1. آپ فرما دیں: میری طرف وحی کی گئی ہے کہ جنات کی ایک جماعت نے (میری تلاوت کو) غور سے سنا، تو (جا کر اپنی قوم سے) کہنے لگے: بیشک ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے،
2. جو ہدایت کی راہ دکھاتا ہے، سو ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو ہرگز شریک نہیں ٹھہرائیں گے،
3. اور یہ کہ ہمارے رب کی شان بہت بلند ہے، اس نے نہ کوئی بیوی بنا رکھی ہے اور نہ ہی کوئی اولاد،
4. اور یہ کہ ہم میں سے کوئی اَحمق ہی اللہ کے بارے میں حق سے دور حد سے گزری ہوئی باتیں کہا کرتا تھا،
5. اور یہ کہ ہم گمان کرتے تھے کہ انسان اور جنّ اللہ کے بارے میں ہر گز جھوٹ نہیں بولیں گے،
6. اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض اَفراد کی پناہ لیتے تھے، سو اُن لوگوں نے اُن جنات کی سرکشی اور بڑھا دی،
7. اور (اے گروہِ جنات!) وہ انسان بھی ایسا ہی گمان کرنے لگے جیسا گمان تم نے کیا کہ اللہ (مرنے کے بعد) ہرگز کسی کو نہیں اٹھائے گا،
8. اور یہ کہ ہم نے آسمانوں کو چھوا، اور انہیں سخت پہرہ داروں اور (اَنگاروں کی طرح) جلنے اور چمکنے والے ستاروں سے بھرا ہوا پایا،
9. اور یہ کہ ہم (پہلے آسمانی خبریں سننے کے لئے) اس کے بعض مقامات میں بیٹھا کرتے تھے، مگر اب کوئی سننا چاہے تو وہ اپنی تاک میں آگ کا شعلہ (منتظر) پائے گا،
10. اور یہ کہ ہم نہیں جانتے کہ (ہماری بندش سے) ان لوگوں کے حق میں جو زمین میں ہیں کسی برائی کا اِرادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ فرمایا ہے،
11. اور یہ کہ ہم میں سے کچھ نیک لوگ ہیں اور ہم (ہی) میں سے کچھ اس کے سوا (برے) بھی ہیں، ہم مختلف طریقوں پر (چل رہے) تھے،
12. اور ہم نے یقین کر لیا ہے کہ ہم اللہ کو ہرگز زمین میں (رہ کر) عاجز نہیں کر سکتے اور نہ ہی (زمین سے) بھاگ کر اسے عاجز کر سکتے ہیں،
13. اور یہ کہ جب ہم نے (کتابِ) ہدایت کو سنا تو ہم اس پر ایمان لے آئے، پھر جو شخص اپنے رب پر ایمان لاتا ہے تو وہ نہ نقصان ہی سے خوف زدہ ہوتا ہے اور نہ ظلم سے،
14. اور یہ کہ ہم میں سے (بعض) فرماں بردار بھی ہیں اور ہم میں سے (بعض) ظالم بھی ہیں، پھر جو کوئی فرمانبردار ہوگیا تو ایسے ہی لوگوں نے بھلائی طلب کی،
15. اور جو ظالم ہیں تو وہ دوزخ کا ایندھن ہوں گے،
16. اور یہ (وحی بھی میرے پاس آئی ہے) کہ اگر وہ طریقت (راہِ حق، طریقِ ذِکرِ اِلٰہی) پر قائم رہتے تو ہم انہیں بہت سے پانی کے ساتھ سیراب کرتے،
17. تاکہ ہم اس (نعمت) میں ان کی آزمائش کریں، اور جو شخص اپنے رب کے ذِکر سے منہ پھیر لے گا تو وہ اسے نہایت سخت عذاب میں داخل کر دے گا،
18. اور یہ کہ سجدہ گاہیں اللہ کے لئے (مخصوص) ہیں، سو اللہ کے ساتھ کسی اور کی پرستش مت کیا کرو،
19. اور یہ کہ جب اللہ کے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی عبادت کرنے کھڑے ہوئے تو وہ ان پر ہجوم در ہجوم جمع ہو گئے (تاکہ ان کی قرات سن سکیں)،
20. آپ فرما دیں کہ میں تو صرف اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا،
21. آپ فرما دیں کہ میں تمہارے لئے نہ تو نقصان (یعنی کفر) کا مالک ہوں اور نہ بھلائی (یعنی ایمان) کا (گویا حقیقی مالک اللہ ہے میں تو ذریعہ اور وسیلہ ہوں)،
22. آپ فرما دیں کہ نہ مجھے ہرگز کوئی اللہ کے (اَمر کے خلاف) عذاب سے پناہ دے سکتا ہے اور نہ ہی میں قطعاً اُس کے سوا کوئی جائے پناہ پاتا ہوں،
23. مگر اللہ کی جانب سے اَحکامات اور اُس کے پیغامات کا پہنچانا (میری ذِمّہ داری ہے)، اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرے تو بیشک اُس کے لئے دوزخ کی آگ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے،
24. یہاں تک کہ جب یہ لوگ وہ (عذاب) دیکھ لیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے تو (اُس وقت) انہیں معلوم ہوگا کہ کون مددگار کے اعتبار سے کمزور تر اور عدد کے اِعتبار سے کم تر ہے،
25. آپ فرما دیں: میں نہیں جانتا کہ جس (روزِ قیامت) کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لئے میرے رب نے طویل مدت مقرر فرما دی ہے،
26. (وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی (عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتا،
27. سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لئے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہے،
28. تاکہ اللہ (اس بات کو) ظاہر فرما دے کہ بے شک ان (رسولوں) نے اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے، اور (اَحکاماتِ اِلٰہیہ اور علومِ غیبیہ میں سے) جو کچھ ان کے پاس ہے اللہ نے (پہلے ہی سے) اُس کا اِحاطہ فرما رکھا ہے، اور اُس نے ہر چیز کی گنتی شمار کر رکھی ہے،