1. یقیناً واقع ہونے والی گھڑی،
2. کیا چیز ہے یقیناً واقع ہونے والی گھڑی،
3. اور آپ کو کس چیز نے خبردار کیا کہ یقیناً واقع ہونے والی (قیامت) کیسی ہے،
4. ثمود اور عاد نے (جملہ موجودات کو) باہمی ٹکراؤ سے پاش پاش کر دینے والی (قیامت) کو جھٹلایا تھا،
5. پس قومِ ثمود کے لوگ! تو وہ حد سے زیادہ کڑک دار چنگھاڑ والی آواز سے ہلاک کر دئیے گئے،
6. اور رہے قومِ عاد کے لوگ! تو وہ (بھی) ایسی تیز آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے جو انتہائی سرد نہایت گرج دار تھی،
7. اللہ نے اس (آندھی) کو ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن مسلّط رکھا، سو تُو ان لوگوں کو اس (عرصہ) میں (اس طرح) مرے پڑے دیکھتا (تو یوں لگتا) گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کی کھوکھلی جڑیں ہیں،
8. سو تُو کیا ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہے،
9. اور فرعون اور جو اُس سے پہلے تھے اور (قومِ لوط کی) اُلٹی ہوئی بستیوں (کے باشندوں) نے بڑی خطائیں کی تھیں،
10. پس انہوں نے (بھی) اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی، سو اللہ نے انہیں نہایت سخت گرفت میں پکڑ لیا،
11. بے شک جب (طوفانِ نوح کا) پانی حد سے گزر گیا تو ہم نے تمہیں رواں کشتی میں سوار کر لیا،
12. تاکہ ہم اس (واقعہ) کو تمہارے لئے (یادگار) نصیحت بنا دیں اور محفوظ رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں،
13. پھر جب صور میں ایک مرتبہ پھونک ماری جائے گے،
14. اور زمین اور پہاڑ (اپنی جگہوں سے) اٹھا لئے جائیں گے، پھر وہ ایک ہی بار ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے،
15. سو اُس وقت واقع ہونے والی (قیامت) برپا ہو جائے گے،
16. اور (سب) آسمانی کرّے پھٹ جائیں گے اور یہ کائنات (ایک نظام میں مربوط اور حرکت میں رکھنے والی) قوت کے ذریعے (سیاہ) شگافوں٭ پر مشتمل ہو جائے گی، ٭ واھیۃ.... الوَھی: وَھِی، یَھِی، وَھیًا کا معنیٰ ہے: شق فی الادیم والثوب ونحوھما، یقال: وَھِیَ الثوب أی انشَقّ وَ تَخَرّقَ (چمڑے، کپڑے یا اس قسم کی دوسری چیزوں کا پھٹ جانا اور ان میں شگاف ہو جانا۔ اِسی لئے کہا جاتا ہے: کپڑا پھٹ گیا اور اس میں شگاف ہوگیا).... (المفردات، لسان العرب، قاموس المحیط، المنجد وغیرہ)۔ اسے جدید سائنس نے بلیک ہولز سے تعبیر کیا ہے۔
17. اور فرشتے اس کے کناروں پر کھڑے ہوں گے، اور آپ کے رب کے عرش کو اس دن ان کے اوپر آٹھ (فرشتے یا فرشتوں کے طبقات) اٹھائے ہوئے ہوں گے،
18. اُس دن تم (حساب کے لئے) پیش کیے جاؤ گے، تمہاری کوئی پوشیدہ بات چھپی نہ رہے گی،
19. سو وہ شخص جس کا نامۂ اَعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ (خوشی سے) کہے گا: آؤ میرا نامۂ اَعمال پڑھ لو،
20. میں تو یقین رکھتا تھا کہ میں اپنے حساب کو (آسان) پانے والا ہوں،
21. سو وہ پسندیدہ زندگی بسر کرے گا،
22. بلند و بالا جنت میں،
23. جس کے خوشے (پھلوں کی کثرت کے باعث) جھکے ہوئے ہوں گے،
24. (اُن سے کہا جائے گا:) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے،
25. اور وہ شخص جس کا نامۂ اَعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: ہائے کاش! مجھے میرا نامۂ اَعمال نہ دیا گیا ہوتا،
26. اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے،
27. ہائے کاش! وُہی (موت) کام تمام کر چکی ہوتی،
28. (آج) میرا مال مجھ سے (عذاب کو) کچھ بھی دور نہ کر سکا،
29. مجھ سے میری قوت و سلطنت (بھی) جاتی رہی،
30. (حکم ہوگا:) اسے پکڑ لو اور اسے طوق پہنا دو،
31. پھر اسے دوزخ میں جھونک دو،
32. پھر ایک زنجیر میں جس کی لمبائی ستر گز ہے اسے جکڑ دو،
33. بے شک یہ بڑی عظمت والے اللہ پر ایمان نہیں رکھتا تھا،
34. اور نہ محتاج کو کھانا کھلانے پر رغبت دلاتا تھا،
35. سو آج کے دن نہ اس کا کوئی گرم جوش دوست ہے،
36. اور نہ پیپ کے سوا (اُس کے لئے) کوئی کھانا ہے،
37. جسے گنہگاروں کے سوا کوئی نہ کھائے گا،
38. سو میں قَسم کھاتا ہوں ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو،
39. اور ان چیزوں کی (بھی) جنہیں تم نہیں دیکھتے،
40. بے شک یہ (قرآن) بزرگی و عظمت والے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (منزّل من اللہ) فرمان ہے، (جسے وہ رسالۃً اور نیابۃً بیان فرماتے ہیں)،
41. اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں (کہ اَدبی مہارت سے خود لکھا گیا ہو)، تم بہت ہی کم یقین رکھتے ہو،
42. اور نہ (یہ) کسی کاہن کا کلام ہے (کہ فنی اَندازوں سے وضع کیا گیا ہو)، تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو،
43. (یہ) تمام جہانوں کے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے،
44. اور اگر وہ ہم پر کوئی (ایک) بات بھی گھڑ کر کہہ دیتے،
45. تو یقیناً ہم اُن کو پوری قوت و قدرت کے ساتھ پکڑ لیتے،
46. پھر ہم ضرور اُن کی شہ رگ کاٹ دیتے،
47. پھر تم میں سے کوئی بھی (ہمیں) اِس سے روکنے والا نہ ہوتا،
48. اور پس بلاشبہ یہ (قرآن) پرہیزگاروں کے لئے نصیحت ہے،
49. اور یقیناً ہم جانتے ہیں کہ تم میں سے بعض لوگ (اس کھلی سچائی کو) جھٹلانے والے ہیں،
50. اور واقعی یہ کافروں کے لئے (موجبِ) حسرت ہے،
51. اور بے شک یہ حق الیقین ہے،
52. سو (اے حبیبِ مکرّم!) آپ اپنے عظمت والے رب کے نام کی تسبیح کرتے رہیں،