1. طا، سین، میم (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
2. یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں،
3. (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ پر موسٰی (علیہ السلام) اور فرعون کے حقیقت پر مبنی حال میں سے ان لوگوں کے لئے کچھ پڑھ کر سناتے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں،
4. بیشک فرعون زمین میں سرکش و متکبّر (یعنی آمرِ مطلق) ہوگیا تھا اور اس نے اپنے (ملک کے) باشندوں کو (مختلف) فرقوں (اور گروہوں) میں بانٹ دیا تھا اس نے ان میں سے ایک گروہ (یعنی بنی اسرائیل کے عوام) کو کمزور کردیا تھا کہ ان کے لڑکوں کو (ان کے مستقبل کی طاقت کچلنے کے لئے) ذبح کر ڈالتا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا (تاکہ مَردوں کے بغیر ان کی تعداد بڑھے اور ان میں اخلاقی بے راہ روی کا اضافہ ہو)، بیشک وہ فساد انگیز لوگوں میں سے تھا،
5. اور ہم چاہتے تھے کہ ہم ایسے لوگوں پر احسان کریں جو زمین میں (حقوق اور آزادی سے محرومی اور ظلم و استحصال کے باعث) کمزور کر دیئے گئے تھے اور انہیں (مظلوم قوم کے) رہبر و پیشوا بنا دیں اور انہیں (ملکی تخت کا) وارث بنا دیں،
6. اور ہم انہیں ملک میں حکومت و اقتدار بخشیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجوں کو وہ (انقلاب) دکھا دیں جس سے وہ ڈرا کرتے تھے،
7. اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ تم انہیں دودھ پلاتی رہو، پھر جب تمہیں ان پر (قتل کردیئے جانے کا) اندیشہ ہو جائے تو انہیں دریا میں ڈال دینا اور نہ تم (اس صورتِ حال سے) خوفزدہ ہونا اور نہ رنجیدہ ہونا، بیشک ہم انہیں تمہاری طرف واپس لوٹانے والے ہیں اور انہیں رسولوں میں(شامل) کرنے والے ہیں۔،
8. پھر فرعون کے گھر والوں نے انہیں (دریا سے) اٹھا لیا تاکہ وہ (مشیّتِ الٰہی سے) ان کے لئے دشمن اور (باعثِ) غم ثابت ہوں، بیشک فرعون اور ہامان اور ان دونوں کی فوجیں سب خطاکار تھے،
9. اور فرعون کی بیوی نے (موسٰی علیہ السلام کو دیکھ کر) کہا کہ (یہ بچہ) میری اور تیری آنکھ کے لئے ٹھنڈک ہے۔ اسے قتل نہ کرو، شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنالیں اور وہ (اس تجویز کے انجام سے) بے خبر تھے،
10. اور موسٰی (علیہ السلام) کی والدہ کا دل (صبر سے) خالی ہوگیا، قریب تھا کہ وہ (اپنی بے قراری کے باعث) اس راز کو ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل پر صبر و سکون کی قوّت نہ اتارتے تاکہ وہ (وعدۂ الٰہی پر) یقین رکھنے والوں میں سے رہیں،
11. اور (موسٰی علیہ السلام کی والدہ نے) ان کی بہن سے کہا کہ (ان کا حال معلوم کرنے کے لئے) ان کے پیچھے جاؤ سو وہ انہیں دور سے دیکھتے رہے اور وہ لوگ (بالکل) بے خبر تھے،
12. اور ہم نے پہلے ہی سے موسٰی (علیہ السلام) پر دائیوں کا دودھ حرام کر دیا تھا سو (موسٰی علیہ السلام کی بہن نے) کہا: کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لئے اس (بچے) کی پرورش کر دیں اور وہ اس کے خیر خواہ (بھی) ہوں،
13. پس ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو (یوں) ان کی والدہ کے پاس لوٹا دیا تاکہ ان کی آنکھ ٹھنڈی رہے اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تاکہ وہ (یقین سے) جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
14. اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں،
15. اور موسٰی (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے، تو انہوں نے اس میں دو مَردوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے) گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا، پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوں میں سے تھا پس موسٰی (علیہ السلام) نے اسے مکّا مارا تو اس کا کام تمام کردیا، (پھر) فرمانے لگے: یہ شیطان کا کام ہے (جو مجھ سے سرزَد ہوا ہے)، بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے،
16. (موسٰی علیہ السلام) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے معاف فرما دے پس اس نے انہیں معاف فرما دیا، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
17. (مزید) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! اس سبب سے کہ تو نے مجھ پر (اپنی مغفرت کے ذریعہ) احسان فرمایا ہے اب میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا،
18. پس موسٰی (علیہ السلام) نے اس شہر میں ڈرتے ہوئے صبح کی اس انتظار میں (کہ اب کیا ہوگا؟) تو دفعتًہ وہی شخص جس نے آپ سے گزشتہ روز مدد طلب کی تھی آپ کو (دوبارہ) امداد کے لئے پکار رہا ہے تو موسٰی (علیہ السلام) نے اس سے کہا: بیشک تو صریح گمراہ ہے،
19. سو جب انہوں نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑیں جو ان دونوں کا دشمن ہے تو وہ بول اٹھا: اے موسٰی! کیا تم مجھے (بھی) قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ تم نے کل ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ تم صرف یہی چاہتے ہو کہ ملک میں بڑے جابر بن جاؤ اور تم یہ نہیں چاہتے کہ اصلاح کرنے والوں میں سے بنو،
20. اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا: اے موسٰی! (قومِ فرعون کے) سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوں،
21. سو موسٰی (علیہ السلام) وہاں سے خوف زدہ ہو کر (مددِ الٰہی کا) انتظار کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے، عرض کیا: اے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرما،
22. اور جب وہ مَديَن کی طرف رخ کر کے چلے (تو) کہنے لگے: امید ہے میرا رب مجھے (منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے) سیدھی راہ دکھا دے گا،
23. اور جب وہ مَدْيَنَْ کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیں،
24. سو انہوں نے دونوں (کے ریوڑ) کو پانی پلا دیا پھر سایہ کی طرف پلٹ گئے اور عرض کیا: اے رب! میں ہر اس بھلائی کا جو تو میری طرف اتارے محتا ج ہوں،
25. پھر (تھوڑی دیر بعد) ان کے پاس ان دونوں میں سے ایک (لڑکی) آئی جو شرم و حیاء (کے انداز) سے چل رہی تھی۔ اس نے کہا: میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ وہ آپ کو اس (محنت) کا معاوضہ دیں جو آپ نے ہمارے لئے (بکریوں کو) پانی پلایا ہے۔ سو جب موسٰی (علیہ السلام) ان (لڑکیوں کے والد شعیب علیہ السلام) کے پاس آئے اور ان سے (پچھلے) واقعات بیان کئے تو انہوں نے کہا: آپ خوف نہ کریں آپ نے ظالم قوم سے نجات پا لی ہے،
26. ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)،
27. انہوں نے (موسٰی علیہ السلام سے) کہا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دو لڑکیوں میں سے ایک کا نکاح آپ سے کردوں اس (مَہر) پر کہ آپ آٹھ سال تک میرے پاس اُجرت پر کام کریں، پھر اگر آپ نے دس (سال) پور ے کردیئے تو آپ کی طرف سے (احسان) ہوگا اور میں آپ پر مشقت نہیں ڈالنا چاہتا، اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے نیک لوگوں میں سے پائیں گے،
28. موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: یہ (معاہدہ) میرے اور آپ کے درمیان (طے) ہوگیا، دو میں سے جو مدت بھی میں پوری کروں سو مجھ پر کوئی جبر نہیں ہوگا، اور اللہ اس (بات) پر جو ہم کہہ رہے ہیں نگہبان ہے،
29. پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے مقررہ مدت پوری کر لی اور اپنی اہلیہ کو لے کر چلے (تو) انہوں نے طور کی جانب سے ایک آگ دیکھی (وہ شعلۂ حسنِ مطلق تھا جس کی طرف آپ کی طبیعت مانوس ہوگئی)، انہوں نے اپنی اہلیہ سے فرمایا: تم (یہیں) ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے۔ شاید میں تمہارے لئے اس (آگ) سے کچھ (اُس کی) خبر لاؤں (جس کی تلاش میں مدتوں سے سرگرداں ہوں) یا آتشِ (سوزاں) کی کوئی چنگاری (لادوں) تاکہ تم (بھی) تپ اٹھو،
30. جب موسٰی (علیہ السلام) وہاں پہنچے تو وادئ (طور) کے دائیں کنارے سے بابرکت مقام میں (واقع) ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسٰی! بیشک میں ہی اللہ ہوں (جو) تمام جہانوں کا پروردگار (ہوں)،
31. اور یہ کہ اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو، پھر جب موسٰی (علیہ السلام) نے اسے دیکھا کہ وہ تیز لہراتی تڑپتی ہوئی حرکت کر رہی ہے گویا وہ سانپ ہو، تو پیٹھ پھیر کر چل پڑے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا، (ندا آئی:) اے موسٰی! سامنے آؤ اور خوف نہ کرو، بیشک تم امان یافتہ لوگوں میں سے ہو،
32. اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمک دار ہوکر نکلے گا اور خوف (دور کرنے کی غرض) سے اپنا بازو اپنے (سینے کی) طرف سکیڑ لو، پس تمہارے رب کی جانب سے یہ دو دلیلیں فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف (بھیجنے اور مشاہدہ کرانے کے لئے) ہیں، بیشک وہ نافرمان لوگ ہیں،
33. (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے پروردگار! میں نے ان میں سے ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا سو میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل کرڈالیں گے،
34. اور میرے بھائی ہارون (علیہ السلام)، وہ زبان میں مجھ سے زیادہ فصیح ہیں سو انہیں میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج دے کہ وہ میری تصدیق کر سکیں میں اس بات سے (بھی) ڈرتا ہوں کہ (وہ) لوگ مجھے جھٹلائیں گے،
35. ارشاد فرمایا: ہم تمہارا بازو تمہارے بھائی کے ذریعے مضبوط کر دیں گے۔ اور ہم تم دونوں کے لئے (لوگوں کے دلوں میں اور تمہاری کاوشوں میں) ہیبت و غلبہ پیدا کئے دیتے ہیں۔ سو وہ ہماری نشانیوں کے سبب سے تم تک (گزند پہنچانے کے لئے) نہیں پہنچ سکیں گے، تم دونوں اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے غالب رہیں گے،
36. پھر جب موسٰی (علیہ السلام) ان کے پاس ہماری واضح اور روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ یہ تو مَن گھڑت جادو کے سوا (کچھ) نہیں ہے۔ اور ہم نے یہ باتیں اپنے پہلے آباء و اجداد میں (کبھی) نہیں سنی تھیں،
37. اور موسٰی (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لے کر آیا ہے اور اس کو (بھی) جس کے لئے آخرت کے گھر کا انجام (بہتر) ہوگا، بیشک ظالم فلاح نہیں پائیں گے،
38. اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لئے اپنے سوا کوئی دوسرا معبود نہیں جانتا۔ اے ہامان! میرے لئے گارے کو آگ لگا (کر کچھ اینٹیں پکا) دے، پھر میرے لئے (ان سے) ایک اونچی عمارت تیار کر، شاید میں (اس پر چڑھ کر) موسٰی کے خدا تک رسائی پا سکوں، اور میں تو اس کو جھوٹ بولنے والوں میں گمان کرتا ہوں،
39. اور اس (فرعون) نے خود اور اس کی فوجوں نے ملک میں ناحق تکبّر و سرکشی کی اور یہ گمان کر بیٹھے کہ وہ ہماری طرف نہیں لوٹائے جائیں گے،
40. سو ہم نے اس کو اور اس کی فوجوں کو (عذاب میں) پکڑ لیا اور ان کو دریا میں پھینک دیا، تو آپ دیکھئے کہ ظالموں کا انجام کیسا (عبرت ناک) ہوا،
41. اور ہم نے انہیں (دوزخیوں کا) پیشوا بنا دیا کہ وہ (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے تھے اور قیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی،
42. اور ہم نے ان کے پیچھے اس دنیا میں (بھی) لعنت لگا دی اور قیامت کے دن (بھی) وہ بدحال لوگوں میں (شمار) ہوں گے،
43. اور بیشک ہم نے اس (صورتِ حال) کے بعد کہ ہم پہلی (نافرمان) قوموں کو ہلاک کر چکے تھے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا کی جو لوگوں کے لئے (خزانۂ) بصیرت اور ہدایت و رحمت تھی، تاکہ وہ نصیحت قبول کریں،
44. اور آپ (اس وقت طُور کے) مغربی جانب (تو موجود) نہیں تھے جب ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف حکمِ (رسالت) بھیجا تھا، اور نہ (ہی) آپ (ان ستّر افراد میں شامل تھے جو وحیِ موسٰی علیہ السلام کی) گواہی دینے والوں میں سے تھے (پس یہ سارا بیان غیب کی خبر نہیں تو اور کیا ہے؟)،
45. لیکن ہم نے (موسٰی علیہ السلام کے بعد یکے بعد دیگرے) کئی قومیں پیدا فرمائیں پھر ان پر طویل مدّت گزر گئی، اور نہ (ہی) آپ (موسٰی اور شعیب علیہما السلام کی طرح) اہل مدین میں مقیم تھے کہ آپ ان پر ہماری آیتیں پڑھ کر سناتے ہوں لیکن ہم ہی (آپ کو اخبارِ غیب سے سرفراز فرما کر) مبعوث فرمانے والے ہیں،
46. اور نہ (ہی) آپ طُور کے کنارے (اس وقت موجود) تھے جب ہم نے (موسٰی علیہ السلام کو) ندا فرمائی مگر (آپ کو ان تمام احوالِ غیب پر مطلع فرمانا) آپ کے رب کی جانب سے (خصوصی) رحمت ہے۔ تاکہ آپ (ان واقعات سے باخبر ہو کر) اس قوم کو (عذابِ الٰہی سے) ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈر سنانے والا نہیں آیا، تاکہ وہ نصیحت قبول کریں،
47. اور (ہم کوئی رسول نہ بھیجتے) اگر یہ بات نہ ہوتی کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچے ان کے اعمالِ بد کے باعث جو انہوں نے خود انجام دیئے تو وہ یہ نہ کہنے لگیں کہ اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ہم ایمان والوں میں سے ہوجاتے،
48. پھر جب ان کے پاس ہمارے حضور سے حق آپہنچا (تو) وہ کہنے لگے کہ اس (رسول) کو ان (نشانیوں) جیسی (نشانیاں) کیوں نہیں دی گئیں جو موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئیں تھیں؟ کیا انہوں نے ان (نشانیوں) کا انکار نہیں کیا تھا جو اس سے پہلے موسٰی (علیہ السلام) کو دی گئی تھیں؟ وہ کہنے لگے کہ دونوں (قرآن اور تورات) جادو ہیں (جو) ایک دوسرے کی تائید و موافقت کرتے ہیں، اور انہوں نے کہا کہ ہم (ان) سب کے منکر ہیں،
49. آپ فرما دیں کہ تم اللہ کے حضور سے کوئی (اور) کتاب لے آؤ جو ان دونوں سے زیادہ ہدایت والی ہو (تو) میں اس کی پیروی کروں گا اگر تم (اپنے الزامات میں) سچے ہو،
50. پھر اگر وہ آپ کا ارشاد قبول نہ کریں تو آپ جان لیں (کہ ان کے لئے کوئی حجت باقی نہیں رہی) وہ محض اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، اور اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی جانب سے ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔ بیشک اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا،
51. اور درحقیقت ہم ان کے لئے پے در پے (قرآن کے) فرمان بھیجتے رہے تاکہ وہ نصیحت قبو ل کریں،
52. جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب عطا کی تھی وہ (اسی ہدایت کے تسلسل میں) اس (قرآن) پر (بھی) ایمان رکھتے ہیں،
53. اور جب ان پر (قرآن) پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لائے بیشک یہ ہمارے رب کی جانب سے حق ہے، حقیقت میں تو ہم اس سے پہلے ہی مسلمان (یعنی فرمانبردار) ہوچکے تھے،
54. یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں اور اس عطا میں سے جو ہم نے انہیں بخشی خرچ کرتے ہیں،
55. اورجب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال، تم پر سلامتی ہو ہم جاہلوں (کے فکر و عمل) کو (اپنانا) نہیں چاہتے (گویا ان کی برائی کے عوض ہم اپنی اچھائی کیوں چھوڑیں)،
56. حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (راہِ ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں اسے راہِ ہدایت پر آپ خود نہیں لاتے بلکہ جسے اللہ چاہتا ہے (آپ کے ذریعے) راہِ ہدایت پر چلا دیتا ہے، اور وہ راہِ ہدایت پانے والوں سے خوب واقف ہے۔،
57. اور (قدر ناشناس) کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی معیّت میں ہدایت کی پیروی کر لیں تو ہم اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں (اس) امن والے حرم (شہرِ مکہ جو آپ ہی کا وطن ہے) میں نہیں بسایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر (دنیا کی ہر سمت سے) ہر جنس کے پھل پہنچائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ یہ سب کچھ کس کے صدقے سے ہو رہا ہے)،
58. اور ہم نے کتنی ہی (ایسی) بستیوں کو برباد کر ڈالا جو اپنی خوشحال معیشت پر غرور و ناشکری کر رہی تھیں، تو یہ ان کے (تباہ شدہ) مکانات ہیں جو ان کے بعد کبھی آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم، اور (آخر کار) ہم ہی وارث و مالک ہیں،
59. اور آپ کا رب بستیوں کو تباہ کرنے والا نہیں ہے یہاں تک کہ وہ اس کے بڑے مرکزی شہر میں پیغمبر بھیج دے جو ان پر ہماری آیتیں تلاوت کرے، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں مگر اس حال میں کہ وہاں کے مکین ظالم ہوں،
60. اور جو چیز بھی تمہیں عطا کی گئی ہے سو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی رونق و زینت ہے۔ مگر جو چیز (بھی) اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ کیا تم (اس حقیقت کو) نہیں سمجھتے،
61. کیا وہ شخص جس سے ہم نے کوئی (آخرت کا) اچھا وعدہ فرمایا ہو پھر وہ اسے پانے والا ہو جائے، اس (بدنصیب) کی مثل ہو سکتا ہے جسے ہم نے دنیوی زندگی کے سامان سے نوازا ہو پھر وہ (کفرانِ نعمت کے باعث) روزِ قیامت (عذاب کے لئے) حاضر کئے جانے والوں میں سے ہو جائے،
62. اور جس دن (اللہ) انہیں پکارے گا تو فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کیا کرتے تھے،
63. وہ لوگ جن پر (عذاب کا) فرمان ثابت ہو چکا کہیں گے: اے ہمارے رب! یہی وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ہم نے انہیں (اسی طرح) گمراہ کیا تھا جس طرح ہم (خود) گمراہ ہوئے تھے، ہم ان سے بیزاری ظاہر کرتے ہوئے تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ (درحقیقت) ہماری پرستش نہیں کرتے تھے (بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے پجاری تھے)،
64. اور (ان سے) کہا جائے گا: تم اپنے (خود ساختہ) شریکوں کو بلاؤ، سو وہ انہیں پکاریں گے پس وہ (شریک) انہیں کوئی جواب نہ دیں گے اور وہ لوگ عذاب کو دیکھ لیں گے، کاش! وہ (دنیا میں) راہِ ہدایت پا چکے ہوتے،
65. اور جس دن (اللہ) انہیں پکارے گا تو وہ فرمائے گا: تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا تھا،
66. تو ان پر اس دن خبریں پوشیدہ ہو جائیں گی سو وہ ایک دوسرے سے پوچھ (بھی) نہ سکیں گے،
67. لیکن جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یقیناً وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگا،
68. اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور (جسے چاہتا ہے نبوت اور حقِ شفاعت سے نوازنے کے لئے) منتخب فرما لیتا ہے، ان (منکر اور مشرک) لوگوں کو (اس امر میں) کوئی مرضی اور اختیار حاصل نہیں ہے۔ اللہ پاک ہے اور بالاتر ہے ان (باطل معبودوں) سے جنہیں وہ (اللہ کا) شریک گردانتے ہیں۔،
69. اور آپ کا رب ان (تمام باتوں) کو جانتا ہے جو ان کے سینے (اپنے اندر) چھپائے ہوئے ہیں اور جو کچھ وہ آشکار کرتے ہیں۔،
70. اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ دنیا اور آخرت میں ساری تعریفیں اسی کے لئے ہیں، اور (حقیقی) حکم و فرمانروائی (بھی) اسی کی ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،
71. فرما دیجئے: ذرا اتنا بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ رات طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں روشنی لا دے۔ کیا تم (یہ باتیں) سنتے نہیں ہو،
72. فرما دیجئے: ذرا یہ (بھی) بتاؤ کہ اگر اللہ تمہارے اوپر روزِ قیامت تک ہمیشہ دن طاری فرما دے (تو) اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہیں رات لا دے کہ تم اس میں آرام کر سکو، کیا تم دیکھتے نہیں ہو،
73. اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات اور دن کو بنایا تاکہ تم رات میں آرام کرو اور (دن میں) اس کا فضل (روزی) تلاش کرسکو اور تاکہ تم شکر گزار بنو،
74. اور جس دن وہ انہیں پکارے گا تو ارشاد فرمائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جنہیں تم (معبود) خیال کرتے تھے،
75. اور ہم ہر امت سے ایک گواہ نکالیں گے پھر ہم (کفار سے) کہیں گے کہ تم اپنی دلیل لاؤ تو وہ جان لیں گے کہ سچ بات اللہ ہی کی ہے اور ان سے وہ سب (باتیں) جاتی رہیں گی جو وہ جھوٹ باندھا کرتے تھے،
76. بیشک قارون موسٰی (علیہ السلام) کی قوم سے تھا پھر اس نے لوگوں پر سرکشی کی اور ہم نے اسے اس قدر خزانے عطا کئے تھے کہ اس کی کنجیاں (اٹھانا) ایک بڑی طاقتور جماعت کو دشوار ہوتا تھا، جبکہ اس کی قوم نے اس سے کہا: تُو (خوشی کے مارے) غُرور نہ کر بیشک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا،
77. اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا،
78. وہ کہنے لگا: (میں یہ مال معاشرے اور عوام پر کیوں خرچ کروں) مجھے تویہ مال صرف اس (کسبی) علم و ہنر کی بنا پر دیا گیا ہے جو میرے پاس ہے۔ کیا اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ نے واقعۃً اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کر دیا تھا جو طاقت میں اس سے کہیں زیادہ سخت تھیں اور (مال و دولت اور افرادی قوت کے) جمع کرنے میں کہیں زیادہ (آگے) تھیں، اور (بوقتِ ہلاکت) مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (مزید تحقیق یا کوئی عذر اور سبب) نہیں پوچھا جائے گا،
79. پھر وہ اپنی قوم کے سامنے (پوری) زینت و آرائش (کی حالت) میں نکلا۔ (اس کی ظاہری شان و شوکت کو دیکھ کر) وہ لوگ بول اٹھے جو دنیوی زندگی کے خواہش مند تھے: کاش! ہمارے لئے (بھی) ایسا (مال و متاع) ہوتا جیسا قارون کو دیا گیا ہے، بیشک وہ بڑے نصیب والا ہے،
80. اور (دوسری طرف) وہ لوگ جنہیں علمِ (حق) دیا گیا تھا بول اٹھے: تم پر افسوس ہے اللہ کا ثواب اس شخص کے لئے (اس دولت و زینت سے کہیں زیادہ) بہتر ہے جو ایمان لایا ہو اور نیک عمل کرتا ہو، مگر یہ (اجر و ثواب) صبر کرنے والوں کے سوا کسی کو عطا نہیں کیا جائے گا،
81. پھرہم نے اس (قارون) کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا، سو اللہ کے سوا اس کے لئے کوئی بھی جماعت (ایسی) نہ تھی جو (عذاب سے بچانے میں) اس کی مدد کرسکتی اور نہ وہ خود ہی عذاب کو روک سکا،
82. اور جو لوگ کل اس کے مقام و مرتبہ کی تمنا کر رہے تھے (اَز رہِ ندامت) کہنے لگے: کتنا عجیب ہے کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرماتا اور (جس کے لئے چاہتا ہے) تنگ فرماتا ہے، اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ فرمایا ہوتا تو ہمیں (بھی) دھنسا دیتا، ہائے تعجب ہے! (اب معلوم ہوا) کہ کافر نجات نہیں پا سکتے،
83. (یہ) وہ آخرت کا گھر ہے جسے ہم نے ایسے لوگوں کے لئے بنایا ہے جو نہ (تو) زمین میں سرکشی و تکبر چاہتے ہیں اور نہ فساد انگیزی، اور نیک انجام پرہیزگاروں کے لئے ہے،
84. جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ) ہے اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو برے کام کرنے والوں کو کوئی بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی قدر جو وہ کرتے رہے تھے،
85. بیشک جس (رب) نے آپ پر قرآن (کی تبلیغ و اقامت کو) فرض کیا ہے یقیناً وہ آپ کو (آپ کی چاہت کے مطابق) لوٹنے کی جگہ (مکہ یا آخرت) کی طرف (فتح و کامیابی کے ساتھ) واپس لے جانے والا ہے۔ فرما دیجئے: میرا رب اسے خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر آیا اور اسے (بھی) جو صریح گمراہی میں ہے۔٭، ٭ (یہ آیت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہوئے حجفہ کے مقام پر نازل ہوئی اور یہ وعدہ فتح مکہ کے دن پورا ہو گیا۔)
86. اور تم (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے اُمتِ محمدی کو خطاب ہے) اس بات کی امید نہ رکھتے تھے کہ تم پر (یہ) کتاب اتاری جائے گی مگر (یہ) تمہارے رب کی رحمت (سے اتری) ہے، پس تم ہرگز کافروں کے مددگار نہ بننا،
87. اور وہ (کفار) تمہیں ہرگز اللہ کی آیتوں (کی تعمیل و تبلیغ) سے باز نہ رکھیں اس کے بعد کہ وہ تمہاری طرف اتاری جا چکی ہیں اور تم (لوگوں کو) اپنے رب کی طرف بلاتے رہو اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہونا،
88. اور تم اللہ کے ساتھ کسی دوسرے (خود ساختہ) معبود کو نہ پوجا کرو، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کی ذات کے سوا ہر چیز فانی ہے، حکم اسی کا ہے اور تم (سب) اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے،