذیب نہیں ہے۔ یہ ایسے واقعات کے بارے میں دعوے کرتا ہے جن کا براہِ راست مشاہدہ نہیں کیا گیا اور جن کی تشکیل نو (re-creation) بھی ممکن نہیں‘‘۔
’’اگر انسانوں کی نسل، بندروں سے وجود میں آئی ہے تو آج بھی بندر کیوں نظر آتے ہیں؟‘‘
نظریۂ ارتقاء کے ناقدین، مذکورہ بالا میں سے کوئی ایک اعتراض بھی پیش نہیں کرتے۔ (ارتقاء پر) سنجیدہ تنقید کرنے والا ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ’’نظریئے‘‘ (Theory) کا اصل تصور اور اسکا مفہوم کیا ہے، اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ ماضی کے واقعات پر محض مشاہدات اور تشکیل نو کی مدد سے تحقیق نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح انسان کی ابتداء / ظہور (Origin of Man) کے بارے میں ڈاروِن پرستانہ (Darwinist) دعوے پر سنجیدہ تنقید کرنے والے سائنس دانو ں نے کبھی ایسا کوئی مضحکہ خیز اعتراض نہیں کیا کہ ’’اگر انسانوں کی نسل، بندروں سے وجود میں آئی ہے تو آج بھی بندر کیو ں نظر آتے ہیں؟‘‘
زیرِ بحث مضمون کے مصنف جان رینی بلاشبہ ا س سے پوری طرح واقف ہوں گے۔ مگر جس انداز سے وہ مذکورہ بالا تینوں بیانات کو ’’تخلیق پرستوں کے اعتراضات‘‘ کی حیثیت سے پیش کرتے، اور یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ان کے تسلی بخش جوابات دے دیئے ہیں، تو وہ درحقیقت ہواؤں سے لڑنے میں مصروف ہیں۔ اگر وہ واقعی ’’تخلیق پرستوں کو جواب‘‘ دینا چاہتے ہیں تو انہیں ان حقیقی سوالوں کے جوابات مہیا کرنے چاہئیں جیسے کہ، کیمبری عصر (cambrian period) میں تقریباً تمام جانوروں کے فائیلا (animal phyla) کسی ارتقائی جدِامجد (evolutionary ancestor) کے سراغ کے بغیر، اچانک ہی کیسے نمودار ہوگئے، جاندار اجسام میں جینیاتی معلومات (geneticinformation) کو پروان چڑھانے (ترقی دینے) والے تغیرات (mutations) کی کوئی ایک مثال بھی آج تک سامنے کیوں نہیں آسکی ہے، یا یہ کہ درمیانی شکلوں (intermediateforms) والے ان اربوں رکازات (fossils) کا کوئی سراغ کیو ں نہیں مل پایا ہے جن کے دریافت ہونے کی ڈاروِن کو توقع تھی۔
ان سوالوں کی حقیقت، جن کا جواب دینے کی جان رینی نے کوشش کی ہے، اور جن میں سے اکثر ’’آسان سوالات‘‘ نظر آتے ہیں، ذیل میں دی جارہی ہے:
فطری انتخاب کے بارے میں رینی کی غلط فہمیاں I- (سوال نمبر2 ):
رینی کے بیان کردہ دو سوالات کا تعلق فطری انتخاب (Natural Selection) کے تصور سے ہے۔ ان میں سے پہلے (سوال نمبر 2 ) میں وہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہیں کہ فطری انتخاب محض ایک دائری دلیل (circular argument) ہے۔ دوسرے (سوال نمبر11) میں انہوں نے اس اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ فطری انتخاب، ارتقائے اصغر (microevolution) کا باعث تو بن سکتا ہے لیکن ارتقائے اکبر (macroevolution) کا سبب نہیں ہوسکتا۔
پہلے معاملے میں رینی صاحب، صرف پیٹر گرانٹ کے مشہور و معروف مشاہدات کا حوالہ دینے کے قابل ہیں جو انہوں نے گیلاپاگوس جزائر میں برقشوں (finches) کے بارے میں کئے تھے۔ رینی اس مثال کی وضاحت ’’جنگلی (ماحول) میں آبادی کی منتقلی‘‘ کے طور پر کرتے ہیں اور اسے فطری انتخاب کی ایک شہادت شمار کرتے ہیں۔ مگر، گرانٹ کے مطالعات سے تو صرف یہ ثابت ہوا تھا کہ گیلاپاگوس جزائر میں برقش کی آبادیاں، فطری حالات (natural conditions) میں ہونے والی تبدیلیوں کی مطابقت میں ’’جھولتی رہتی‘‘ (fluctuate) ہیں۔ بالفاظِ دیگر، یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی ایک، خاص سمت میں نمو پذیر نہیں ہوئیں۔ ان مطالعات سے مزید یہ بھی پتا چلا کہ برقش کی آبادی میں شناخت کی گئی 13 مختلف انواع، دراصل اس سے کہیں کم تعداد کی انواع کے تحت آرہی تھیں، اور یہ کہ مختلف زیرِ مطالعہ انواع سمٹنے اور مرکوز (converge) ہونے کی جانب مائل تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ گیلاپاگوس جزائر پر فطری انتخاب کی بدولت ارتقاء (یعنی ایک مخصوص سمت میں ترقی، اور نتیجتاً ایک نئی نوع (species) کے ظہور کا عمل نہیں ہوا ہے۔
ماہر حیاتیات جو ناتھن ویلز نے اپنی مفصل کتاب Icons ofEvolutionمیں گرانٹ کے کام کی تمام تفصیلات کا جائزہ لے کر وہی نتیجہ اخذ کیا ہے جو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔ یہ حقیقت کہ رینی سب کچھ جاننے کے باوجود، بڑی ہٹ دھرمی سے گیلاپاگوس میں گرانٹ کے مشاہدات کو (ارتقاء کی دلیل کے طور پر) پیش کررہے ہیں، نااُمیدی کے اقرار سے کم نہیں ہے۔
فطری انتخاب کے بارے میں رینی کی غلط فہمیاں II- (سوال نمبر11 ):
فطری انتخاب پر دوسرے سوال (اعتراض) کا جواب دیتے ہوئے، رینی کے ہاتھ کی صفائی خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ سوا ل کی عبارت ہے:
’’فطری انتخاب سے ارتقائے اصغر کی وضاحت تو کی جاسکتی ہے لیکن یہ نئی انواع کے ظہور (origin) اور زندگی کے اعلیٰ درجوں (Higher orders) کی وضاحت نہیں کرسکتا‘‘۔
اس اعتراض پر رینی کے جواب کا انحصار ’’ذوشکلی انواع سازی‘‘ (allopatric speciation) کے تصور پر ہے جسے ارنسٹ میئر نے پیش کیا تھا۔ یہاں اس غلطی کی وضاحت کرنے سے پہلے ضروری ہوگا کہ ہم ’’ذوشکلی انواع سازی‘‘ کے تصور، اور اس کے پس پشت بنیادی نظریئے ’’جغرافیائی انواع سازی‘‘(geographical speciation) کی وضاحت کردیں۔ یہ خاصی مشہور و معروف بات ہے کہ ہر جاندار نوع کے اپنے اندر بھی تفرقات (differences) ہوتے ہیں (یعنی اس نوع سے تعلق رکھنے والے مختلف ارکان بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں) جو جینیاتی تغیرات (genetic mutations) کی بناء پر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ایک نوع کے دو ارکان کے درمیان جغرافیائی رکاوٹ (geographical obstacle) حائل ہوجائے، یعنی وہ ایک دوسرے سے ’’علیحدہ‘‘ (isolate) ہوجائیں تو قوی امکان ہے کہ مختلف تغیرات ان دونوں گروہوں میں (جو ایک دوسرے سے الگ کردیئے گئے ہیں) غالب آنا شروع ہوجائیں گے۔ ایک ہی نوع سے تعلق رکھنے کے باوجود، ان تغیرات کی بدولت دونوں کے مابین پیدا ہوجانے والے مخصوص شکلیاتی فرق (morphological differences) کو (جنہیں ’’متغیر A‘‘ اور ’’متغیر B‘‘ فرض کیا جاسکتا ہے) ’’ذیلی انواع‘‘ (sub-species) کہا جاتا ہے۔
انواع سازی کے جس دعوے کے بارے میں رینی صاحب بات کررہے ہیں، وہ اس نکتے کے بعد معتدل ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات متغیر Aاور B، جو جغرافیائی علیحدگی کی بناء پر ایک دوسرے سے مختلف ہوئے ہیں، واپس یکجا کئے جانے پر ایک دوسرے سے مل کر نسل خیزی (reproduction) کے قابل نہیں رہتے۔ حیاتیات میں ’’انواع‘‘(species) کی مروجہ تعریف کے مطابق، کیونکہ وہ باہمی اختلاط سے نسل خیزی کے قابل نہیں رہے، لہٰذا اب انہیں ’’ذیلی انواع‘‘ نہیں کہا جائے گا بلکہ ’’مختلف انواع‘‘ (different species) قرار دیا جائے گا۔ اسی عمل کو ’’انواع سازی‘‘ کہتے ہیں۔
اس موقع پر دو اہم نکات سامنے آتے ہیں:
1۔ ممکن ہے کہ متغیرات Aاور B، جو ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں، واپس یکجا کئے جانے پر نسل خیزی کے قابل نہ رہیں۔ مگر اس نکتے کی وجہ عمومی طور پر ’’نسل خیزی کا طرزِ عمل‘‘ (reproductive behavior) ہوتا ہے۔ اسی لئے، جینیاتی زبان میں وہ اب بھی ایک ہی نوع کے دو ارکان کہلائیں گے۔ (دراصل، اسی بناء پر ’’انواع‘‘ کا تصور، سائنسی حلقوں میں مسلسل زیرِ بحث ہے۔)
2۔ (یہاں) اصل اور اہم نکتہ یہ ہے کہ زیرِ بحث ’’انواع سازی‘‘ کا مطلب جینیاتی معلومات میں کمی (loss) ہے نہ کہ کوئی اضافہ (increase) ۔ انواع سازی کا سبب یہ نہیں ہے کہ کسی ایک یا دونوں متغیرات نے جینیاتی معلومات حاصل کرلی (بڑھالی) ہوں۔ جینیاتی معلومات میں ایسا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، وہ آبادی جس کا جینی تالاب (gene pool) بڑا تھا، اب (اس عمل کے بعد) وہ قدرے مختصر جینی تالاب والی دو جداگانہ آبادیوں میں تبدیل ہوچکی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جان رینی جس ’’انواع سازی‘‘ کا حوالہ، ارتقاء کی ایک مثال کے طور پر دیتے ہیں، وہ درحقیقت نظریہ ارتقاء کو کسی طرح کی کوئی تقویت نہیں پہنچاتی۔ نظریہ ارتقاء یہ دعویٰ کرتا ہے کہ تمام جاندار انواع نے اتفاقی تغیرات (chance mutations) کی بدولت ترقی (ارتقاء) کی ہے اور فطری انتخاب کے باعث وہ سادہ سے پیچیدہ شکل میں آئی ہیں۔ لہٰذا، اس نظریئے کو سنجیدگی سے لئے جانے کے لئے اس میں ایسے نظاموں (mechanisms) کی تجویز ہونا بھی اشد ضروری ہے جو جینیاتی معلومات تخلیق کریں اور ان میں اضافہ بھی کریں۔
اس معاملے پر بات کرنے کے بعد، اب ہم رینی کی دوسری غلطی (یا فریب) کی طرف توجہ دیتے ہیں۔
آپ دیکھیں گے کہ رینی گیارہویں ’’تخلیق پرستانہ‘‘ سوال کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’فطری انتخاب شاید ارتقائے اصغر کی وضاحت تو کرسکتا ہے، لیکن یہ نئی انواع کے ظہور اور زندگی کے اعلیٰ درجوں کی وضاحت نہیں کرسکتا۔‘‘ بالفاظِ دیگر، وہ انواع اور ’’زندگی کے اعلیٰ درجوں‘‘ دونوں ہی کے ظہور کے بارے میں بات کررہے ہیں۔
مگر اپنے جواب میں انہوں نے صرف انواع کے ظہور کا تذکرہ کیا ہے (اور جیسا کہ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں، یہ قطعی طور پر غیر موزوں حیثیت کا حامل ہے)۔ رینی نے اجناس (genera)، گھرانوں، درجات (orders) یا فائیلا (phyla) کا ذکر ہی نہیں کیا، جو تمام کے تمام انواع کے مقابلے میں بلند زمرہ جات ہیں، اور سرے سے (اس کی) کوئی وضاحت ہی نہیں کی۔
تمام تر امکان یہی ہے کہ اس کا مقصد کم محتاط قارئین کو قائل کرنا رہا ہوگا۔ وہ لوگ جنہوں نے ’’پندرہ سوالات‘‘ پڑھ لئے ہیں مگر جو ازخود ان کے طول طویل (مگر خالی) جوابات نہیں پڑھ سکے ہیں، یہی تصور کریں گے جان رینی نے درحقیقت ان تمام سوالوں کے جوابات دے دیئے ہیں۔
ڈارون پرستی کے حامی جس انداز سے ان طریقوں کو استعمال کرتے ہیں، ان سے ایک بار پھر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس نظریئے کو کیسی ہولناک مشکلات کا سامنا ہے۔
فطری انتخاب کے بارے میں رینی کے آخری بیان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ فطری انتخاب کے علاوہ بھی دوسرے ممکنہ ارتقائی نظام ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے جو اکلوتی مثال پیش کی ہے، وہ مائٹو کونڈریا کی ابتداء کے بارے میں ارتقاء پرستوں کے مفروضوں پر مشتمل ہے کہ جنہیں (پیش کرنے میں) وہ ایک مدت سے مصروف ہیں۔ یہ حقیقت کہ انہو ں نے نظریہ ارتقاء کی حمایت میں (جو بجائے خود ایک مفروضہ ہے) شہادت کے بجائے مفروضات کا سہارا لیا ہے، اپنی وضاحت آپ فراہم کرتی ہے۔
انسان کی ابتداء اور ارتقائی پیچیدگیاں (سوال نمبر 3):
تیسرے سوال میں جان رینی، انسان کی ابتداء پر طبع آزمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نظریہ ارتقاء کی رُو سے پتا چلتا ہے کہ انسانوں کے اوّلین معلومہ جدِ امجد (جو تقریباً 50 لاکھ سال قدیم ہیں) اور جسمانی اعتبار سے (anatomically) جدید انسانوں (تقریباً ایک لاکھ سال قبل) کا ظہور ہونے کے درمیانی عرصے میں انسان نما جانداروں (hominids) کو ایک ترتیب وار تسلسل ملنا چاہئے، جن کے خد و خال بتدریج بن مانس نما (apelike) سے کم ہوتے ہوتے جدید انسان میں ڈھل گئے ہوں۔ یہی بات رکازات کے ریکارڈ سے بھی ثابت ہوتی ہے۔۔۔‘‘
البتہ، یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر ارتقاء پرست، ماضی میں پائے جانے والی مخلوقات کو ایسی ترتیب میں رکھ دیں جو اُن کے نظریئے کی مطابقت میں ہو، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ جاندار اشیاء واقعی ایسے کسی ارتقائی عمل سے گزری تھیں۔ یہ رائے جان رینی کے ایک ساتھی ارتقاء پرست، ہنری گی (HenryGee)کی ہے جو تحقیقی جریدے ’’نیچر‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔ In Search of Deep Timeکے عنوان سے اپنی کتاب (شائع شدہ 1999ء) میں وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ انسانی ارتقاء کی تمام شہادت جو ’’ایک کروڑ سے پچاس سال قبل جاندار مخلوقات کی کئی ہزار نسلوں پر محیط ہے، ایک چھوٹے سے ڈبے میں سما سکتی ہے۔‘‘ وہ اخذ کرتے ہیں کہ انسان کے ظہور اور ترقی (ارتقاء) کے بارے میں (پیش کئے گئے) تمام مروجہ نظریات ’’مکمل طور پر انسانی ایجاد ہیں جنہیں حقیقتاً اس مقصد کے لئے تشکیل دیا گیا ہے کہ وہ انسانی تعصبات سے مطابقت اختیار کرسکیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں:
’’رکازات کا ایک مجموعہ لے لینا اور دعویٰ کردینا کہ وہ سلسلے کو ظاہر کرتے ہیں، کوئی سائنسی دعویٰ نہیں ہے کہ جس کی جانچ کی جاسکے، بلکہ یا ایک ایسا اعلان ہے جس میں بچوں کی حیرت انگیز کہانیوں جتنی (جو انہیں سلانے کے لئے سنائی جاتی ہیں) صداقت ہے، جو شاید نصیحت آموز تو ہوں لیکن سائنسی نہیں ہوتیں۔‘‘
حال ہی میں ہنری گی نے چاڈ سے ملنے والے، کھوپڑی کے نئے رکازات (ساحل اینتھروپس چاڈینسس) کی دریافت اور نظریہ ارتقاء پر اس کے مضمرات کے حوالے سے بہت اہم تبصرہ کیا ہے۔ ہنری کے مطابق ’’نتیجہ کچھ بھی نکلے، مگر کھوپڑی سے حتمی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ ’’گمشدہ کڑی‘‘ کا پرانا تصور محض ایک نمائشی چیز ہے۔‘‘وہ اس امر کی وضاحت بھی کرتے ہیں کہ رکازی ریکارڈ میں انسانی ارتقاء کی کوئی شہادت موجود نہیں ہے، یہ ارتقاء پرستوں کے مفروضات کی بنیاد پر تخلیق کردہ، محض ایک تصویر کشی ہے:
’’یہ مشکوک ہے کہ انسانوں اور ہمارے قریب ترین زندہ رشتہ دار، چمپانزی، کامشترکہ جدِامجد تقریباً 70 لاکھ سال پہلے رہا کرتا ہوگا۔ یہ ہم براہِ راست رکازی ریکارڈ کے سبب نہیں جانتے، بلکہ (اس کی وجہ) انسانوں اور چمپانزیوں کے نہایت مشابہ جین (genes) کے مابین معمولی تفرقات کا مطالعہ، اور ان تفرقات کے ظاہر ہونے میں درکار وقت کا تخمینہ ہے۔ بجائے خود رکازی ریکارڈ کو دیکھنے پر ہمیں ایک وسیع اور اعصاب شکن خلا (gap) نظر آتا ہے‘‘۔
جان رینی کے الفاظ کا جتنی باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے، ارتقاء پرستوں کی مایوسی اتنی ہی نمایاں ہوتی جاتی ہے۔
صرف چند ہی بولنے کی ہمت کیوں کرتے ہیں (سوال نمبر4 ):
ڈارونزم کا دفاع کرنے کی کوششوں میں ایک اور دلیل دیتے ہوئے جان رینی یہ کہتے ہیں کہ نظریہ ارتقاء وسیع پیمانے پر سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے۔
کسی بھی رائے کے بڑے پیمانے پرحمایت یافتہ ہونے کے عموماً دو مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ یا تو اس کے حق میں شہادتوں کی بھرمار ہو، یا پھر نظام (اس رائے کو) لوگوں پر مسلط کردے۔ یہ مؤخر الذکر (دوسری) وجہ ہی ہے جس کا اطلاق نظریہ ارتقاء کے پس پشت ’’وسیع تر سائنسی حمایت‘‘ پر ہوتا ہے۔ علمی دنیا اس بھاری غلط فہمی کے تحت مشقت میں مصروف ہے کہ سائنس اور مادہ پرستانہ فلسفہ ایک دوسرے کے قائم مقام ہیں۔ سائنسی اداروں کے سربراہان یہی غلط فہمی دوسرے سائنس دانوں پر بھی مسلط کرتے ہیں۔ ایسے کسی ماحول میں ارتقاء کی مخالفت کو سائنس کی مخالفت سے تعبیر کیا جاتا ہے، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ سائنس دان اس نظریئے پر کوئی آزادانہ تنقید کرسکیں؟
اور تو اور، جان رینی کی اپنی تحریر میں بھی اسی نظریاتی آمریت (ideological dictatorship) کی جھلکیاں موجود ہیں۔ ان کے مضمون کا عنوان، تخلیق کو ’’نامعقولیت‘‘ قرار دیتا ہے۔ جب کوئی سائنسی جریدہ اس طرح کی سرخی لگائے تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیرِ بحث معاملے پر آزادانہ (اور غیر جانبدارانہ) ماحول میں گفتگو کی جارہی ہے؟ ابتدائی سطور میں رینی کہیں زیادہ جارحانہ ہوجاتے ہیں اور کہتے کہ تخلیق کا دفاع کرنا اتنا ہی غیر سائنسی ہے جتنا ’’چپٹی دنیا کی کونیات‘‘(flat earth cosmology) کا دفاع کرنا ہے۔ مضمون کے درمیان میں وہ ’’بددیانت تخلیق پرستوں‘‘ پر انگشت نمائی کرتے ہیں (صفحہ نمبر 65)۔ نظریاتی دباؤ کے ایسے ماحول میں سائنس دان کس طرح سے ڈارونزم پر تنقیدی کرسکتے ہیں جبکہ انہیں (یہی خیالات رکھنے والے) سائنسی جرائد میں اپنے مضامین شائع کروانے پڑتے ہوں؟ کتنے لوگوں میں یہ کہنے کی جرأتِ رندانہ ہے کہ ’’بادشاہ خود ننگا ہے‘‘؟
نتیجتاً، رینی کے مضمون میں شامل وہ گراف، جو بظاہر یہ ثابت کرتا ہے کہ لوگوں میں تعلیمی سطح کے اضافے کے ساتھ، تخلیق پر ان کا عقیدہ بھی کم ہوتا چلا جاتا ہے (صفحہ نمبر 65) ڈارون پرستانہ سوچ کے آمریت پسندانہ بیان سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ ایک ایسا تعلیمی نظام جو ڈاروِن پرستوں کے ماتحت ہو، اس کے لئے ڈاروِن پرست افراد تیار کرنا ہی سب سے فطری عمل ہے۔
مگر سائنس کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ اس میں ایسے کٹرپن زیادہ لمبے عرصے تک کامیاب نہیں رہ سکتے۔ ڈاروِن پرستی کے معبد میں بنیادوں کی شکست و ریخت اس امر کی علامت ہے کہ آزادانہ سائنس جلد ہی اس کٹرپن کے ٹکڑے اُڑا دے گی۔
ارتقاء پرست اعتراف کیوں کریں؟ (سوال نمبر5)
قارئین کے ذہن سے ڈارونزم کے بارے میں تمام شکوک ختم کرنے کی کوششوں کے دوران رینی، تخلیق پرستوں کی جانب سے پیش کردہ، ارتقاء پرست مقتدرین (authorities)کے اقتباسات کا معاملہ بھی زیرِ بحث لاتے ہیں، اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ (اقتباسات) یکساں طور پر مسخ شدہ ہوتے ہیں۔ رینی کے خیال میں، وہ سائنسی مقتدرین جن کے تحقیقی کام (مقالہ جات اور کتب وغیرہ) سے اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں، وہ ہمیشہ ارتقاء پرست ہوتے ہیں، مگر ’’بددیانت تخلیق پرست‘‘ ان لوگوں کی تصویر کشی کچھ ایسے کرتے ہیں جیسے وہ ارتقاء کے مخالف ہوں۔
حقیقت اس سے بہت مختلف ہے۔ تخلیق پرست یہ کوشش نہیں کرتے کہ ارتقاء پرست ہستیاں، جن کے اقتباسات وہ نقل کرتے ہیں، ارتقاء کی مخالف بناکر پیش کی جائیں۔ اسٹیفن جے گولڈ، ایلن فیڈوچیا یا ہنری گی وغیرہ کے بارے میں کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ یہ ارتقاء کے مخالف ہیں۔ مگر یہ اور ارتقاء کے ایسے کئی دوسرے حواری، نظریہ ارتقاء میں خامیاں دیکھ چکے اور ان کی نشاندہی بھی کرچکے ہیں۔ ایسے معاملات میں فطری طور پر ان کے (اپنے) تبصروں سے زیادہ کارآمد کوئی اور چیز ممکن نہیں۔ ایسے اقتباسات کی بھاری تعداد موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء بجائے خود مفروضات کا ایک ضخیم مجموعہ ہے۔ کیونکہ اس نظریئے کے پاس کوئی ٹھوس شہادت نہیں ہے، لہٰذا ارتقاء پرست ماہرین اس کے تقریباً ہر پہلو کے متعلق مفروضات گھڑنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اب چونکہ ایسا کوئی مفروضہ دستیاب حقائق کی مطابقت میں نہیں ہوتا، چنانچہ خلا (gaps) پیدا ہوتے رہتے ہیں اور متعدد سائنس دان اس حقیقت کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاروِن پرستی پر سختی سے کاربند، اس نظام میں بھی ہمیں ارتقاء کو مشکوک بنانے والے اتنے زیادہ اقتباسات ملتے ہیں۔
ابتدائے حیات اور جان رینی کے پینترے (سوال نمبر7):
اپنے 15 سوالات میں سے پہلے چھ فرضی سوالات پیش کرنے کے بعد، جان رینی آخرکار ساتویں سوال میں واقعی ایک اہم معاملے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں: زندگی کی ابتداء۔ اوّلین جاندار شے کیسے وجود پذیر ہوئی؟
اس سوال کا جواب دینے کے لئے رینی صاحب نے صرف اتنا کیا ہے کہ اس منظرنامے کو چند جملوں میں سمیٹ دیا ہے جسے ارتقاء پرست ماہرین، عشرہ 1920ء میں الیگزینڈر اوپارین کے زمانے سے پیش کرتے آرہے ہیں۔ یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ ’’زندگی کی ابتداء بڑی حد تک ایک اسرار ہے‘‘ رینی اس منظرنامے میں یہ کہہ کر استناد کا رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’۔۔۔تاہم ماہرینِ حیاتیات یہ جان چکے ہیں کہ ابتدائی نیوکلیئک ایسڈز، امائنو ایسڈز اور زندگی کی تعمیر کرنے والے دوسرے بنیادی اجزاء کس طرح سے وجود میں آئے ہوں گے اور انہوں نے خود کو کس طرح سے اپنی نقلیں بنانے، اپنا وجود قائم رکھنے والے یونٹوں میں منظم کیا ہوگا اور خلئے کے لئے ضروری حیاتی کیمیا کی بنیاد رکھی ہوگی۔‘‘
رینی صاحب ابتدائے حیات جیسے اہم موضوع پر اس سطحی انداز سے لیپا پوتی کرنے میں حق بجانب ہیں، کیونکہ ان کے پاس تفصیلات میں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر ہم مذکورہ بالا بیان کا تجزیہ کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رینی کا دعویٰ کس قدر غیر حقیقی ہے:
1۔ سب سے پہلے، رینی کے دعووں کے برخلاف، یہ سوال کہ زمین کے ابتدائی کرۂ فضائی میں ’’ابتدائی نیوکلیئک ایسڈز، امائنو ایسڈز اور زندگی کی تعمیر کرنے والے دوسرے بنیادی اجزاء‘‘ کس طرح وجود میں آگئے، یہ ارتقاء پرستوں کے لئے ہنوز ایک خوفناک پریشانی ہے۔ وہ یہ سوچنے کی عادی ہیں کہ یہ مسئلہ قدیمی کرۂ ہوائی کی بابت اسٹینلے ملر اور ان کے جانشینوں کے تجربات سے حل کرلیا گیا ہے۔ مگر 1970ء کے عشرے میں محسوس کیا جا چکا تھا کہ زمین کا ابتدائی کرۂ ہوائی میتھین اور امونیا پر مشتمل نہیں تھا اور یہ کہ اس میں آکسیجن کی وسیع مقداریں موجود تھیں۔ اسی بناء پر یہ ظاہر ہوا کہ (مذکورہ ماحول میں) سادہ ترین نامیاتی سالمے مثلاً امائنوایسڈز تک کی (خود بخود) تالیف (synthesis) ممکن نہیں ہوسکتی تھی۔
2۔ اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ (زندگی کی تشکیل کرنے والی) سادہ تعمیراتی اینٹیں، یعنی نیوکلیئک ایسڈز اور امائنو ایسڈز وغیرہ، ابتدائی کرۂ ہوائی میں کسی طرح سے وجود میں آگئے تھے (یا پھر بیرونی خلاء سے آئے تھے، جیسا کہ رینی نے مذکورہ بالا سطور کے بعد دعویٰ کیا ہے) تب بھی اس مفروضے سے نظریہ ارتقاء کو کسی طرح کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان سادہ نامیاتی مرکبات میں سے کوئی ایک بھی، ناقابلِ یقین حد تک پیچیدہ خدوخال والے زندہ خلئے میں کیسے تبدیل ہوگیا اور اس میں جینیاتی معلومات (ہدایات) کیسے ظہور پذیر ہوئیں؟ رینی کے دعوے کے برعکس، ایسا کوئی مشاہدہ نہیں ہوسکا جس کے تحت نامیاتی سالمات ’’اپنے آپ کو ازخود منظم کرتے‘‘ دیکھے گئے ہوں اور اپنی نقل خود تیار کرنے والے، زندہ اجسام میں تبدیل ہوگئے ہوں۔ کوئی مشاہدہ، کوئی تجربہ، یہاں تک کہ ایسا کوئی نظری مطالعہ بھی اب تک نہیں کیا گیا ہے جس سے پتا چل سکے کہ ایسا واقعی ہوسکتا تھا۔
مختصر یہ کہ ابتدائے حیات کے بارے میں رینی کی دلیل قطعاً بے وقعت ہے۔ علاوہ ازیں مندرجہ ذیل سطور جو مذکورہ موضوع کے اختتام پر (رینی کے) تاثرات سے لی گئی ہیں، شکست کے اقرار اور تخلیق کے خلاف ان کے تعصب کی علامت، دونوں کے ضمن میں خصوصی دلچسپی کی حامل ہیں:
’’تخلیق پرست بعض اوقات زمین پر زندگی کی ابتداء کے بارے میں کوئی وضاحت فراہم نہ کرنے کے بارے میں سائنس کی موجودہ معذوری کی نشاندہی کرتے ہوئے نظریہ ارتقاء کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر زمین پر زندگی کی ابتداء غیر ارتقائی ثابت ہو بھی گئی (مثلاً یہ کہ آج سے اربوں سال پہلے کسی خلائی مخلوق نے زمین پر اوّلین خلیات متعارف کروائے)، تب بھی اس وقت سے آج تک ارتقاء کی تصدیق ارتقائے اصغر اور ارتقائے اکبر کے ان گنت مطالعات سے کی جاسکتی ہے۔‘‘
ان سطور کے تجزیئے سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں:
1۔ رینی صاحب ’’ابتدائے حیات کی وضاحت کرنے کے ضمن میں حالیہ معذوری‘‘ کی بات کرتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر، انہیں امید ہے کہ یہ مسئلہ وقتی ہے اور مستقبل میں ایک دن، ارتقاء کے حق میں حقائق دریافت کرلئے جائیں گے۔ مستقبل سے اتنی زیادہ امیدیں وابستہ کرنا اس امر کی توثیق کرتا ہے کہ ارتقاء پر اعتماد کا منبع سائنسی دریافتیں نہیں بلکہ فلسفیانہ مفروضات ہیں۔ رینی کا یہ رویہ، ایسے کسی معتقد مارکس پرست (Marxist) سے مختلف نہیں ہے جو کارل مارکس کے نظریات کو حالیہ معاشرتی اور سیاسی حقائق سے ہم آہنگ ہونے میں مکمل طور پر ناکام ہوتے دیکھتا ہے لیکن، اس کے باوجود، وہ مستقبل میں کسی دن متوقع اور ’’پرولتاری انقلاب‘‘ برپا ہونے کا منتظر رہتا ہے۔
2۔ رینی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ذہین صورت گری کا نظریہ، زمین پر ابتدائے حیات کی وضاحت کرسکتا ہے اور یہ کہ سائنس (بھی) ایک نہ ایک دن اس نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔ مگر کسی وجہ سے وہ خلائی مخلوق کو اس صورت گری کا منبع تجویز کرتے ہیں۔ ’’خلائی مخلوق‘‘ والا یہ خیال، رینی کے مضمون میں ایک اور جگہ (سوال نمبر3 کے جواب میں) بھی ظاہر ہوا ہے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ جان رینی، ایسے کسی امکان کو قبول کرنے میں خوش ہیں جب ذہین صورت گری کی تخلیق میں خلائی مخلوق کاعمل دخل ہو، لیکن وہ کسی مابعد الطبیعی خالق کی مداخلت کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ایک بار پھر، اس سے رینی کا ڈراونزم کے ساتھ خلوص (اور لگاؤ) ظاہر ہوتا ہے اور تخلیق کے تصور پر ردِعمل، خدا پرستی کے خلاف ان کے تعصبات کا مرہونِ منت ہے۔
3۔ رینی کا یہ قبول کرنا کہ ذہین صورت گری (زمین پر) زندگی کی ابتداء کا سبب ہوسکتی ہے، لیکن فطری تاریخ میں بعد کے مراحل میں اسے مسترد کردینا ایک قطعی متعصبانہ اور غیرسائنسی مقام ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ذہین صورت گری کے حق میں جتنی زیادہ شہادت متعدد دوسرے پیچیدہ جاندار نظاموں کی ابتداء کے ضمن میں ملتی ہے، اتنی ہی خود ابتدائے حیات کے معاملے میں بھی ہے۔ رینی کی جانب سے ’’قطعیت سے تصدیق شدہ‘‘ جیسے الفاظ کا استعمال جو انہی حقائق پر ملمع کاری اور قارئین کو متاثر کرنے کے لئے لیا گیا ہے، کوئی بھی حل پیش کرنے سے قاصر ہے۔
ڈاکنز کی طرز پر رینی کی چالیں (سوال نمبر8):
نظریہ ارتقاء کی سب سے بڑی غلطی یہ خیال ہے کہ تمام جاندار اشیاء لاشعوری نظاموں (کے عمل کرنے) کا حاصل ہیں۔ رینی اس اعتراض کا سامنا کرنے کی کوشش، آٹھویں سوال میں کرتے ہیں لیکن آخرکار محض خود کو مایوس کرتے ہوئے اختتامِ کلام کرتے ہیں۔ یہ اعتراض کہ جاندار اشیاء میں موجود پیچیدگی کی وضاحت کسی اتفاق (چانس) کے تحت نہیں کی جاسکتی، اس کے جواب میں رینی کچھ یو ں رقمطراز ہیں:
’’ارتقاء میں اتفاق ایک جزو کا کام کرتا ہے (مثلاً اٹکل پچو سے (randomly) رونما ہونے والی تبدیلیوں میں، جو کسی نئی خصلت کی بنیاد بنتی ہیں)۔ مگر جانداروں، پروٹین اور دیگر اجسام کی تشکیل میں ارتقاء کا انحصار اتفاق پر نہیں ہوتا۔ معاملہ اس کے برعکس ہے: فطری انتخاب، جو ارتقائی کے عمل میں اہم ترین معلومہ نظام ہے، غیر اتفاقی (nonrandom) تبدیلیوں سے کچھ اس طرح استفادہ کرتا ہے کہ ’’پسندیدہ‘‘ (مطابقت پذیر یعنی adaptive) خصوصیات کو محفوظ رکھتا ہے اور ’’ناپسندیدہ‘‘ (غیر مطابقت پذیر یعنی non-adaptive) خصوصیات کو ختم کردیتا ہے۔‘‘
یہ سرے سے کوئی جواب ہی نہیں ہے، کیونکہ یہ چیز تو سب کو معلوم ہے۔ نظریہ ارتقاء کے مطابق، تمام جاندار اشیاء ’’اتفاق‘‘ (تغیرات) اور فطری انتخاب کی وجہ سے پیدا ہوئیں، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ان (تغیرات) میں سے مفید ترین کو منتخب کرتا ہے۔
اصل مشکل یہ ہے: فطری انتخاب کوئی باشعور نظام نہیں ہے۔ لہٰذا اگر اسے کوئی اتفاقیہ تغیر ہی منتخب کرنا ہے، تو اسے متعلقہ جاندار کو مؤثر برتری فراہم کرنی چاہئے۔ مگر متعدد جاندار اشیاء کے پیچیدہ اعضاء اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے، جب تک وہ پوری طرح تشکیل نہ پا جائیں۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ فطری انتخاب کی بدولت انتخاب کا سلسلہ ایک ہی سمت میں جاری رہے۔ (ابھی یہ کہنا بھی باقی ہے کہ فطری انتخاب نے زندگی کی ابتداء میں کوئی کردار ادا نہیں کیا کیونکہ نام نہاد ’’قبل ازحیات شوربے‘‘ (pre-biotic soup) میں کوئی زندگی، یا جدوجہد سرے سے نہیں تھی۔)
رینی، نظریہ ارتقاء میں اس وسیع خلا کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہی ترکیب استعمال کرتے ہیں جو رچرڈ ڈاکنز کا خاصہ ہے۔ وہ TOBEORNOTTOBEکی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کمپیوٹر پروگرام نے یہ فقرہ، انتخاب کا طریقہ استعمال کرتے ہوئے 336 کوششوں میں تشکیل دے دیا تھا۔
کیا ارتقاء پرست واقعی ایسی مثالوں پر یقین رکھتے ہیں؟ یا پھر وہ کم علم قارئین کے سامنے اپنی عزت بچانے کے لئے ان مثالوں کا سہارا لیتے ہیں؟ حیرت ہے! مذکورہ بالا مثال نہایت بودی ہے اور کھلے فریب پر مبنی ہے۔ وہ کمپیوٹر جو TOBEORNOTTOBEکے حصول میں کامیاب ہوا، اسے یہی کرنے کے لئے ’’پروگرام‘‘ کیا گیا تھا۔ حتمی نتیجے کا تعین ابتدا ہی سے کردیا گیا تھا۔ یہ پروگرام حروف کو کسی اصول کی پابندی کئے بغیر 13 خالی جگہوں میں ضرور رکھتا تھا۔ مگر جیسے ہی کوئی حرف پہلے سے متعین (درست) جگہ پر پہنچتا، وہ اسے منتخب کرلیتا ۔ مطلب یہ کہ پروگرام کو پہلے سے ’’معلوم‘‘ ہے کہ TOBEORNOTTOBEمیں پہلا حرف Tہے۔ لہٰذا جیسے ہی Tپہلی جگہ پر رکھا جائے گا، پروگرام اسے منتخب کرلے گا اور اسی جگہ پر چھوڑ دے گا۔
مختصر یہ کہ (اس مثال میں) پہلے سے طے شدہ ایک منصوبہ ہے اور ایک انتخابی نظام شعوری طور پر اس منصوبے کی مطابقت میں کام کررہا ہے۔ مگر نظریہ ارتقاء تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جاندار اشیاء پہلے سے طے شدہ کسی منصوبے کے بغیر اور ایک لاشعوری انتخابی نظام کے ذریعے وجود پذیر ہوئیں۔ لہٰذا، رینی کی یہ دلیل بھی، کم سے کم، مضحکہ خیز ہے۔
حرحرکیات کے دوسرے قانون کے بارے میں رینی کی غلط فہمیاں (سوال نمبر 9):
حرحرکیات کے تناظر میں بھی ارتقاء پرستوں کے دعوے، غلط فہمی اور فریب کی کلاسیکی مثالوں پر مبنی ہیں، اور جان رینی نے انہی کو دہرایا ہے۔
پہلی غلطی ’’باترتیب‘‘ (ordered) اور منظم (organized) نظاموں کے درمیان فرق سے ناواقفیت کا شاخسانہ ہے۔ رینی صاحب معدنی قلموں اور برف کے ٹکڑوں کی مثالیں دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ ’’پیچیدہ ساختیں‘‘ فطری عوامل کے ذریعے خود بخود ظہور میں آجاتی ہیں۔ مگر یہ پیچیدہ نظام نہیں، بلکہ منظم نظام ہیں۔
اسے ہم ایک مثال سے واضح کرسکتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ سمندر کے کنارے پر ایک ہموار ساحل (beach) ہے۔ جب کوئی طاقتور موج، ساحل سے ٹکراتی ہے تو ریت کے چھوٹے بڑے ٹیلے، ریت کی سطح پر بنا دیتی ہے۔ یہ ’’ترتیب دینے‘‘ کا عمل ہے۔ سمندر کا کنارہ ایک کھلا نظام (اوپن سسٹم) ہے، اور توانائی کا بہاؤ (موج) جو اس میں داخل ہوتا ہے، ریت پر سادہ نمونے نقش کرسکتا ہے جو دیکھنے میں مسلسل (Regular) نظر آسکتے ہیں۔ حرحرکیاتی نقطۂ نگاہ سے، موج اس جگہ ترتیب قائم کرسکتی ہے جہاں پہلے کوئی ترتیب نہیں تھی۔ مگر ہم پر یہ واضح رہنا چاہئے کہ لہریں (موجیں) ساحل سمندر پرکوئی قلعہ تعمیر نہیں کرسکتیں۔ اگر ہم (ساحل پر) کوئی قلعہ دیکھیں تو ہمیں اس پر کوئی شک نہیں ہوگا کہ کسی نے اسے تعمیر کیا ہے، کیونکہ قلعہ ایک ’’منظم‘‘ نظام ہے۔
چارلس بی تھیکسٹن، والٹر ایل بریڈلی اور راجر اولسن اپنی مشترکہ کتاب بعنوان ’’ابتدائے حیات کا اسرار‘‘ (The Mystery of Life'sOrigin) میں وضاحت کرتے ہیں کہ ترتیب کے ازخود ظہور پذیر ہونے والے معاملات (مثلاً برف کے ٹکڑوں) کی مثالیں، زندگی سے مخصوص پیچیدگی پر صادق کیوں نہیں آسکتیں:
’’۔۔۔ایسی مثالیں ابتدائے حیات کے سوالات سے ناکافی تعلق رکھتی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ ترتیب اور پیچیدگی کے درمیان فرق نہیں کرسکتے۔۔۔ تسلسل (regularity) یا ترتیب (order) ان کثیر معلومات کو محفوظ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے جو جاندار نظاموں کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ (اس کے لئے ) ایک انتہائی غیر مسلسل (irregular) مگر متعین (specified) ساخت درکار ہوتی ہے نہ کہ کوئی ترتیب وار ساخت۔ (برف کی) مذکورہ مثال میں موجود، یہ ایک سنجیدہ خامی ہے۔ ایسے نظاموں میں توانائی کے ذریعے وقوع پذیر ہونے والی، اس طرح کی ازخود ترتیب سازی اور ڈی این اے/ پروٹین جیسے بڑے، معلومات سے بھرپور، لیکن غیر دوری (aperiodic) سالمات کے (تشکیل پانے کے) لئے درکار کام(work) کے درمیان کوئی ظاہری تعلق نہیں ہے‘‘۔
کھلے نظاموں کے بارے میں بھی جان رینی کا دعویٰ ایک کلاسیکی ارتقاء پرستانہ غلطی ہے۔ جی ہاں، کھلے نظاموں میں ناکارگی میں کمی واقع ہوسکتی ہے جو کہ باہر سے توانائی حاصل کرتے ہیں، مگر اس توانائی کو قابلِ عمل (funtional) بنانے کے لئے مخصوص عملی نظاموں (مکینزمز) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً کارکو انجن، ٹرانسمیشن سسٹم اور کنٹرول کرنے والے متعلقہ نظام وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ تیل میں موجود توانائی کو کام میں تبدیل کرسکے۔ توانائی میں تبدیلی کے ایسے کسی نظام کے بغیر کار کبھی اس قابل نہیں ہوگی تیل میں محفوظ توانائی کو استعمال کرسکے۔
زندگی پر بھی اسی چیز کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ زندگی اپنی توانائی سورج سے حاصل کرتی ہے۔ لیکن یہ شمسی توانائی جاندار اشیاء میں توانائی کو تبدیل کرنے والے، حیرت انگیز حد تک پیچیدہ نظاموں کی بدولت ہی کیمیائی توانائی کی شکل میں لائی جاسکتی ہے (جیسے کہ پودوں میں ضیائی تالیف، اور جانوروں اور انسانوں میں ہاضمے کے نظام وغیرہ)۔ توانائی میں تبدیلی کے کسی نظام کی عدم موجودگی میں سورج صرف تخریبی توانائی کے حامل، جلا ڈالنے، بھون ڈالنے یا پگھلا ڈالنے والے منبع کے سوا کچھ نہیں۔
تغیرات کا لاینحل مسئلہ (سوال نمبر 10):
دسویں سوال میں جان رینی نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ انہوں نے ارتقاء کو درپیش، ایک بہت ہی بنیادی سوال کا جواب دے دیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تغیرات، جاندار اجسام میں جینیاتی معلومات کے اضافے کا باعث کبھی نہیں بنتے۔ رینی قطعاً فطری طور پر اس کے برخلاف اصرار کرتے ہیں اور تجویز کرتے ہیں کہ تغیرات کی وجہ سے ایسا اضافہ ہوسکتا ہے (اور لہٰذا ارتقاء ممکن ہے)۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ اس (دعوے کو) سنجیدگی سے لیا جائے تو یقیناانہیں اس کی مثالیں بھی پیش کرنا ہوں گی۔ مگر یہاں وہ جو مثالیں پیش کرتے ہیں وہ درست نہیں۔
رینی کی پہلی مثال بیکٹیریا میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت ہے۔ یہ ارتقاء پرستانہ پروپیگنڈے کی کسی بھی مثال کا مقبول ترین خاصہ ہے۔ مگر اس میں بھی خامیاں ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بیکٹیریا بسا اوقات اینٹی بایوٹکس کے خلاف، تغیرات کے ذریعے مزاحمت پیدا کرلیتے ہیں، مگر ان تغیرات کی وجہ سے بیکٹیریا میں نئی جینیاتی معلومات کا اضافہ نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس وہ ان میں شکلیاتی تنزلی (morphological degeneration) کا باعث بنتی ہیں۔ مثلاً اسٹریپٹومائسین سے مدافعت کو اسرائیلی حیاتی طبیعیات داں ڈاکٹر لی اسپینٹر نے بڑی تفصیل سے واضح کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیکٹیریا میں اسٹریپٹو مائسین سے مدافعت، ایک ایسے (جینیاتی) تغیر کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جو رائبوسوم کو متاثر کرتا ہے اور اس کی ساخت کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اگر یہ تغیر بیکٹیریا کو فائدہ بھی پہنچاتا ہے اور اس میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت بھی پیدا کرتا ہے، تب بھی اس سے جینیاتی تخفیف کا اظہار ہوتا ہے جس کی وجہ سے رائبوسوم کے کام کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر اسپینٹر نے واضح کیا ہے، یہ تغیرات وہ نہیں جن کی نظریہ ارتقاء کو ضرورت ہے۔
تغیرات کے موضوع پر رینی کی دوسری مثال کا عدم وثوق ان کے اپنے درج ذیل الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے:
’’مثال کے طور پر، پھل مکھیوں میں پیدا ہونے والا ایک تغیر جسے ’’انٹینا پیڈیا‘‘ (Antennapedia) کہا جاتا ہے، اس جگہ ٹانگیں پھوٹ پڑنے کا باعث بنتا ہے جہاں انٹینا ہونا چاہئے۔ ایسے خلافِ معمول (ایبنارمل) اعضاء ناکارہ ہوتے ہیں، لیکن ان کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ جینیاتی غلطیوں کی وجہ سے پیچیدہ ساختیں وجو دمیں آسکتی ہیں جنہیں فطری انتخاب کسی ممکنہ استعمال کے لئے آزما سکتا ہے‘‘۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ تغیرات کی وجہ سے جاندار اجسام میں شکلیاتی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا ان تغیرات کے باعث آنے والی شکلیاتی تبدیلیاں، جاندار اشیاء کی جینیاتی معلومات اور مفید خصوصیات میں اضافے کی اہل ہیں؟ ہر گز نہیں! ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ دراصل رینی یہ اعتراف کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ زیرِ بحث تغیرات نے ’’ناکارہ‘‘ (بالفاظِ دیگر اپاہج) ٹانگیں، اس جگہ پیدا کیں جہاں مکھیوں میں انٹینا ہونے چاہئے تھے۔ کوئی کیسے یقین کرسکتا ہے کہ وہ عمل جو مخلوقات کو اپاہج بنا دے، اس کی وجہ سے ارتقاء ہوا ہوگا؟ اور رینی کیونکر اسے ارتقاء کی شہادت کے طور پر پیش کرسکتے ہیں؟
تغیرات پر اپنے آخری پیرے میں رینی ایسے بڑے جینیاتی تغیرات کی بات کرتے ہیں جو پوائنٹ میوٹیشنز سے کہیں آگے تک جاتے ہیں۔ مگر سوال اب تک وہی ہے۔ایسا مشاہدہ کبھی نہیں ہوا کہ ان تبدیلیوں نے جاندار اشیاء کی جینیاتی معلومات میں اضافہ کیا ہو۔ اس ضمن میں تو رینی نے کوئی ایک مثال دینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ہے۔
ان کے پاس گلوبن (گھرانے) کے بارے میں کہنے کے لئے جو کچھ بھی ہے وہ ارتقاء پرستانہ مفروضہ ہے۔ اس مفروضے کا آغاز جاندار اشیاء میں ڈی این اے کے تقابلی تجزیئے سے ہوتا ہے، اور گلوبن ساختوں سے اس کے ارتقائی تعلق پر اختتام ہوتا ہے۔ البتہ قریبی معائنے پر یہ بھی ایک دائری دلیل (سرکیولر ریزننگ) ثابت ہوتی ہے۔ ان ارتقائی گھریلو تعلقات کا، جنہیں ڈی این اے کے تقابلی تجزیات پر قائم کیا گیا ہے، اس تصور پر انحصار ہے کہ تمام جاندار اشیاء ایک ہی مشترکہ جدِامجد کی نسل سے آئی ہیں۔ ان نظری تعلقات کی اس طرح منظرکشی کرنا (جنہیں خود اس مفروضے پر تعمیر کیا گیا ہے کہ ارتقاء صحیح ہے) کہ وہ ارتقاء کی شہادت فراہم کرتے ہیں، ایک ہی دعویٰ دوسرے طریقے سے کرنے کے مترادف ہے۔ یہ محض ایک تکرار ہے۔
انتقالی شکلوں کا معاملہ (سوال نمبر 13):
تیرہویں سوال کے جواب میں جان رینی، انتقالی شکلوں (Transitional forms) کے مسئلے پر بحث کرتے ہیں، جو نظریہ ارتقاء کی راہ میں حائل ایک بڑا پتھر ہے، اور یکساں طور پر اس (مسئلے) کا بھی اطمینان بخش جواب دینے میں ناکام رہتے ہیں۔ ذیل میں ان کی پیش کردہ ’’درمیانی شکلوں‘‘ کی اصلیت بیان کی جارہی ہے:
آرکیوپٹیرکس: رینی لکھتے ہیں کہ آرکیو پٹیرکس، جو عظیم ترین انتقالی شکل کے اعزاز کا امیدوار بھی ہے، پرندوں اور ہوام کی درمیانی شکل تھا۔ مگر ’’تخلیق پرست‘‘ اسے قبول نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ تو ’’صرف ایک معدوم پرندہ ہے جس میں ہوام نما خدوخال ہیں‘‘۔ البتہ حقیقت یہ ہے کہ ایسا صرف ’’تخلیق پرست‘‘ نہیں کہتے بلکہ دنیا کے معتبر ترین ماہرین طیوریات (ornithologists) کی بھی یہی رائے ہے، جو اس معاملے کا بڑی تفصیل سے تجزیہ کرچکے ہیں۔ ایلن فیڈوچیا، جو طیوریات میں ایک مشہور نام ہیں، آرکیو پٹیرکس کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔
دراصل آرکیوپٹیرکس کے انتقالی شکل ہونے کے دعوے کو غلط ثابت کرنے والی خاطرخواہ شہادتیں مل چکی ہیں۔ جیسا کہ فیڈوچیا کہہ چکے ہیں: ’’حالیہ ترین (تحقیقی) کارکنان جنہوں نے آرکیوپٹیرکس کے کئی جسمانی خدوخال کا معائنہ کیا ہے، دریافت کرچکے ہیں کہ یہ مخلوق اس سے کہیں زیادہ پرندہ نما ہے جتناکہ پہلے تصور کیا جاتا تھا‘‘ اور ’’تھیروپوڈ‘‘ (theropod) ڈائنوسار سے آرکیوپٹیرکس کی مشابہت واضح طور پر بہت بڑھا چڑھا کر تخمین کی گئی تھی‘‘۔ آرکیوپٹیرکس کے ضمن میں ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ تھیروپوڈ ڈائنوسار، جنہیں ارتقاء پرست اس (آرکیوپٹیرکس) کا جدِامجد گردانتے ہیں، رکازی ریکارڈ میں آرکیوپٹیرکس کے بعد ظاہر ہوتا ہے، اس سے پہلے نہیں۔
دوسری جانب ’’پردار ڈائنوسار‘‘ کی کہانی جو رینی صاحب بیان کرتے ہیں، وہ ارتقاء پرستوں کے ایک مفروضے سے زیادہ نہیں ہے۔ گزشتہ دس سال کے دوران ’’پردار ڈائنوساروں‘‘ کے جتنے بھی رکازات پیش کئے گئے ہیں، وہ سب قابلِ بحث ہیں۔ تفصیلی مطالعات سے یہ آشکار ہوچکا ہے کہ مبینہ ’’پروں‘‘ جیسی ساختیں اصل میں کولاجن (collagen) ریشے ہیں۔ یہ مفروضہ مکمل طور پر ارتقاء پرستانہ تعصب کی پیداوار ہے۔ جیسا کہ فیڈوچیا کہہ چکے ہیں: ’’کئی ڈائنوساروں کی تصور کشی کرتے ہوئے انہیں بادحرکیاتی کناروں (aerodynamic contours) والے پروں کی تہہ کا حامل بتایا گیا ہے جس کا قطعی طور پر کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے‘‘۔ (ایسا ہی ایک زیرِ بحث نام نہاد ’’پردار ڈائنوسار‘‘ جسے ’’آرکیوریپٹر‘‘(Archaeoraptor) کا نام دیا گیا تھا، جعلسازی سے تیار کیا گیا تھا۔) اس تمام کیفیت کا خلاصہ، فیڈوچیا ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’ آخرکار (یہ ثابت ہوتا ہے کہ)، کوئی پردار ڈائنوسار کبھی دریافت نہیں ہوا ہے، البتہ متنوع مقامات سے کئی ڈائنوسار ممیاں مل چکی ہیں جن کی کھال خاصی محفوظ (well-preserved) حالت میں ہے‘‘۔
گھوڑے کا سلسلہ: گھوڑے کا سلسلہ، جس کی جان رینی نے ارتقاء کے ثبوت میں ایک اہم مثال کے طور پر منظرکشی کی ہے، دراصل ان کی جانب سے ایک ہولناک غلطی ہے۔ یہ اس لئے کہ وہ نام نہاد سلسلہ جو ایوہّپس (Eohippus) سے موجودہ دور کے گھوڑے (Equus) تک کا ارتقائی عمل ظاہر کرتا ہے، اسے ارتقاء پرستوں کی کئی مقتدر ہستیاں ایک غلطی کے طور پر قبول کرچکی ہیں۔ مثلاً ارتقاء پرست سائنسی مصنف گورڈن آرٹیلر نے یہ تسلیم کیا ہے: ’’۔۔۔ کہ ایوہّپس سے ایکیوس تک خط (line) نہایت غلط ہے۔ یہ مبینہ طور پر جسامت میں مسلسل اضافے کو ظاہر کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ (اس میں) بعض متغیرات (variants) ایوہّپس سے چھوٹے تھے، بڑے نہیں۔ مختلف ماخذات سے حاصل شدہ نمونوں کو یکجا کرکے، بظاہر قائل کردینے والی ترتیب (Sequence) میں رکھا جاسکتا ہے۔ مگر یہ ایسی کوئی شہادت نہیں ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اسی ترتیب کی مطابقت میں تھے‘‘۔
وہیل کا ارتقاء: رینی صاحب ایک اور منظرنامہ بھی شامل کرتے ہیں جس کا مقصد وہیل کے ارتقاء کو نظریہ ارتقاء کی ثابت شدہ مثال دکھانا ہے۔ مگر یہ بھی ارتقاء پرستوں کے خیالی مفروضات کے سوا کچھ نہیں۔ زمینی ممالئے ایمبولوسیٹس (Ambulocetus) اور قدیم وہیل روڈہوسیٹس (Rodhocetus) کے مابین (جو مبینہ طور پر اوّل الذکر کی نسل سے ہے) شکلیاتی اعتبار سے بہت زیادہ فرق ہے۔ اس معاملے پر میں نے اپنے ایک مضمون ’’نیشنل جیوگرافک کی جانب سے وہیل کی ایک کہانی‘‘ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔دیکھئے:
www.harunyahya.com/70national_geographic_sci29.php
صدفیوں (Molluscs) کی ابتداء: رینی نے اس پر بھی لیپا پوتی کرکے ارتقاء کی مثال بنا کر پیش کیا ہے، حالانکہ یہ ارتقاء کو درپیش مشکلات میں سے ایک ہے۔ یہ خولدار مخلوقات جو فائیلم مولسکا (Phylum Mollusca) تشکیل دیتی ہیں، آٹھ علیحدہ جماعتوں (classes) میں تقسیم کی گئی ہیں اور یہ سب کی سب کیمبری عصر (cambrian period) میں یک لخت نمودار ہوئی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے بیشتر جاندار فائیلا اور جماعتوں کا معاملہ ہے۔ یہاں تک کہ ثابت شدہ ارتقاء پرستانہ ’’انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا‘‘ ان الفاظ میں یہ قبول کرتاہے کہ صدفیوں (گھونگھوں) کے ارتقاء کے بارے میں کوئی رکازی شہادت موجود نہیں ہے: ’’رکازی ریکارڈ اس امر کا بہت معمولی سراغ فراہم کرتا ہے کہ قبل کیمبری وقت میں صدفئے کیسے وجود پذیر ہوئے اور ان کی آٹھ جماعتیں کیسے (ایک دوسرے سے) ممتاز ہوئیں۔ لہٰذا ضروری ہوجاتا ہے کہ ارتقائی راستے (pathway) کا وسیع تر تعین تقابلی تشریح (comparative anatomy) اور ترقی سے کیا جائے‘‘۔
انسان کا ظہور: رینی کا دعویٰ ہے کہ 20 یا اس سے زائد انسان نما جاندار (رکازات کی شکل میں) لوسی اور جدید انسان کے درمیان خلا پر کرتے ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آسٹرالوپتھے کس سے جدید انسان (ہوموسیپینز) تک کوئی خط (Line) موجود نہیں ہے۔
اس کی ایک علامت یہ ہے کہ آسٹرالوپتھے کس اور ہوموسیپینز کے درمیانی زمرے (جیسے کہ ہوموہیبی لس، ہومو روڈولفینسس اور ہومو ایریکٹس) ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مفروضاتی اور قابلِ بحث ہیں۔ ارتقائی ماہرینِ بشریات برنارڈو وڈ اور مارک کولارڈ کا ایک مقالہ امریکی ہفت روزہ تحقیقی جریدے ’’سائنس‘‘ کی 1999ء کی اشاعت (جلد نمبر 284، شمارہ نمبر 5411، مورخہ 2 اپریل 1999ء، صفحہ 65 تا 71 ) میں شائع ہوا جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ہوموہیبی لس اور ہومو روڈولفینسس نامی زمرہ جات خیالی ہیں،اور ان سے تعلق رکھنے والے رکازات کو آسٹرالو پتھے کس جنس (genus) میں منتقل کردینا چاہئے۔ مشی گن یونیورسٹی کے ملفورڈ وولپوف اور یونیورسٹی آف کینبرا کے ایلن تھورن کو یقین ہے کہ ہومو ایریکٹس ایک خیالی زمرہ (category)ہے اور اس سے متعلق رکازات اصل میں ہومو سیپینز ہی کی قدرے تبدیل شدہ شکل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسٹرالو پتھے کس، جو ایک معدوم بن مانس ہے، اور ہومو سیپینز (بشمول جدید انسان اور اس کے نسلی تغیرات) کے درمیان کوئی دوسرا انسان نما جاندار نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر، نوع انسانی کے ظہور کا کوئی ارتقائی ثبوت نہیں ہے۔
ایک اور حقیقت، جو آسٹرالو پتھے کس اور جدید انسان (ہومو سیپینز) کے درمیان براہِ راست خط (ڈائریکٹ لائن) کے دعوے کو باطل ثابت کرتی ہے، یہ ہے کہ وہ زمرے جنہیں مبینہ طور پر یکے بعد دیگرے بتایا جاتا ہے، دراصل ایک ہی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ’’سائنس‘‘ میں ایک دریافت کی اشاعت ہے کہ وہ تمام رکازات جنہیں ہومو ہیبی لس، ہومو ارگاسٹر اور ہومو ایریکٹس کہا جاتا ہے، یکساں وقت میں زندہ تھے۔ یونیورسٹی آف نارتھ ٹیکساس کے ریڈ فلیمنگ، جو اس تحقیق کے سربراہ بھی تھے، مذکورہ دریافت کی اہمیت کا خلاصہ بیان کرتے ہیں: ’’یہ مکمل طور پر غیر متوقع (دریافت) تھی، کیونکہ اب تک،مسلمہ سائنسی نقطہ نگاہ ہیبی لس، ارگاسٹر اور ایریکٹس کو ایک ارتقائی تسلسل میں رکھتا تھا‘‘۔
سالماتی حیاتیات اور ارتقائی شجرۂ نسب: رینی یقیناًرکازات کی بنیاد پر اپنے دعووں کی کمزور نوعیت سے ضرور واقف ہوں گے، لہٰذا اس کے بعد نظریہ ارتقاء کی حمایت میں شہادت کی تلاش کے لئے انہوں نے سالماتی حیاتیات کا رُخ کیا۔ ان کی دلیل کا انحصار جینیاتی یکسانیت (similarity) پر ہے اور وہ دعویٰ کرتے ہیں: ’’۔۔۔ باہمی ارتقائی تعلق برقرار رکھنے کی غرض سے، مختلف انواع میں ان (یکساں) جین کی ساختیں اور حاصلات (products) جداگانہ ہوسکتی ہیں‘‘۔
لیکن اصل میں یہ بات وہ ہے جس کی ارتقاء پرست، سالماتی حیاتیات سے توقع کرتے ہیں۔ بالفاظِ دیگر یہ کہ جاندار اجسام، نظریہ ارتقاء کی مطابقت میں ایک دوسرے سے قریبی تعلق میں ہوں گے اور ان کے سالمات بہت ملتے جلتے ہوں گے۔ تاہم حقائق اس کے برعکس ہیں۔ حالیہ سالماتی دریافتوں سے ایسے نتائج حاصل ہوئے ہیں جو 150 سال قدیم، ارتقائی شجرۂ نسب سے مکمل طور پر عدم مطابقت میں ہیں۔
فرانسیسی ماہرینِ حیاتیات ہاروے فلپ اور پیٹرک فورٹیر کے 1999ء میں شائع شدہ ایک مضمون کے مطابق: ’’زیادہ سے زیادہ سلسلوں کی دستیابی کے ساتھ، یہ معلوم ہوا کہ پروٹین میں نسلی تواریخ (phylogenies) نہ صرف ایک دوسرے کی، بلکہ rRNAشجرے کی بھی نفی کرتی ہیں‘‘۔
مختلف پروٹینوں، rRNAاور جین کے اب تک جتنے موازنے بھی کئے گئے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی نظریہ ارتقاء کے وجود کو ثابت نہیں کرتا۔ یونیورسٹی آف الینوائے کے حیاتیات داں، کارل ووز یہ تسلیم کرتے ہیں:
’’اب تک حاصل کی گئی متعدد انفرادی پروٹینوں کی نسلی تواریخ (phylogenies) میں کوئی ہم آہنگ جسمیاتی نسلی تاریخ (organismal phylogeny) ظاہر نہیں ہوسکی ہے۔ یہ نسلی تاریخی (فائیلو جینیٹک) عدم موافقت، عالمگیر شجرے میں ہر جگہ دیکھی جاسکتی ہے: اس کی جڑوں سے لے کر اہم شاخوں تک اور متعدد گروہوں (گروپس) سے لے کر ان (گروہوں) کی اپنی بنیادی گروہ بندی (گروپنگ) تک میں‘‘۔
یہ حقیقت کہ سالماتی موازنوں سے آشکار ہونے والے نتائج، نظریہ ارتقاء کی حمایت میں نہیں بلکہ مخالفت میں ہیں، ’’کیا شجرۂ حیات کو جڑ سے اُکھاڑنے کا وقت آگیا ہے؟‘‘کے عنوان سے 1999ء میں ’’سائنس‘‘ کے ایک مقالے (جلد 284، نمبر 5418، 21 مئی 1999ء، صفحہ 1305) میں تسلیم کی گئی ہے۔ الزبتھ پنیسی کا تحریر کردہ یہ مضمون بتاتا ہے کہ ڈارون پرست ماہرین حیاتیات نے ’’شجرۂ حیات‘‘ (Tree of life) پر روشنی ڈالنے کے لئے جو جینیاتی تجزیات اور موازنے کئے، ان سے بالکل اُلٹ نتائج حاصل ہوئے ہیں، اور یہ کہتے ہوئے چلتا ہے کہ ’’نئے ڈیٹا (معلومات) ارتقائی تصویر کو خاک آلود کررہے ہیں‘‘۔
مختصراً یہ کہ جاندار اشیاء کے مابین کئے گئے تمام سالماتی موازنے بھی نظریہ ارتقاء کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، اور جان رینی کے دعووں کے بالکل برعکس ہیں۔
آنکھ کا ظہور اور نظریہ ارتقاء کا عدم ارتقاء (سوال نمبر 14):
14 ویں سوال کے جواب میں رینی صاحب ’’ناقابلِ تخفیف پیچیدگی‘‘ (irreducible complexity) کے میدان میں داخل ہوتے ہیں اور آنکھ کی ابتداء کا حوالہ دیتے ہیں، جو ارتقاء پرستوں کے لئے ہمیشہ سے ایک ناقابلِ عبور رکاوٹ رہی ہے۔ رینی کا بیان ڈیڑھ سو سال قبل چارلس ڈارون کے پیش کردہ مفروضات کی تکرار کے سوا کچھ نہیں: مطلب یہ کہ کمزور بصارت کی حامل ’’ابتدائی‘‘ (primitive) آنکھیں، فطرت میں موجود تھیں اور زیادہ پیچیدہ آنکھیں انہی سے ارتقاء پذیر ہوئی ہوں گی۔
البتہ ڈارون کے زمانے ہی سے اس دعوے کو غلط ثابت کرنے والی شہادتیں سامنے آتی رہی ہیں:
1۔ فطری تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ زمین پر پائی گئی اولین آنکھ قطعی طور پر ’’ابتدائی‘‘ (primitive) نہیں تھی، بلکہ اصل میں غیر معمولی پیچیدہ ساخت کی حامل تھی۔ زیرِبحث آنکھیں سہ لختوں (ٹرائیلو بائٹس) کی تھیں جن کی ساخت دوہرے عدسوں پر مشتمل، مرکب آنکھ پر مشتمل تھی۔ نیوکلیائی طبیعیات دان اور ٹرائیلوبائٹس کے پُرجوش شوقین، لیوی سیٹی کہتے ہیں: ’’ٹرائیلوبائٹ کی آنکھ میں دو عدسوں کے مابین انعطافی سطح (refracting interface) ان بصری آلات کی مطابقت میں ڈیزائن کی گئی تھی جنہیں ڈیکارٹے اور ہائجنز نے سترہویں صدی (عیسوی) کے وسط میں وضع کیا تھا‘‘۔ ان آنکھوں کی سب سے حیرت انگیز خاصیت، جسے بصری ڈیزائن کا اعلیٰ ترین نمونہ کہا جاتا ہے، یہ ہے کہ ان کے پیچھے ابتدائی آنکھ جیسی کوئی شکل نہیں ہے، (بلکہ) وہ یک لخت ظہور میں آئی ہیں۔
2۔ روشنی کو محسوس کرنے والے خلیات جن کا حوالہ ڈاروِن نے ’’ابتدائی آنکھوں‘‘ کی حیثیت سے دیا ہے، وہ بھی غیر معمولی پیچیدہ ساخت رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ’’ابتدائی‘‘ ترین آنکھ بھی ناقابلِ تخفیف پیچیدگی کا حامل نظام ہے جسے روشنی محسوس کرنے والے خلئے، اس میں موجود غیر معمولی حد تک پیچیدہ حیاتی کیمیائی نظاموں، اس خلئے کو دماغ سے جوڑنے والے اعصاب، اور ان (بصری پیغامات) کی وضاحت کرنے والے ایک بصری مرکز درکار ہیں۔ یہ مرحلہ وار (ارتقائی عمل کے نتیجے میں) وجود پذیر نہیں ہوسکتے۔ اسی لئے نظریہ ارتقاء ’’ابتدائی‘‘ ترین آنکھ کے وجود میں آنے تک کی وضاحت نہیں کرسکتا، اسے مزید پیچیدہ حیاتیاتی نظاموں کی وضاحت میں بنیاد بنانا تو بہت دور کی بات ہے۔
رینی لکھتے ہیں ’’آج کے ذہین صورت گری کے حامی اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں زیادہ نفیس اور پیچیدہ ہیں‘‘ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ نظریہ ارتقاء کے حامی آج بھی 150 سال پہلے کی طرح ڈارونزم کے غیر مصدقہ تصورات سے چمٹے ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ وہ اب بھی آنکھ کی ابتداء کے حوالے سے اسی دیومالائی کہانی کو ’’ابتدائی آنکھوں سے ارتقاء‘‘ کے تحت پیش کررہے ہیں، ظاہر کرتی ہے کہ ڈیڑھ سو سال گزر جانے کے بعد بھی نظریہ ارتقاء کو خود کوئی ارتقائی نصیب نہیں ہوا ہے۔
ناقابلِ تخفیف پیچیدگی کے سامنے بے بسی (سوال نمبر 15):
اپنے مضمون کے آخری حصے میں جان رینی اس شہادت پر تنقید کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ذہین صورت گری کے حامیوں مثلاً مائیکل جے بیہے اور ولیم ڈیمبسکی وغیرہ کی طرف سے پیش کی جاتی ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ کینتھ آرملر اور رسل ایف ڈولٹل کے اعتراضات کا حوالہ دیتے ہیں جو ارتقاء پرست ہیں اور بیہے پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر بیہے پہلے ہی ان اعتراضات کے جامع جوابات دے چکے ہیں اور انہیں مدلل انداز میں غلط ثابت کرچکے ہیں۔ ناقدین کو بیہے کے جوابات کے لئے دیکھئے:
http://www.arn.org/behe/mb_response.htm
جس پیرے میں ناقابلِ تخفیف پیچیدگی (کے تصور) کے سامنے جان رینی کی مکمل بے بسی کااظہار ہوتا ہے، اس کی عبارت کچھ یوں ہے:
’’کلیدی نکتہ یہ ہے کہ مختلف حصوں پر مشتمل فلاجیلم کی ساخت، جو مائیکل بیہے کے نزدیک خلئے کو حرکت دینے کے سوا اور کسی کام کی نہیں ہے، وہ درحقیقت ایک سے زائد ایسے افعال سرانجام دے سکتی ہے جنہو ں نے ارتقاء میں اسکی مدد کی ہوگی۔ بعدازاں فلاجیلم کے حتمی ارتقاء میں صرف ان پیچیدہ حصو ں کا آپس میں اچھوتے انداز سے ملاپ ہوا ہوگا جو ابتداء میں کچھ اور مقاصد کیلئے ارتقاء پذیر ہوئے تھے۔‘‘
مختصراً، رینی یہ کہہ رہے ہیں کہ فلاجیلم ’’ان حصوں کے باہم ملاپ سے وجود پذیر ہواہوگا جو ابتداء میں کچھ اور مقاصد کے لئے ارتقاء پذیر ہوئے تھے‘‘ مگر سارے مسئلے کی جڑ تو یہیں پر ہے۔ وہ ’’دیگر مقاصد‘‘ کیا تھے؟ وہ کیا مقاصد تھے جن کے لئے فلاجیلم کی تشکیل کرنے والے سالمات وجود میں آئے ہوں گے؟ یہ کہنا کہ وہ ’’شاید ایسے دوسرے مراحل میں وجود پذیر ہوئے ہیں جن سے ہم ناواقف ہیں‘‘ اور ان مراحل کو واضح طور پر بیان نہ کرنا، ڈاروِن پرستانہ عقیدت مندی ہی کی تکرار ہے۔
وہ عضویئے جنہیں Yersinia pestis، خلیات میں زہر داخل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے، اور جن کی ساخت فلاجیلم سے مشابہت رکھتی ہے، یا وہ سادہ فلاجیلا کی طرح دکھائی دیتے ہیں، انہیں فلاجیلم کے ارتقائی مراحل کی سادہ ساختیں ثابت کرنے کے لئے منظر کشی کرنا بجائے خود لاحاصل ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ کار یا گلائیڈر کو جیٹ طیارے کی مبینہ ’’ارتقائی ابتداء‘‘ کے طورپر پیش کیا جائے۔ ان میں مماثلت یقیناًہوسکتی ہے لیکن اس سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ زیرِ بحث ذرائع نقل و حمل (وہیکلز) اندھے اتفاقات کے باعث ایک دوسرے سے ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ وہ سب کے سب جداگانہ طور پر ڈیزائن کی گئی ساخت رکھتے ہیں۔
جب ہم ڈیمبسکی کے نظریئے پر رینی کے اعتراضات تک پہنچتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ صرف سانتافی انسٹی ٹیوٹ میں کئے گئے مطالعات کے حوالوں پر مشتمل ہیں۔ مگر بالکل اپنے پیشروؤں مثلاً الیاپریگوجین کے کام کی طرح، یہ مطالعات بھی ’’ازخود تنظیم‘‘ (self organization) کے تصور کو مادہ پرستانہ عقیدے سے زیادہ کچھ ثابت کرنے کی سعی نہیں کرتے۔ (ازخود تنظیم کے تصور کو ڈیمبسکی نے اپنی 2002ء میں شائع شدہ کتاب No Free Lunch: Why Specified Complexity cannot be purchasedwithout Intelligenceمیں تفصیلی دلائل سے غلط ثابت کیا ہے۔) تاہم یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سانتافی انسٹی ٹیوٹ کے ارتقاء پرست، جان رینی کے مقابلے میں زیادہ سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ایک طرف رینی صاحب ذہین صورت گری کے تصور کو غیر سائنسی دعویٰ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں، تو دوسری طرف سانتافی انسٹی ٹیوٹ میں ازخود تنظیمی نظریئے کے ممتاز ماہر اسٹوارٹ کافمین عوام کے سامنے یہ تسلیم کرچکے ہیں کہ ذہین صورت گری بجا طور پر ایک فکری اور سائنسی منصوبہ (پراجیکٹ) ہے۔
مادہ پرستی سے رینی کی عقیدت مندانہ وابستگی:
ذہین صورت گری کے تصور پر اپنے اعتراضات کے بعد، جان رینی نہ چاہتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ فطرت میں پیچیدگی کی وضاحت ارتقائی نظاموں کے تحت نہیں کی جاسکتی، اور اس کا ازالہ کرنے کے لئے وہ مستقبل کے بارے میں نیک توقعات کے اظہار پر تکیہ کرتے ہیں:
’’۔۔۔جانداروں میں نظر آنے والی بعض پیچیدگیاں ایسے قدرتی مظاہر کے ذریعے پیدا ہوسکتی ہیں جنہیں آج ہم شاید ہی صحیح طور پر سمجھ پائے ہوں۔ مگر یہ کیفیت اس طرح کہنے سے کہیں مختلف ہے کہ پیچیدگی، قدرتی طور پر وجود میں آہی نہیں سکتی تھی۔‘‘
رینی کی منطق ایک اندھی عقیدت کا اظہار ہے۔ اگر وہ یہ سوچتے ہیں کہ وہ حیاتیاتی پیچیدگی کی وضاحت، ارتقاء کی مدد سے مہیا کرسکتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ ان عملی نظاموں کی نشاندہی کریں ۔جب وہ ایسا کوئی نظام ڈھونڈنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ ایسے نظاموں کی موجودگی تجویز کرتے ہیں جنہیں ’’آج ہم شاید ہی صحیح طور پر سمجھ پائے ہوں‘‘لیکن اگر وہ نظام اب تک سمجھے نہیں جا سکے ہیں تو پھر بھی رینی صاحب کو اتنا یقین کیوں ہے کہ وہ حقیقت میں موجود ہیں؟کیا ان پراسرار ارتقائی نظاموں کو تسلیم کرنے اور کسی ایسے ’’الکیمیائی نظام‘‘پر (جو کسی طرح عام دھات کو سونا بنادے) یقین رکھنے میں کوئی فرق ہے ؟ تو پھر ارتقاء پر یقین اور الکیمیا پر یقین میں کیا فرق ہے؟
ان تمام سوالوں سے ظاہر ہے کہ رینی اور دوسرے کٹر ڈاروِن پرستوں کا نظرےۂ ارتقاء پر یقین، اصل میں مادہ پرستی کے لئے ان کی اندھی عقیدت کا نتیجہ ہے۔خود ڈاروِن کا انداز کم متعصبانہ تھا جب اس نے کہا ’’ اگر یہ ثابت کیا جاسکے کہ ایسا کوئی پیچیدہ جاندار مو جود تھا، جو متعدد، مسلسل، (اور) معمولی تغیرات کے باعث وجود میں آہی نہیں سکتا تھا، تو میرا نظریہ مکمل طور پر منہدم ہو جائے گا‘‘۔ جب اسی طرح کے ناقابلِ تخفیف پیچیدگی کے حامل جانداروں سے (جن کی ڈارون نے وضاحت کی تھی) سامنا ہوتا ہے تو جان رینی اور دوسرے ہم عصر ڈاروِن پرست، اس نظرےئے کی شکست تسلیم کرنے کے بجائے مستقبل پر تکیہ کرنا قبول کرلیتے ہیں۔
رینی کے مضمون کا تجزیہ کیا جائے تو پتا چلے گا کہ ایک ہی بنیادی خیال اس ساری عقیدت مندی کی جڑ ہے ۔ درج ذیل سطور خاص طور پر چشم کشا ہیں:
’’۔۔۔سائنس میں ارتقاء کے ان امکانات کو بھی خوش آمدید کہا جاتا ہے جو فطری انتخاب سے ماورا قوتوں کے عمل کا نتیجہ ہوں۔ لیکن ایسی قوتوں کا فطری ہونا لازمی ہے۔ یعنی ان کا تعلق کسی پُراسرار تخلیقی صلاحیت کی حامل ذہانت سے نہیں جوڑا جاسکتا جس کا وجود، سائنسی اعتبار سے، غیر ثابت شدہ ہے۔‘‘
یہاں پہلے جملے میں رینی صاحب فرماتے ہیں کہ بعض قوتیں، جن کی اپنی موجودگی غیر ثابت شدہ ہے، ارتقاء میں حصہ لے سکتی ہیں۔مگر اگلے ہی جملے میں یہ شرط عائد کردیتے ہیں: ان قوتوں کو لازماً فطری (نیچرل) ہونا چاہئے۔ لہٰذا وہ ایک باشعور خالق کا وجود مسترد کردیتے ہیں، کیونکہ ایسے کسی باشعور خالق کا وجود، سائنسی اعتبار سے ’’ غیر ثابت شدہ ‘‘ ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے والے جملے ہی میں وہ خود غیر ثابت شدہ قوتیں موجود ہونے کا امکان قبول کر چکے ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، اپنے مضمون میں اور جگہوں پر بھی انہوں نے ایسے ارتقائی نظاموں کا تذکرہ کیا ہے جو اب تک دریافت نہیں ہوئے ہیں، مگر انہیں امید ہے کہ وہ مستقبل میں دریافت ہوجائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ رینی کا مسئلہ دراصل یہ نہیں ہے کہ ذہین صورت گری کا وجود ثابت شدہ ہے یا نہیں، بلکہ اصل میں یہ صورت گری اس مادہ پرستانہ فلسفے کے خلاف ہے جس کے وہ علمبردار ہیں۔
اپنی پسند کے مطابق کسی بھی چیز پر یقین رکھنے کے لئے رینی پوری طرح آزاد ہیں۔ بعض لوگ مادہ پرستی کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کو نجوم اور کچھ کو الکیمیا پر اعتقاد ہے۔ (تاہم) مسئلہ یہ ہے کہ رینی اور ان جیسے مادہ پرست اپنے عقیدے کی تصویر کشی، اصل سائنس کے طور پر کر رہے ہیں۔ یہ محض منافقانہ فریب ہے جس کے دن گنے جاچکے ہیں۔
حرفِ آخر ۔ جان رینی کو مبارکباد:
دراصل ہمیں سائنٹفک امریکن کے ایڈیٹر جان رینی کو ان کے مضمون پر مبارکباد دینی چاہئے۔ تخلیق کے ثبوتوں میں سے کسی ایک کا جواب فراہم کرنے میں ناکامی، بہکتے انداز سے تخلیق کی وسیع تر شہادت کو نظر انداز کرکے اور (تخلیق کے خلاف) اپنے غیض و غضب مظاہرہ کرکے انہوں نے صرف اتنی خدمت کی ہے کہ اس انہدام کو نمایاں کردیاہے جس سے ڈاروِنزم آج گزر رہا ہے۔
لیمارک اِزم کے انہدام اور گریگر مینڈل جیسے عظیم سائنس دانوں کی کامیابیوں میں لائسنکو جیسے کٹر لیمارک پرستوں کی ہولناک اور ذلت آمیز شکست نے بھی مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ آج، بالکل اسی طرح سے ذہین صورت گری کے تصور کی حمایت کرنے والے سائنس دانوں کی کامیاب تحقیق کے ساتھ ساتھ کٹر ڈاروِن پرستوں کی منطقی اور سائنسی چیخ چنگھاڑ بھی ڈاروِنزم کے انہدام میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔
وہ لوگ جو آج ان مباحث کے بارے میں پڑھ رہے ہیں ۔ چند عشروں کے دوران اس سچائی (تخلیق) کو مزید واضح ہوتا دیکھ لیں گے اور حیران رہ جائیں گے کہ سائنسی حلقوں کے کتنے زیادہ لوگ ڈاروِنزم کی اس دیومالا کی زُلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔