اسلامی دنیا اور ترک اسٹیٹ کے الحاق سے تعمیر ہونے والی ترکش اسلامک یونین ایک ایسی طاقت ہوگی جو کہ دنیا میں امن وامان کے لیے نجات دہندہ ہے۔ کچھ لوگ اسکے "ترکش اسلامک یونین" کہلانے سے پریشان ہیں اور اسرار کرتے ہیں کہ یہ نا ممکن ہے کہ کوئی یونین ترکی کی رہنمائی میں تعمیر ہو سکے۔حقیقت البتہ یہ ہے کہ، ہما رے پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے بتا یا کہ ترکی آخری دور میں جس سے کہ ہم اس وقت گزر رہے ہیں ، ایک رہنما کا کردار ادا کرے گا۔ اسکے علاوہ، تاریخی اور سیاسی حالات اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ترکی قدرتی طور پر ترکش اسلامک یونین کا رہنما ہے۔
ترکش اسلامک یونین کی بنیاد کسی ایک کی نسلی برتری کی بنیاد پر نہیں۔ نسلی برتری کا خیال قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے اور ایک سچے مسلمان کے لیے ایسا دعوہ کرنا نا ممکن ہے۔ اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ برتری صرف تقویٰ کی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔
"اے لوگوں ہم نے تم سب کو مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لیے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانوں کنبے اور قبیلے بنا دیے، اللہ کے نزدیک تم میں سے باعزت وہ ہے جو سب سےزیادہ تقوی والا ہے یقین مانوں کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ سورۃ الحجرات (۱۳)"
ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے پر یہ فرماتے ہوئے ہمیں بتایا کہ کس قسم کا رویہ ایک مسلمان کو اختیار کرنا چاہیئے۔" ایک عرب کو کوئی برتری نہیں ایک عجم پر اور ایک عجم کو کوئی برتری نہیں ایک عرب پر"۔
اگر کوئی نسلی برتری کی بنیاد پر شروعات کرتا ہے تو یہ صاف ہے کہ اللہ ایسے خلاف عقل اور نامعقول نظام کو جو کہ قرآن اور سنت کے منافی ہے کو کوئی کامیابی اور ترقی عطا نہیں کریگا ۔ اس ترکش اسلامک یونین کے مطالبے کی بنیاد میں ترک قوم کی اعلی اخلاقی اقدار، جذبہ ایثار اور کمزور کی حفاظت کا جذبہ، حفاظتی طبیعت ، اسلامی سرگرمی، اور انصاف کے احساس کو دھیان میں رکھنا چاہیے اور یہ کہا جائیگا کہ "لوگوں کی توجہ ترکش قوم کی اخلاقی اقدار کی طرف مبذول کرانا، کہ یہ قوم اس مقدس یونین کی رہنما ہوگی"۔
ان سب باتوں کے علاوہ، ترکی سلطنت عثمانیہ کا وارث ہے اور ترکش اسلامک خطہ سے تاریخی وابستگی رکھتا ہے۔ مگر سلطنت عثمانیہ کے بعد اس وسیع خطہ میں وہ امن و استحکام جاری نہ رہ سکا۔ اس حقیقت کا اظہار کئی دفعہ بہت سے مشرقی اور مغربی قابل سیاستدانوں اور تاریخ دانوں نے کیا ہے، وہ حقیقت یہ ہے کہ یہ خطہ عثمانیہ دور کے انصاف اور نظام کی تمنا کر رہا ہے۔
جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اسمیں ترک اسلامی دنیا کو ایک روحانی پیشوا کے نیچے متحد ہونے کی سخت ضرورت ہے اور ایک ہو کر کام کرنا ہے۔ پوری دنیا میں مسلمان مشکل میں ہیں اور پریشان ہیں۔ ایسٹ ترکستان میں ہمارے بھائی پچھلے ساٹھ سالوں سے ہر قسم کے تشدد اور ناقبل یقین ظلم کا شکار ہیں۔ فلسطین میں مسلمان پچھلے پچاس برسوں سے قتل ہو رہے ہیں اور اپنی ہی زمین پر جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تقریبا ہر روز عراق سے اموات کی خبریں آتی ہیں، اور کرکک میں ہمارے بھائی قتل ہو جانے کے ڈر میں رہتے ہیں۔ کریمیا میں مسلمان بہت ہی مشکل حالات میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تقریبا ہر روز افغانستان میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں پاکستان میں مسلمان اپنے ہی ملک میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حال ہی میں دنیا کی آنکھوں کے سامنے یورپ کے بیچوں بیچ بوسنیا میں بے رحمی سے مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ پوری دنیا کی جیلوں میں مسلمان صرف اپنے عقائد کی وجہ سے قید ہیں۔ یہ تکالیف، قتل و غارت، پریشانیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ تقریبا ایک صدی سے مسلمان بے رحمی سے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ اس بے نظمی کے خاتمے اور خون خرابہ کے روکنے کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے ترکش اسلامک یونین کی بنیاد۔ ترکش اسلامک یونین وہ واحد حل ہے جو فلسطین، عراق، افغانستان، ایسٹ ترکستان، کریمیا، کرکک اور مورو کو بچا سکتا ہے۔
اس وقت جب ترکش اسلامک یونین کی تعمیر کی سچائی ہر ایک کو نظرآتی ہے، وہ لوگ جو اس مقدس یونین کے قیام کو ناممکن سمجھتے ہیں جو کہ اسکی تعمیر کے لیے کوشش نہیں کرتے ہیں اور اس کام کے لیے مدد اور حمایت نہیں کرتے ہیں انکو یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ ان پر ایک بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انکو یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئیے کے ظلم ہو رہا ہے۔ ہر مسلمان جو ترکش اسلامک یونین کے لیے کام نہیں کر رہا ہے وہ اس خطہ میں گرنے والے ہر خون کے قطرے ، ہر تباہ ہونے والے گھر، ہر معصوم انسان کی شہادت، ہر بھوکے اور ضرورت مند، کا اتنا ہی زمہ دار ہے جتنا کہ اس ظلم کا ارتکاب کرنے والے۔
ترکش اسلامک یونین کا قیام وہ حل ہے جو اللہ نے ہمیں قرآن میں دکھایا اور نبی صل اللہ علیہ وسلم نے تفصیل کے ساتھ حدیثوں میں بیان کیا۔ قرآن کے مطابق اتحاد فرض ہے، اور جدائی گناہ ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ایک دم اس یونین کی بنیاد ڈالیں جیسا کہ اللہ کا حکم ہے "اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور جدا نہ ہو" اور مشکلات جو چل رہی ہیں انکا خاتمہ ہو اور پوری دنیا میں امن اور حفاظت کا نظام ہو۔