1. (اے حبیبِ مکرّم!) جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اُس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً منافق لوگ جھوٹے ہیں،
2. انہوں نے اپنی قَسموں کو ڈھال بنا رکھا ہے پھر یہ (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں، بیشک وہ بہت ہی برا (کام) ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں،
3. یہ اِس وجہ سے کہ وہ (زبان سے) ایمان لائے پھر (دل سے) کافر رہے تو اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی گئی سو وہ (کچھ) نہیں سمجھتے،
4. (اے بندے!) جب تو انہیں دیکھے تو اُن کے جسم (اور قد و قامت) تجھے بھلے معلوم ہوں، اور اگر وہ باتیں کریں تو اُن کی گفتگو تُو غور سے سنے (یعنی تجھے یوں معقول دکھائی دیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ) وہ لوگ گویا دیوار کے سہارے کھڑی کی ہوئی لکڑیاں ہیں، وہ ہر اونچی آواز کو اپنے اوپر (بَلا اور آفت) سمجھتے ہیں، وہی (منافق تمہارے) دشمن ہیں سو اُن سے بچتے رہو، اللہ انہیں غارت کرے وہ کہاں بہکے پھرتے ہیں،
5. اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے لئے مغفرت طلب فرمائیں تو یہ (منافق گستاخی سے) اپنے سر جھٹک کر پھیر لیتے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہوئے (آپ کی خدمت میں آنے سے) گریز کرتے ہیں٭، ٭ یہ آیت عبد اللہ بن اُبیّ (رئیس المنافقین) کے بارے میں نازل ہوئی، جب اسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں بخشش طلبی کے لئے حاضر ہونے کا کہا گیا تو سر جھٹک کر کہنے لگا: میں نہیں جاتا، میں ایمان بھی لا چکا ہوں، ان کے کہنے پر زکوٰۃ بھی دے دی ہے۔ اب کیا باقی رہ گیا ہے فقط یہی کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ بھی کروں؟ (الطبری، الکشاف، نسفی، بغوی، خازن)۔
6. اِن (بدبخت گستاخانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حق میں برابر ہے کہ آپ اُن کے لئے استغفار کریں یا آپ ان کے لئے استغفار نہ کریں، اللہ ان کو (تو) ہرگز نہیں بخشے گا (کیونکہ یہ آپ پر طعنہ زنی کرنے والے اور آپ سے بے رخی اور تکبّر کرنے والے لوگ ہیں)۔ بیشک اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا،
7. (اے حبیبِ مکرّم!) یہی وہ لوگ ہیں جو (آپ سے بُغض و عِناد کی بنا پر) یہ (بھی) کہتے ہیں کہ جو (درویش اور فقراء) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں رہتے ہیں اُن پر خرچ مت کرو (یعنی ان کی مالی اعانت نہ کرو) یہاں تک کہ وہ (سب انہیں چھوڑ کر) بھاگ جائیں (منتشر ہوجائیں)، حالانکہ آسمانوں اور زمین کے سارے خزانے اللہ ہی کے ہیں لیکن منافقین نہیں سمجھتے،
8. وہ کہتے ہیں: اگر (اب) ہم مدینہ واپس ہوئے تو (ہم) عزّت والے لوگ وہاں سے ذلیل لوگوں (یعنی مسلمانوں) کو باہر نکال دیں گے، حالانکہ عزّت تو صرف اللہ کے لئے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے مگر منافقین (اس حقیقت کو) جانتے نہیں ہیں،
9. اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد (کہیں) تمہیں اللہ کی یاد سے ہی غافل نہ کر دیں، اور جو شخص ایسا کرے گا تو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں،
10. اور تم اس (مال) میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اِس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے: اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت اور کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کرلیتا اور نیکوکاروں میں سے ہو جاتا،
11. اور اللہ ہرگز کسی شخص کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو،