1. بیشک ایمان والے مراد پا گئے،
2. جو لوگ اپنی نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں،
3. اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں،
4. اور جو (ہمیشہ) زکوٰۃ ادا (کر کے اپنی جان و مال کو پاک) کرتے رہتے ہیں،
5. اور جو (دائماً) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں،
6. سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں، بیشک (احکامِ شریعت کے مطابق ان کے پاس جانے سے) ان پر کوئی ملامت نہیں،
7. پھر جو شخص ان (حلال عورتوں) کے سوا کسی اور کا خواہش مند ہوا تو ایسے لوگ ہی حد سے تجاوز کرنے والے (سرکش) ہیں،
8. اور جو لوگ اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کی پاسداری کرنے والے ہیں،
9. اور جو اپنی نمازوں کی (مداومت کے ساتھ) حفاظت کرنے والے ہیں،
10. یہی لوگ (جنت کے) وارث ہیں،
11. یہ لوگ جنت کے سب سے اعلیٰ باغات (جہاں تمام نعمتوں، راحتوں اور قربِ الٰہی کی لذتوں کی کثرت ہوگی ان) کی وراثت (بھی) پائیں گے، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے،
12. اور بیشک ہم نے انسان کی تخلیق (کی ابتداء) مٹی (کے کیمیائی اجزاء) کے خلاصہ سے فرمائی،
13. پھر اسے نطفہ (تولیدی قطرہ) بنا کر ایک مضبوط جگہ (رحمِ مادر) میں رکھا،
14. پھر ہم نے اس نطفہ کو (رحمِ مادر کے اندر جونک کی صورت میں) معلّق وجود بنا دیا، پھر ہم نے اس معلّق وجود کو ایک (ایسا) لوتھڑا بنا دیا جو دانتوں سے چبایا ہوا لگتا ہے، پھر ہم نے اس لوتھڑے سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنایا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت (اور پٹھے) چڑھائے، پھر ہم نے اسے تخلیق کی دوسری صورت میں (بدل کر تدریجاً) نشو و نما دی، پھر اللہ نے (اسے) بڑھا (کر محکم وجود بنا) دیا جو سب سے بہتر پیدا فرمانے والا ہے،
15. پھر بیشک تم اس (زندگی) کے بعد ضرور مرنے والے ہو،
16. پھر بیشک تم قیامت کے دن (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے،
17. اور بیشک ہم نے تمہارے اوپر (کرّۂ اَرضی کے گرد فضائے بسیط میں نظامِ کائنات کی حفاظت کے لئے) سات راستے (یعنی سات مقناطیسی پٹیاں یا میدان) بنائے ہیں، اور ہم (کائنات کی) تخلیق (اور اس کی حفاطت کے تقاضوں) سے بے خبر نہ تھے،
18. اور ہم ایک اندازہ کے مطابق (عرصہ دراز تک) بادلوں سے پانی برساتے رہے، پھر (جب زمین ٹھنڈی ہوگئی تو) ہم نے اس پانی کو زمین (کی نشیبی جگہوں) میں ٹھہرا دیا (جس سے ابتدائی سمندر وجود میں آئے) اور بیشک ہم اسے (بخارات بنا کر) اڑا دینے پر بھی قدرت رکھتے ہیں،
19. پھر ہم نے تمہارے لئے اس سے (درجہ بہ درجہ یعنی پہلے ابتدائی نباتات پھر بڑے پودے پھر درخت وجود میں لاتے ہوئے) کھجور اور انگور کے باغات بنا دیئے (مزید برآں) تمہارے لئے زمین میں (اور بھی) بہت سے پھل اور میوے (پیدا کئے) اور (اب) تم ان میں سے کھاتے ہو،
20. اور یہ درخت (زیتون بھی ہم نے پیدا کیا ہے) جو طورِ سینا سے نکلتا ہے (اور) تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن لے کر اگتا ہے،
21. اور بیشک تمہارے لئے چوپایوں میں (بھی) غور طلب پہلو ہیں، جو کچھ ان کے شکموں میں ہوتا ہے ہم تمہیں اس میں سے (بعض اجزاء کو دودھ بنا کر) پلاتے ہیں اور تمہارے لئے ان میں (اور بھی) بہت سے فوائد ہیں اور تم ان میں سے (بعض کو) کھاتے (بھی) ہو،
22. اور ان پر اور کشتیوں پر تم سوار (بھی) کئے جاتے ہو،
23. اور بیشک ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے فرمایا: اے لوگو! تم اللہ کی عبادت کیا کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تو کیا تم نہیں ڈرتے،
24. تو ان کی قوم کے سردار (اور وڈیرے) جو کفر کر رہے تھے کہنے لگے: یہ شخص محض تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے (اس کے سوا کچھ نہیں)، یہ تم پر (اپنی) فضیلت و برتری قائم کرنا چاہتا ہے، اور اگر اللہ (ہدایت کے لئے کسی پیغمبر کو بھیجنا) چاہتا تو فرشتوں کو اتار دیتا، ہم نے تو یہ بات (کہ ہمارے جیسا ہی ایک شخص ہمارا رسول بنا دیا جائے) اپنے اگلے آباء و اجداد میں (کبھی) نہیں سنی،
25. یہ شخص تو سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اسے دیوانگی (کا عارضہ لاحق ہو گیا) ہے سو تم ایک عرصہ تک اس کا انتظار کرو (دیکھو آگے کیا کرتا ہے)،
26. نوح (علیہ السلام) نے عرض کیا: اے میرے رب! میری مدد فرما کیونکہ انہوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے،
27. پھر ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ تم ہماری نگرانی میں اور ہمارے حکم کے مطابق ایک کشتی بناؤ سو جب ہمارا حکمِ (عذاب) آجائے اور تنور (بھر کر پانی) ابلنے لگے تو تم اس میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو جوڑے (نر و مادہ) بٹھا لینا اور اپنے گھر والوں کو بھی (اس میں سوار کر لینا) سوائے ان میں سے اس شخص کے جس پر فرمانِ (عذاب) پہلے ہی صادر ہو چکا ہے، اور مجھ سے ان لوگوں کے بارے میں کچھ عرض بھی نہ کرنا جنہوں نے (تمہارے انکار و استہزاء کی صورت میں) ظلم کیا ہے، وہ (بہر طور) ڈبو دیئے جائیں گے،
28. پھر جب تم اور تمہاری سنگت والے (لوگ) کشتی میں ٹھیک طرح سے بیٹھ جائیں تو کہنا (کہ) ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات بخشی،
29. اور عرض کرنا: اے میرے رب! مجھے با برکت منزل پر اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے،
30. بیشک اس (واقعہ) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں اور یقیناً ہم آزمائش کرنے والے ہیں،
31. پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قوم کو پیدا فرمایا،
32. سو ہم نے ان میں (بھی) انہی میں سے رسول بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، تو کیا تم نہیں ڈرتے،
33. اور ان کی قوم کے (بھی وہی) سردار (اور وڈیرے) بول اٹھے جو کفر کر رہے تھے اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلاتے تھے اور ہم نے انہیں دنیوی زندگی میں (مال و دولت کی کثرت کے باعث) آسودگی (بھی) دے رکھی تھی (لوگوں سے کہنے لگے) کہ یہ شخص تو محض تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے، وہی چیزیں کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی کچھ پیتا ہے جو تم پیتے ہو،
34. اور اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت کر لی تو پھر تم ضرور خسارہ اٹھانے والے ہو گے،
35. کیا یہ (شخص) تم سے یہ وعدہ کر رہا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور تم مٹی اور (بوسیدہ) ہڈیاں ہو جاؤ گے تو تم (دوبارہ زندہ ہو کر) نکالے جاؤ گے،
36. بعید (اَز قیاس) بعید (اَز وقوع) ہیں وہ باتیں جن کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے،
37. وہ (آخرت کی زندگی کچھ) نہیں ہماری زندگانی تو یہی دنیا ہے ہم (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور (بس ختم)، ہم (دوبارہ) نہیں اٹھائے جائیں گے،
38. یہ تو محض ایسا شخص ہے جس نے اللہ پر جھوٹا بہتان لگایا ہے اور ہم بالکل اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں،
39. (پیغمبر نے) عرض کیا: اے میرے رب! میری مدد فرما اس صورتحال میں کہ انہوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے،
40. ارشاد ہوا: تھوڑی ہی دیر میں وہ پشیماں ہو کر رہ جائیں گے،
41. پس سچے وعدہ کے مطابق انہیں خوفناک آواز نے آپکڑا سو ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا دیا، پس ظالم قوم کے لئے (ہماری رحمت سے) دوری و محرومی ہے،
42. پھر ہم نے ان کے بعد (یکے بعد دیگرے) دوسری امتوں کو پیدا فرمایا،
43. کوئی بھی امت اپنے وقت مقرر سے نہ آگے بڑھ سکتی ہے اور نہ وہ لوگ پیچھے ہٹ سکتے ہیں،
44. پھر ہم نے پے در پے اپنے رسولوں کو بھیجا۔ جب بھی کسی امت کے پاس اس کا رسول آتا وہ اسے جھٹلا دیتے تو ہم (بھی) ان میں سے بعض کو بعض کے پیچھے (ہلاک در ہلاک) کرتے چلے گئے اور ہم نے انہیں داستانیں بنا ڈالا، پس ہلاکت ہو ان لوگوں کے لئے جو ایمان نہیں لاتے،
45. پھر ہم نے موسٰی (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو اپنی نشانیاں اور روشن دلیل دے کر بھیجا،
46. فرعون اور اس (کی قوم) کے سرداروں کی طرف تو انہوں نے بھی تکبّر و رعونت سے کام لیا اور وہ بھی (بڑے) ظالم و سرکش لوگ تھے،
47. سو انہوں نے (بھی یہی) کہا کہ کیا ہم اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لے آئیں حالانکہ ان کی قوم کے لوگ ہماری پرستش کرتے ہیں،
48. پس انہوں نے (بھی) ان دونوں کو جھٹلا دیا سو وہ بھی ہلاک کئے گئے لوگوں میں سے ہو گئے،
49. اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب عطا فرمائی تاکہ وہ لوگ ہدایت پاجائیں،
50. اور ہم نے ابن مریم (عیسٰی علیہ السلام) کو اور ان کی ماں کو اپنی (زبردست) نشانی بنایا اور ہم نے ان دونوں کو ایک (ایسی) بلند زمین میں سکونت بخشی جو بآسائش و آرام رہنے کے قابل (بھی) تھی اور وہاں آنکھوں کے (نظارے کے) لئے بہتے پانی (یعنی نہریں، آبشاریں اور چشمے بھی) تھے،
51. اے رُسُلِ (عظام!) تم پاکیزہ چیزوں میں سے کھایا کرو (جیسا کہ تمہارا معمول ہے) اور نیک عمل کرتے رہو، بیشک میں جو عمل بھی تم کرتے ہو اس سے خوب واقف ہوں،
52. اور بیشک یہ تمہاری امت ہے (جو حقیقت میں) ایک ہی امت (ہے) اور میں تمہارا رب ہوں سو مجھ سے ڈرا کرو،
53. پس انہوں نے اپنے (دین کے) امر کو آپس میں اختلاف کر کے فرقہ فرقہ کر ڈالا، ہر فرقہ والے اسی قدر (دین کے حصہ) سے جو ان کے پاس ہے خوش ہیں،
54. پس آپ ان کو ایک عرصہ تک ان کے نشۂ جہالت و ضلالت میں چھوڑے رکھئے،
55. کیا وہ لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو (دنیا میں) مال و اولاد کے ذریعہ ان کی مدد کر رہے ہیں،
56. تو ہم ان کے لئے بھلائیوں (کی فراہمی) میں جلدی کر رہے ہیں، (ایسا نہیں) بلکہ انہیں شعور ہی نہیں ہے،
57. بیشک جو لوگ اپنے رب کی خشیّت سے مضطرب اور لرزاں رہتے ہیں،
58. اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں،
59. اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ (کسی کو) شریک نہیں ٹھہراتے،
60. اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں (کہیں یہ نامقبول نہ ہو جائے)،
61. یہی لوگ بھلائیوں (کے سمیٹنے میں) جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں،
62. اور ہم کسی جان کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی استعداد کے مطابق اور ہمارے پاس نوشتۂ (اَعمال موجود) ہے جو سچ سچ کہہ دے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا،
63. بلکہ ان کے دل اس (قرآن کے پیغام) سے غفلت میں (پڑے) ہیں اور اس کے سوا (بھی) ان کے کئی اور (برے) اعمال ہیں جن پر وہ عمل پیرا ہیں،
64. یہاں تک کہ جب ہم ان کے امیر اور آسودہ حال لوگوں کو عذاب کی گرفت میں لیں گے تو اس وقت وہ چیخ اٹھیں گے،
65. (ان سے کہا جائے گا:) تم آج مت چیخو، بیشک ہماری طرف سے تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گے،
66. بیشک میری آیتیں تم پر پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں تو تم ایڑیوں کے بل الٹے پلٹ جایا کرتے تھے،
67. اس سے غرور و تکبّر کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں بے ہودہ گوئی کرتے تھے،
68. سو کیا انہوں نے اس فرمانِ (الٰہی) میں غور و خوض نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آگئی ہے جو ان کے اگلے باپ دادا کے پاس نہیں آئی تھی،
69. یا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا سو (اس لئے) وہ اس کے منکر ہو گئے ہیں،
70. یا یہ کہتے ہیں کہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جنون (لاحق) ہو گیا ہے، (ایسا ہر گز نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر تشریف لائے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو پسند نہیں کرتے،
71. اور اگر حق (تعالیٰ) ان کی خواہشات کی پیروی کرتا تو (سارے) آسمان اور زمین اور جو (مخلوقات و موجودات) ان میں ہیں سب تباہ و برباد ہو جاتے بلکہ ہم ان کے پاس وہ (قرآن) لائے ہیں جس میں ان کی عزت و شرف (اور ناموری کا راز) ہے سو وہ اپنی عزت ہی سے منہ پھیر رہے ہیں،
72. کیا آپ ان سے (تبلیغِ رسالت پر) کچھ اجرت مانگتے ہیں؟ (ایسا بھی نہیں ہے) آپ کے تو رب کا اجر (ہی بہت) بہتر ہے اور وہ سب سے بہتر روزی رساں ہے،
73. اور بیشک آپ تو (انہی کے بھلے کے لئے) انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے ہیں،
74. اور بیشک جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے (وہ) ضرور (سیدھی) راہ سے کترائے رہتے ہیں،
75. اور اگر ہم ان پر رحم فرما دیں اور جو تکلیف انہیں (لاحق) ہے اسے دور کر دیں تو وہ بھٹکتے ہوئے اپنی سرکشی میں مزید پکے ہو جائیں گے،
76. اور بیشک ہم نے انہیں عذاب میں پکڑ لیا پھر (بھی) انہوں نے اپنے رب کے لئے عاجزی اختیار نہ کی اور نہ وہ (اس کے حضور) گڑگڑائے،
77. یہاں تک کہ جب ہم ان پر نہایت سخت عذاب کا دروازہ کھول دیں گے (تو) اس وقت وہ اس میں انتہائی حیرت سے ساکت و مایوس (پڑے) رہیں گے،
78. اور وہی ہے جو تمہارے لئے کان اور آنکھیں اور دل (و دماغ) رفتہ رفتہ وجود میں لایا، (مگر) تم لوگ بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو،
79. اور وہی ہے جس نے تمہیں روئے زمین پر پیدا کر کے پھیلا دیا اور تم اسی کے حضور جمع کئے جاؤ گے،
80. اور وہی ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے اور شب و روز کا گردش کرنا (بھی) اسی کے اختیار میں ہے۔ سو کیا تم سمجھتے نہیں ہو،
81. بلکہ یہ لوگ (بھی) اسی طرح کی باتیں کرتے ہیں جس طرح کی اگلے (کافر) کرتے رہے ہیں،
82. یہ کہتے ہیں کہ جب ہم مر جائیں گے اور ہم خاک اور (بوسیدہ) ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم (پھر زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے،
83. بیشک ہم سے (بھی) اور ہمارے آباء و اجداد سے (بھی) پہلے یہی وعدہ کیا جاتا رہا (ہے)، یہ (باتیں) محض پہلے لوگوں کے افسانے ہیں،
84. (ان سے) فرمائیے کہ زمین اور جو کوئی اس میں (رہ رہا) ہے (سب) کس کی مِلک ہے، اگر تم (کچھ) جانتے ہو،
85. وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ (سب کچھ) اللہ کا ہے، (تو) آپ فرمائیں: پھر تم نصیحت قبول کیوں نہیں کرتے؟،
86. (ان سے دریافت) فرمائیے کہ ساتوں آسمانوں کا اور عرشِ عظیم (یعنی ساری کائنات کے اقتدارِ اعلیٰ) کا مالک کون ہے؟،
87. وہ فوراً کہیں گے: یہ (سب کچھ) اللہ کا ہے (تو) آپ فرمائیں: پھر تم ڈرتے کیوں نہیں ہو،
88. آپ (ان سے) فرمائیے کہ وہ کون ہے جس کے دستِ قدرت میں ہر چیز کی کامل ملکیت ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور جس کے خلاف (کوئی) پناہ نہیں دی جا سکتی، اگر تم (کچھ) جانتے ہو،
89. وہ فوراً کہیں گے: یہ (سب شانیں) اللہ ہی کے لئے ہیں، (تو) آپ فرمائیں: پھر تمہیں کہاں سے (جادو کی طرح) فریب دیا جا رہا ہے،
90. بلکہ ہم نے انہیں حق پہنچا دیا اور بیشک وہ جھوٹے ہیں،
91. اللہ نے (اپنے لئے) کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ورنہ ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو ضرور (الگ) لے جاتا اور یقیناً وہ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرتے (اور پوری کائنات میں فساد بپا ہو جاتا)۔ اللہ ان باتوں سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں،
92. (وہ) پوشیدہ اور آشکار (سب چیزوں) کا جاننے والا ہے سو وہ ان چیزوں سے بلند و برتر ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں،
93. آپ (دعا) فرمائیے کہ اے میرے رب! اگر تو مجھے وہ (عذاب) دکھانے لگے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے،
94. (تو) اے میرے رب! مجھے ظالم قوم میں شامل نہ فرمانا،
95. اور بیشک ہم اس بات پرضرور قادر ہیں کہ ہم آپ کو وہ (عذاب) دکھا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں،
96. آپ برائی کو ایسے طریقہ سے دفع کیا کریں جو سب سے بہتر ہو، ہم ان (باتوں) کو خوب جانتے ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں،
97. اور آپ (دعا) فرمائیے: اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں،
98. اور اے میرے رب! میں اس بات سے (بھی) تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں،
99. یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائے گی (تو) وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے،
100. تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ ہر گز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطورِ حسرت) کہہ رہا ہوگا اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے،
101. پھر جب صور پھونکا جائے گا تو ان کے درمیان اس دن نہ رشتے (باقی) رہیں گے اور نہ وہ ایک دوسرے کا حال پوچھ سکیں گے،
102. پس جن کے پلڑے (زیادہ اعمال کے باعث) بھاری ہوں گے تو وہی لوگ کامیاب و کامران ہوں گے،
103. اور جن کے پلڑے (اعمال کا وزن نہ ہونے کے باعث) ہلکے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا وہ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والے ہیں،
104. ان کے چہروں کو آگ جھلس دے گی اور وہ اس میں دانت نکلے بگڑے ہوئے منہ کے ساتھ پڑے ہوں گے،
105. (ان سے کہا جائے گا:) کیا تم پر میری آیتیں پڑھ پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں پھر تم انہیں جھٹلایا کرتے تھے،
106. وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم یقیناً گمراہ قوم تھے،
107. اے ہمارے رب! تو ہمیں یہاں سے نکال دے پھر اگر ہم (اسی گمراہی کا) اعادہ کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے،
108. ارشاد ہو گا: (اب) اسی میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو،
109. بیشک میرے بندوں میں سے ایک طبقہ ایسا بھی تھا جو (میرے حضور) عرض کیا کرتے تھے: اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے ہیں پس تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو (ہی) سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے،
110. تو تم ان کا تمسخر کیا کرتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے تمہیں میری یاد بھی بھلا دی اور تم (صرف) ان کی تضحیک ہی کرتے رہتے تھے،
111. بیشک آج میں نے انہیں ان کے صبر کا جو وہ کرتے رہے (یہ) صلہ عطا فرمایا ہے کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں،
112. ارشاد ہو گا کہ تم زمین میں برسوں کے شمار سے کتنی مدت ٹھہرے رہے (ہو)،
113. وہ کہیں گے: ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے (ہوں گے) آپ اعداد و شمار کرنے والوں سے پوچھ لیں،
114. ارشاد ہوگا: تم (وہاں) نہیں ٹھہرے مگر بہت ہی تھوڑا عرصہ، کاش! تم (یہ بات وہیں) جانتے ہوتے،
115. سو کیا تم نے یہ خیال کر لیا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار (و بے مقصد) پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟،
116. پس اللہ جو بادشاہِ حقیقی ہے بلند و برتر ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، بزرگی اور عزت والے عرش (اقتدار) کا (وہی) مالک ہے،
117. اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش کرتا ہے اس کے پاس اس کی کوئی سند نہیں ہے سو اس کا حساب اس کے رب ہی کے پاس ہے۔ بیشک کافر لوگ فلاح نہیں پائیں گے،
118. اور آپ عرض کیجئے: اے میرے رب! تو بخش دے اور رحم فرما اور تو (ہی) سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے،