1. طا، سین (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں،
2. (جو) ہدایت ہے اور (ایسے) ایمان والوں کے لئے خوشخبری ہے،
3. جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر (بھی) یقین رکھتے ہیں،
4. بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اَعمالِ (بد ان کی نگاہوں میں) خوش نما کر دیئے ہیں سو وہ (گمراہی میں) سرگرداں رہتے ہیں،
5. یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے بُرا عذاب ہے اور یہی لوگ آخرت میں (سب سے) زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں،
6. اور بیشک آپ کو (یہ) قرآن بڑے حکمت والے، علم والے (رب) کی طرف سے سکھایا جا رہا ہے،
7. (وہ واقعہ یاد کریں) جب موسٰی (علیہ السلام) نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا مجھے ایک آگ میں شعلۂ انس و محبت نظر آیا ہے)، عنقریب میں تمہارے پاس اس میں سے کوئی خبر لاتا ہوں (جس کے لئے مدت سے دشت و بیاباں میں پھر رہے ہیں) یا تمہیں (بھی اس میں سے) کوئی چمکتا ہوا انگارا لا دیتا ہوں تاکہ تم (بھی اس کی حرارت سے) تپ اٹھو،
8. پھر جب وہ اس کے پاس آپہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے جو اس آگ میں (اپنے حجاب نور کی تجلی فرما رہا) ہے اور وہ (بھی) جو اس کے آس پاس (اُلوہی جلووں کے پرتَو میں) ہے، اور اللہ (ہر قسم کے جسم و مثال سے) پاک ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے،
9. اے موسٰی! بیشک وہ (جلوہ فرمانے والا) میں ہی اللہ ہوں جو نہایت غالب حکمت والا ہے،
10. اور (اے موسٰی!) اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دو، پھر جب (موسٰی نے لاٹھی کو زمین پر ڈالنے کے بعد) اسے دیکھا کہ سانپ کی مانند تیز حرکت کر رہی ہے تو (فطری رد ِعمل کے طور پر) پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر (بھی) نہ دیکھا، (ارشاد ہوا): اے موسٰی! خوف نہ کرو بیشک پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے،
11. مگر جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد (اسے) نیکی سے بدل دیا تو بیشک میں بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں،
12. اور تم اپنا ہاتھ اپنے گریبان کے اندر ڈالو وہ بغیر کسی عیب کے سفید چمک دار (ہو کر) نکلے گا، (یہ دونوں اللہ کی) نو نشانیوں میں (سے) ہیں (انہیں لے کر) فرعون اور اس کی قوم کے پاس جاؤ۔ بیشک وہ نافرمان قوم ہیں،
13. پھر جب ان کے پاس ہماری نشانیاں واضح اور روشن ہو کر پہنچ گئیں تو وہ کہنے لگے کہ یہ کھلا جادو ہے،
14. اور انہوں نے ظلم اور تکبّر کے طور پر ان کا سراسر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل ان (نشانیوں کے حق ہونے) کا یقین کر چکے تھے۔ پس آپ دیکھئے کہ فساد بپا کرنے والوں کا کیسا (بُرا) انجام ہوا،
15. اور بیشک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو (غیر معمولی) علم عطا کیا، اور دونوں نے کہا کہ ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے،
16. اور سلیمان (علیہ السلام)، داؤد (علیہ السلام) کے جانشین ہوئے اور انہوں نے کہا: اے لوگو! ہمیں پرندوں کی بولی (بھی) سکھائی گئی ہے اور ہمیں ہر چیز عطا کی گئی ہے۔ بیشک یہ (اللہ کا) واضح فضل ہے،
17. اور سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ان کے لشکر جنّوں اور انسانوں اور پرندوں (کی تمام جنسوں) میں سے جمع کئے گئے تھے، چنانچہ وہ بغرضِ نظم و تربیت (ان کی خدمت میں) روکے جاتے تھے،
18. یہاں تک کہ جب وہ (لشکر) چیونٹیوں کے میدان پر پہنچے تو ایک چیونٹی کہنے لگی: اے چیونٹیو! اپنی رہائش گاہوں میں داخل ہو جاؤ کہیں سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے لشکر تمہیں کچل نہ دیں اس حال میں کہ انہیں خبر بھی نہ ہو،
19. تو وہ (یعنی سلیمان علیہ السلام) اس (چیونٹی) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے اور عرض کیا: اے پروردگار! مجھے اپنی توفیق سے اس بات پر قائم رکھ کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام فرمائی ہے اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرما لے،
20. اور سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے: مجھے کیا ہوا ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھ پا رہا یا وہ (واقعی) غائب ہو گیا ہے،
21. میں اسے (بغیر اجازت غائب ہونے پر) ضرور سخت سزا دوں گا یا اسے ضرور ذبح کر ڈالوں گا یا وہ میرے پاس (اپنے بے قصور ہونے کی) واضح دلیل لائے گا،
22. پس وہ تھوڑی ہی دیر (باہر) ٹھہرا تھا کہ اس نے (حاضر ہو کر) عرض کیا: مجھے ایک ایسی بات معلوم ہوئی ہے جس پر (شاید) آپ مطلع نہ تھے اور میں آپ کے پاس (ملکِ) سبا سے ایک یقینی خبر لایا ہوں،
23. میں نے (وہاں) ایک ایسی عورت کو پایا ہے جو ان (یعنی ملکِ سبا کے باشندوں) پر حکومت کرتی ہے اور اسے (ملکیت و اقتدار میں) ہر ایک چیز بخشی گئی ہے اور اس کے پاس بہت بڑا تخت ہے،
24. میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اَعمالِ (بد) ان کے لئے خوب خوش نما بنا دیئے ہیں اور انہیں (توحید کی) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہے،
25. اس لئے (روکے گئے ہیں) کہ وہ اس اللہ کے حضور سجدہ ریز نہ ہوں جو آسمانوں اور زمین میں پوشیدہ (حقائق اور موجودات) کو باہر نکالتا (یعنی ظاہر کرتا) ہے اور ان (سب) چیزوں کو جانتا ہے جسے تم چھپاتے ہو اور جسے تم آشکار کرتے ہو،
26. اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہی) عظیم تختِ اقتدار کا مالک ہے،
27. (سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: ہم ابھی دیکھتے ہیں کیا تو سچ کہہ رہا ہے یا توجھوٹ بولنے والوں سے ہے،
28. میرا یہ خط لے جا اور اسے ان کی طرف ڈال دے پھر ان کے پاس سے ہٹ آپھر دیکھ وہ کس بات کی طرف رجوع کرتے ہیں،
29. (ملکہ نے) کہا: اے سردارو! میری طرف ایک نامۂ بزرگ ڈالا گیا ہے،
30. بیشک وہ (خط) سلیمان (علیہ السلام) کی جانب سے (آیا) ہے اور وہ اللہ کے نام سے شروع (کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہے،
31. (اس کامضمون یہ ہے) کہ تم لوگ مجھ پر سربلندی (کی کوشش) مت کرو اور فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجاؤ،
32. (ملکہ نے) کہا: اے دربار والو! تم مجھے میرے (اس) معاملہ میں مشورہ دو، میں کسی کام کا قطعی فیصلہ کرنے والی نہیں ہوں یہاں تک کہ تم میرے پاس حاضر ہو کر (اس اَمر کے موافق یا مخالف) گواہی دو،
33. انہوں نے کہا: ہم طاقتور اور سخت جنگ جُو ہیں مگر حکم آپ کے اختیار میں ہے سو آپ (خود ہی) غور کر لیں کہ آپ کیا حکم دیتی ہیں،
34. (ملکہ نے) کہا: بیشک جب بادشاہ کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تواسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل و رسوا کر ڈالتے ہیں اور یہ (لوگ بھی) اسی طرح کریں گے،
35. اور بیشک میں ان کی طرف کچھ تحفہ بھیجنے والی ہوں پھر دیکھتی ہوں قاصد کیا جواب لے کر واپس لوٹتے ہیں،
36. سو جب وہ (قاصد) سلیمان (علیہ السلام) کے پاس آیا (تو سلیمان علیہ السلام نے اس سے) فرمایا: کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ سو جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے اس (دولت) سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں عطا کی ہے بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفہ سے فرحاں (اور) نازاں ہو،
37. تو ان کے پاس (تحفہ سمیت) واپس پلٹ جا سو ہم ان پر ایسے لشکروں کے ساتھ (حملہ کرنے) آئیں گے جن سے انہیں مقابلہ (کی طاقت) نہیں ہوگی اور ہم انہیں وہاں سے بے عزت کر کے اس حال میں نکالیں گے کہ وہ (قیدی بن کر) رسوا ہوں گے،
38. (سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں،
39. ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں،
40. (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے،
41. (سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اس(ملکہ کے امتحان) کے لئے اس کے تخت کی صورت اور ہیئت بدل دو ہم دیکھیں گے کہ آیا وہ (پہچان کی) راہ پاتی ہے یا ان میں سے ہوتی ہے جو سوجھ بوجھ نہیں رکھتے،
42. پھر جب وہ (ملکہ) آئی تو اس سے کہا گیا: کیا تمہارا تخت اسی طرح کا ہے، وہ کہنے لگی: گویا یہ وہی ہے اور ہمیں اس سے پہلے ہی (نبوتِ سلیمان کے حق ہونے کا) علم ہو چکا تھا اور ہم مسلمان ہو چکے ہیں،
43. اور اس (ملکہ) کو اس (معبودِ باطل) نے (پہلے قبولِ حق سے) روک رکھا تھا جس کی وہ اللہ کے سوا پرستش کرتی رہی تھی۔ بیشک وہ کافروں کی قوم میں سے تھی،
44. اس (ملکہ) سے کہا گیا: اس محل کے صحن میں داخل ہو جا (جس کے نیچے نیلگوں پانی کی لہریں چلتی تھیں)، پھر جب ملکہ نے اس (مزیّن بلوریں فرش) کو دیکھا تو اسے گہرے پانی کا تالاب سمجھا اور اس نے (پائینچے اٹھا کر) اپنی دونوں پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا: یہ تو محل کا شیشوں جڑا صحن ہے، اس (ملکہ) نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! (میں اسی طرح فریبِ نظر میں مبتلا تھی) بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان (علیہ السلام) کی معیّت میں اس اللہ کی فرمانبردار ہو گئی ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہے،
45. اور بیشک ہم نے قومِ ثمود کے پاس ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو تو اس وقت وہ دو فرقے ہو گئے جو آپس میں جھگڑتے تھے،
46. (صالح علیہ السلام نے) فرمایا: اے میری قوم! تم لوگ بھلائی (یعنی رحمت) سے پہلے برائی (یعنی عذاب) میں کیوں جلدی چاہتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں طلب نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے،
47. وہ کہنے لگے: ہمیں تم سے (بھی) نحوست پہنچی ہے اور ان لوگوں سے (بھی) جو تمہارے ساتھ ہیں۔ (صالح علیہ السلام نے) فرمایا: تمہاری نحوست (کا سبب) اللہ کے پاس (لکھا ہوا) ہے بلکہ تم لوگ فتنہ میں مبتلا کئے گئے ہو،
48. اور (قومِ ثمود کے) شہر میں نو سرکردہ لیڈر (جو اپنی اپنی جماعتوں کے سربراہ) تھے ملک میں فساد پھیلاتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے،
49. (ان سرغنوں نے) کہا: تم آپس میں اللہ کی قسم کھا کر عہد کرو کہ ہم ضرور رات کو صالح (علیہ السلام) اور اس کے گھر والوں پر قاتلانہ حملہ کریں گے پھر ان کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم ان کی ہلاکت کے موقع پر حاضر ہی نہ تھے اور بیشک ہم سچے ہیں،
50. اور انہوں نے خفیہ سازش کی اور ہم نے (بھی اس کے توڑ کے لئے) خفیہ تدبیر فرمائی اور انہیں خبر بھی نہ ہوئی،
51. تو آپ دیکھئے کہ ان کی (مکارانہ) سازش کا انجام کیسا ہوا، بیشک ہم نے ان (سرداروں) کو اور ان کی ساری قوم کو تباہ و برباد کر دیا،
52. سو یہ ان کے گھر ویران پڑے ہیں اس لئے کہ انہوں نے ظلم کیا تھا۔ بیشک اس میں اس قوم کے لئے (عبرت کی) نشانی ہے جو علم رکھتے ہیں،
53. اور ہم نے ان لوگوں کو نجات بخشی جو ایمان لائے اور تقوٰی شعار ہوئے،
54. اور لوط (علیہ السلام) کو (یاد کریں) جب انہوں نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو حالانکہ تم دیکھتے (بھی) ہو،
55. کیا تم اپنی نفسانی خواہش پوری کرنے کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مَردوں کے پاس جاتے ہو بلکہ تم جاہل لوگ ہو،
56. تو ان کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ وہ کہنے لگے: تم لوط کے گھر والوں کو اپنی بستی سے نکال دو یہ بڑے پاک باز بنتے ہیں،
57. پس ہم نے لوط (علیہ السلام) کو اور ان کے گھر والوں کو نجات بخشی سوائے ان کی بیوی کے کہ ہم نے اسے (عذاب کے لئے) پیچھے رہ جانے والوں میں سے مقرر کر لیا تھا،
58. اور ہم نے ان پر خوب (پتھروں کی) بارش برسائی، سو (ان) ڈرائے گئے لوگوں پر (پتھروں کی) بارش نہایت ہی بری تھی۔،
59. فرما دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے منتخب (برگزیدہ) بندوں پر سلامتی ہو، کیا اللہ ہی بہتر ہے یا وہ (معبودانِ باطلہ) جنہیں یہ لوگ (اس کا) شریک ٹھہراتے ہیں،
60. بلکہ وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور تمہارے لئے آسمانی فضا سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) سے تازہ اور خوش نما باغات اُگائے؟ تمہارے لئے ممکن نہ تھا کہ تم ان (باغات) کے درخت اُگا سکتے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو (راہِ حق سے) پرے ہٹ رہے ہیں،
61. بلکہ وہ کون ہے جس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے درمیان نہریں بنائیں اور اس کے لئے بھاری پہاڑ بنائے۔ اور (کھاری اور شیریں) دو سمندروں کے درمیان آڑ بنائی؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ بلکہ ان (کفار) میں سے اکثر لوگ بے علم ہیں،
62. بلکہ وہ کون ہے جو بے قرار شخص کی دعا قبول فرماتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور فرماتا ہے اور تمہیں زمین میں(پہلے لوگوں کا) وارث و جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو،
63. بلکہ وہ کون ہے جو تمہیں خشک و تر (یعنی زمین اور سمندر) کی تاریکیوں میں راستہ دکھاتا ہے اور جو ہواؤں کو اپنی (بارانِ) رحمت سے پہلے خوشخبری بنا کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی) معبود ہے؟ اللہ ان (معبودانِ باطلہ) سے برتر ہے جنہیں وہ شریک ٹھہراتے ہیں،
64. بلکہ وہ کون ہے جو مخلوق کو پہلی بار پیدا فرماتا ہے پھر اسی (عملِ تخلیق) کو دہرائے گا اور جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق عطا فرماتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور بھی)معبود ہے؟ فرما دیجئے: (اے مشرکو!) اپنی دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو،
65. فرمادیجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (اَز خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم بالذّات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) کب اٹھائے جائیں گے،
66. بلکہ آخرت کے بارے میں ان کا علم (اپنی) انتہاء کو پہنچ کر منقطع ہوگیا، مگر وہ اس سے متعلق محض شک میں ہی (مبتلاء) ہیں، بلکہ وہ اس (کے علمِ قطعی) سے اندھے ہیں،
67. اور کافر لوگ کہتے ہیں: کیا جب ہم اور ہمارے باپ دادا (مَر کر) مٹی ہوجائیں گے تو کیا ہم (پھر زندہ کر کے قبروں میں سے) نکالے جائیں گے،
68. درحقیقت اس کا وعدہ ہم سے (بھی) کیا گیا اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے (بھی)، یہ اگلے لوگوں کے من گھڑت افسانوں کے سوا کچھ نہیں،
69. فرما دیجئے: تم زمین میں سیر و سیاحت کرو پھر دیکھو مجرموں کا انجام کیسا ہوا،
70. اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ ان (کی باتوں) پر غم زدہ نہ ہوا کریں اور نہ اس مکر و فریب کے باعث جو وہ کر رہے ہیں تنگ دلی میں (مبتلاء) ہوں،
71. اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ (عذابِ آخرت کا) وعدہ کب پورا ہوگا،
72. فرما دیجئے: کچھ بعید نہیں کہ اس (عذاب) کا کچھ حصہ تمہارے نزدیک ہی آپہنچا ہو جسے تم بہت جلد طلب کر رہے ہو،
73. اور بیشک آپ کا رب لوگوں پر فضل (فرمانے) والا ہے لیکن ان میں سے اکثر لوگ شکر نہیں کرتے،
74. اور بیشک آپ کا رب ان (باتوں) کو ضرور جانتا ہے جو ان کے سینے (اندر) چھپائے ہوئے ہیں اور (ان باتوں کو بھی) جو یہ آشکار کرتے ہیں،
75. اور آسمان اور زمین میں کوئی (بھی) پوشیدہ چیز نہیں ہے مگر (وہ) روشن کتاب (لوح ِمحفوظ) میں (درج) ہے،
76. بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے وہ بیشتر چیزیں بیان کرتا ہے جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں،
77. اور بیشک یہ ہدایت ہے اور مومنوں کے لئے رحمت ہے،
78. اور بیشک آپ کا رب ان (مومنوں اور کافروں) کے درمیان اپنے حکم (عدل) سے فیصلہ فرمائے گا، اور وہ غالب ہے بہت جاننے والا ہے،
79. پس آپ اللہ پر بھروسہ کریں بیشک آپ صریح حق پر (قائم اور فائز) ہیں،
80. بیشک آپ نہ (تو حیاتِ ایمانی سے محروم) مُردوں کو (حق کی بات) سنا سکتے ہیں اور نہ ہی (ایسے) بہروں کو (ہدایت کی) پکار سنا سکتے ہیں جبکہ وہ (غلبۂ کفر کے باعث ہدایت سے) پیٹھ پھیر کر (قبولِ حق سے) رُوگرداں ہو رہے ہوں،
81. اور نہ ہی آپ (دل کے) اندھوں کو ان کی گمراہی سے (بچا کر) ہدایت دینے والے ہیں، آپ تو (فی الحقیقت) انہی کو سناتے ہیں جو (آپ کی دعوت قبول کر کے) ہماری آیتوں پر ایمان لے آتے ہیں سو وہی لوگ مسلمان ہیں (اور وہی زندہ کہلانے کے حق دار ہیں)،
82. اور جب ان پر (عذاب کا) فرمان پورا ہونے کا وقت آجائے گا تو ہم ان کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے گفتگو کرے گا کیونکہ لوگ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں کرتے تھے،
83. اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کا (ایک ایک) گروہ جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے سو وہ (اکٹھا چلنے کے لئے آگے کی طرف سے) روکے جائیں گے،
84. یہاں تک کہ جب وہ سب (مقامِ حساب پر) آپہنچیں گے تو ارشاد ہوگا کیا تم (بغیر غور و فکر کے) میری آیتوں کو جھٹلاتے تھے حالانکہ تم (اپنے ناقص) علم سے انہیں کاملاً جان بھی نہیں سکے تھے یا (تم خود ہی بتاؤ) اس کے علاوہ اور کیا (سبب) تھا جو تم (حق کی تکذیب) کیا کرتے تھے،
85. اور ان پر (ہمارا) وعدہ پورا ہوچکا اس وجہ سے کہ وہ ظلم کر تے رہے سو وہ (جواب میں) کچھ بول نہ سکیں گے،
86. کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات بنائی تاکہ وہ اس میں آرام کرسکیں اور دن کو (امورِ حیات کی نگرانی کے لئے) روشن (یعنی اشیاء کو دِکھانے اور سُجھانے والا) بنایا، بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں،
87. اور جس دن صُور پھونکا جائے گا تو وہ (سب لوگ) گھبرا جائیں گے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں مگر جنہیں اللہ چاہے گا (نہیں گھبرائیں گے)، اور سب اس کی بارگاہ میں عاجزی کرتے ہوئے حاضر ہوں گے،
88. اور (اے انسان!) تو پہاڑوں کو دیکھے گا تو خیال کرے گا کہ جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادل کے اڑنے کی طرح اڑ رہے ہوں گے۔ (یہ) اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کو (حکمت و تدبیر کے ساتھ) مضبوط و مستحکم بنا رکھا ہے۔ بیشک وہ ان سب (کاموں) سے خبردار ہے جو تم کرتے ہو،
89. جو شخص (اس دن) نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (جزا) ہوگی اور وہ لوگ اس دن گھبراہٹ سے محفوظ و مامون ہوں گے،
90. اور جو شخص برائی لے کر آئے گا تو ان کے منہ (دوزخ کی) آگ میں اوندھے ڈالے جائیں گے۔ بس تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا جو تم کیا کرتے تھے،
91. (آپ ان سے فرما دیجئے کہ) مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اس شہرِ (مکّہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے عزت و حُرمت والا بنایا ہے اور ہر چیز اُسی کی (مِلک) ہے اور مجھے (یہ) حکم (بھی) دیا گیا ہے کہ میں (اللہ کے) فرمانبرداروں میں رہوں،
92. نیز یہ کہ میں قرآن پڑھ کر سناتا رہوں سو جس شخص نے ہدایت قبول کی تو اس نے اپنے ہی فائدہ کے لئے راہِ راست اختیار کی، اور جو بہکا رہا تو آپ فرما دیں کہ میں تو صِرف ڈر سنانے والوں میں سے ہوں،
93. اور آپ فرمادیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں وہ عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے گا سو تم انہیں پہچان لو گے، اور آپ کا رب ان کاموں سے بے خبر نہیں جو تم انجام دیتے ہو،