عالم مغرب
ہارون یحییٰ
جن لوگوں کو تاریخ سے تھوڑی بہت دلچپسی ہے، انہیں بخوبی معلوم ہے کہ نسلی تعصب، یورپ کے چہرے پر ایک دھبے کی مانند ہے. دیگر بہت سے منفی اور جمہوریت کے رنگ میں رنگے گئے اور روشن خیال مذاہب کے نزدیک، نسلی تعصب ابھی تک تاریخ کی کتابوں تک ہی محدود رہا ہے. نسلی تعصب پر مبنی رجحانات کے علاوہ متشدد کارروائیاں، جن کے متعلق یورپ اور امریکہ کا خیال ہے کے یہ ماضی کا قصہ ہیں، سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بیماری، کبھی بھی دور نہیں ہوئی-
نسلی تعصب کے متعلق امریکہ کا اپنا نظریہ ہے جبکہ یوروپ میں اس کا اظہار اس وقت ہوا جب یوروپیوں نے مسلم دشمن رویہ اپنانا شروع کردیا. یوروپ کے مختلف حصوں میں مساجد پر حملے اور مسلم مخالف مظاہرے, مسلمانوں کے خلاف یورپی تعصب کی علامت ہیں لیکن جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف نسلی تعصب انتہا کو پہنچ چکا ہے.
جرمنی میں ایک مسلم مخالف تنظیم، روزانہ کی بنیاد پر مسلمانوں کے خلاف مظاہرے کررہی ہے جن کے دوران مظاہرین یہ نعرے بلند کرتے ہیں "ہم مسلمانوں کو اپنے ملک میں نہیں دیکھنا چاہتے". یہ مظاہرے جرمنی کے ایک ایسے شہر ڈریسڈن میں ہوتے ہیں جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ نہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ تنظیم، جرمنوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد اور دہست گردی پر اکسارہی ہے. اس تنظیم کا مقصد یہ ہے کے یوروپ میں سے مساجد نابود ہوجائیں. یوروپ بھر میں مساجد پر حملے روزانہ کا معمول بن چکا ہے. جرمنی کے زیادہ تر سیاست دانوں کی طرف سے ان مظاہروں کی مذمت میں ایک فقرہ بھی سامنے نہیں آیا.
یہ امر قابل تحسین ہے کے کرسمس کے موقع پر جرمن چانسلر نے اپنی تقریر میں ان مظاہرین کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا:
"ان لوگوں کی طرف توجہ مت دیں جو جرمنی کو تنہا کر دینا چاہتے ہیں. جو لوگ، ہمارے ملک میں باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے نفرت کا اظہار کررہے ہیں، ان لوگوں کے لیے ہمارے ملک میں کوئی جگہ نہیں".
مزید برآں، جرمنی کے وزیر انصاف نے بھی کہا ہے کہ مسلم مخالف یہ مظاہرے، یورپ کے لیے باعث تحقیر ہیں. اس کے علاوہ چرچ، سیاسی جماعتوں اور فنکاروں کی طرف سے ان مظاہرین کی مذمت کے لیے جوابی مظاہرے کیے گئے ہیں.
اگرچہ مندرجہ بالا بیانات اور اقدامات لائق تحسین ہیں، لیکن کافی نہیں. محض لب کشائی اور علامتی اظہار کے ذریعے نسل پرستوں کو مسلم مخالف اقدامات سے باز نہیں رکھا جا سکتا اور ان مسلم مخالف مظاہروں کی روک تھام کرنے کے لیے ٹھوس کاروائیاں درکار ہیں. جس طریقے کے ذریے جرمنی کی مرکزی حزب مخالف نے مارکل پر نسل پرستانہ مظاہروں میں اضافے کا الزام عائد کیا ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے. جرمنی کی حزب مخالف نے کہا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ ماحول، ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو ماضی میں اختیار کی گیئں.
نسلی تعصب ایک نفسیاتی عارضہ ہے. یہ عارضہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک گروہ، اپنے سے کمزور گروہ کو کچل دینا چاہتا ہے. اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ نسل پرست، نفسیاتی طور پر بیمار ہوتے ہیں لیکن دیگر عناصر جن کے باعث ان کی اس بیماری میں اضافہ ہوتا ہے، کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چائیے.
کم علمی کی بنا پر بہت سے یوروپی، مسلم عسکریت پسندوں کو اسلام کے مترادف سمجھتے ہیں. اس کے برعکس، اسلام امن کی تبلیغ کا ایک ایسا مذھب ہے جو معاشرے میں انسانوں کے مساوی حقوق کا حامی ہے. یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی بڑی تعداد قرانی تعلیمات سے بے بہرہ ہے.
برحال، نسلی تعصب کے مسلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں یہ نہیں سمجھنا چائیے کہ اس کی پہل یوروپ کی طرف سے ہو. بطور مسلمان، ہماری بھی ذمداری ہے کہ ہم نسلی تعصب کے مسلے کو ختم کرنے کے لیے یوروپیوں کے ساتھ محبت و پیار کے ساتھ پیش آییں. ہمیں اپنے اندر بھی باہمی اعتماد اور ہم آہنگی پیدا کرنی چاہے. ہمیں دنیا کے سامنے اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنا چاہے جو محبت اور دوستی کا علمبردار ہے. یہ ہماری حماقت ہو گی کہ ہم نفرت کے عوض محبت اور دوستی کے طلبگار ہوں.
(بشکریہ: عرب نیوز، ترجمہ: ریاض محمود انجم)