1. طا، ہا (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)،
2. (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اس لئے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں،
3. مگر (اسے) اس شخص کے لئے نصیحت (بنا کر اتارا) ہے جو (اپنے رب سے) ڈرتا ہے،
4. (یہ) اس (اللہ) کی طرف سے اتارا ہوا ہے جس نے زمین اور بلند و بالا آسمان پیدا فرمائے،
5. (وہ) نہایت رحمت والا (ہے) جو عرش (یعنی جملہ نظام ہائے کائنات کے اقتدار) پر متمکّن ہوگیا،
6. (پس) جو کچھ آسمانوں (کی بالائی نوری کائناتوں اور خلائی مادی کائناتوں) میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان (فضائی اور ہوائی کرّوں میں) ہے اور جو کچھ سطح ارضی کے نیچے آخری تہہ تک ہے سب اسی کے (نظام اور قدرت کے تابع) ہیں،
7. اور اگر آپ ذکر و دعا میں جہر (یعنی آواز بلند) کریں (تو بھی کوئی حرج نہیں) وہ تو سِرّ (یعنی دلوں کے رازوں) اور اخفی (یعنی سب سے زیادہ مخفی بھیدوں) کو بھی جانتا ہے (تو بلند التجاؤں کو کیوں نہیں سنے گا)،
8. اللہ (اسی کا اسمِ ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں (گویا تم اسی کا اثبات کرو اور باقی سب جھوٹے معبودوں کی نفی کر دو)، اس کے لئے (اور بھی) بہت خوبصورت نام ہیں (جو اس کی حسین و جمیل صفات کا پتہ دیتے ہیں)،
9. اور کیا آپ کے پاس موسٰی (علیہ السلام) کی خبر آچکی ہے،
10. جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے) شاید میں اس میں سے کوئی چنگاری تمہارے لئے (بھی) لے آؤں یا میں اس آگ پر (سے وہ) رہنمائی پا لوں (جس کی تلاش میں سرگرداں ہوں)،
11. پھر جب وہ اس (آگ) کے پاس پہنچے تو ندا کی گئی: اے موسٰی،
12. بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو،
13. اور میں نے تمہیں (اپنی رسالت کے لئے) چن لیا ہے پس تم پوری توجہ سے سنو جو تمہیں وحی کی جا رہی ہے،
14. بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں سو تم میری عبادت کیا کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو،
15. بیشک قیامت کی گھڑی آنے والی ہے، میں اسے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر جان کو اس (عمل) کا بدلہ دیا جائے جس کے لئے وہ کوشاں ہے،
16. پس تمہیں وہ شخص اس (کے دھیان) سے روکے نہ رکھے جو (خود) اس پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشِ (نفس) کا پیرو ہے ورنہ تم (بھی) ہلاک ہوجاؤ گے،
17. اور یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسی،
18. انہوں نے کہا: یہ میری لاٹھی ہے، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور میں اس سے اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں اور اس میں میرے لئے کئی اور فائدے بھی ہیں،
19. ارشاد ہوا: اے موسٰی! اسے (زمین پر) ڈال دو،
20. پس انہوں نے اسے (زمین پر) ڈال دیا تو وہ اچانک سانپ ہوگیا (جو ادھر ادھر) دوڑنے لگا،
21. ارشاد فرمایا: اسے پکڑ لو اور مت ڈرو ہم اسے ابھی اس کی پہلی حالت پر لوٹا دیں گے،
22. اور (حکم ہوا:) اپنا ہاتھ اپنی بغل میں دبا لو وہ بغیر کسی بیماری کے سفید چمک دار ہو کر نکلے گا (یہ) دوسری نشانی ہے،
23. یہ اس لئے (کر رہے ہیں) کہ ہم تمہیں اپنی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں،
24. تم فرعون کے پاس جاؤ وہ (نافرمانی و سرکشی میں) حد سے بڑھ گیا ہے،
25. (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے،
26. اور میرا کارِ (رسالت) میرے لئے آسان فرما دے،
27. اور میری زبان کی گرہ کھول دے،
28. کہ لوگ میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں،
29. اور میرے گھر والوں میں سے میرا ایک وزیر بنا دے،
30. (وہ) میرا بھائی ہارون (علیہ السلام) ہو،
31. اس سے میری کمرِ ہمت مضبوط فرما دے،
32. اور اسے میرے کارِ (رسالت) میں شریک فرما دے،
33. تاکہ ہم (دونوں) کثرت سے تیری تسبیح کیا کریں،
34. اور ہم کثرت سے تیرا ذکر کیا کریں،
35. بیشک تو ہمیں (سب حالات کے تناظر میں) خوب دیکھنے والا ہے،
36. (اللہ نے) ارشاد فرمایا: اے موسٰی! تمہاری ہر مانگ تمہیں عطا کردی،
37. اور بیشک ہم نے تم پر ایک اور بار (اس سے پہلے بھی) احسان فرمایا تھا،
38. جب ہم نے تمہاری والدہ کے دل میں وہ بات ڈال دی جو ڈالی گئی تھی،
39. کہ تم اس (موسٰی علیہ السلام) کو صندوق میں رکھ دو پھر اس (صندوق) کو دریا میں ڈال دو پھر دریا اسے کنارے کے ساتھ آلگائے گا، اسے میرا دشمن اور اس کا دشمن اٹھا لے گا، اور میں نے تجھ پر اپنی جناب سے (خاص) محبت کا پرتَو ڈال دیا ہے (یعنی تیری صورت کو اس قدر پیاری اور من موہنی بنا دیا ہے کہ جو تجھے دیکھے گا فریفتہ ہو جائے گا)، اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ تمہاری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے،
40. اور جب تمہاری بہن (اجنبی بن کر) چلتے چلتے (فرعون کے گھر والوں سے) کہنے لگی: کیا میں تمہیں کسی (ایسی عورت) کی نشاندہی کر دوں جو اس (بچہ) کی پرورش کر دے، پھر ہم نے تم کو تمہاری والدہ کی طرف (پرورش کے بہانے) واپس لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھ بھی ٹھنڈی ہوتی رہے اور وہ رنجیدہ بھی نہ ہو، اور تم نے (قومِ فرعون کے) ایک (کافر) شخص کو مار ڈالا تھا پھر ہم نے تمہیں (اس) غم سے (بھی) نجات بخشی اور ہم نے تمہیں بہت سی آزمائشوں سے گزار کر خوب جانچا، پھر تم کئی سال اہلِ مدین میں ٹھہرے رہے پھر تم (اللہ کے) مقرر کردہ وقت پر (یہاں) آگئے اے موسٰی! (اس وقت ان کی عمر ٹھیک چالیس برس ہوگئی تھی)،
41. اور (اب) میں نے تمہیں اپنے (امرِ رسالت اور خصوصی انعام کے) لئے چن لیا ہے،
42. تم اور تمہارا بھائی (ہارون) میری نشانیاں لے کر جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا،
43. تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ بیشک وہ سرکشی میں حد سے گزر چکا ہے،
44. سو تم دونوں اس سے نرم (انداز میں) گفتگو کرنا شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا (میرے غضب سے) ڈرنے لگے،
45. دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! بیشک ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے (گا) یا (زیادہ) سرکش ہوجائے (گا)،
46. ارشاد فرمایا: تم دونوں نہ ڈرو بیشک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں میں (سب کچھ) سنتا اور دیکھتا ہوں،
47. پس تم دونوں اس کے پاس جاؤ اور کہو: ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں سو تو بنی اسرائیل کو (اپنی غلامی سے آزاد کرکے) ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں (مزید) اذیت نہ پہنچا، بیشک ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں، اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی،
48. بیشک ہماری طرف وحی بھیجی گئی ہے کہ عذاب (ہر) اس شخص پر ہوگا جو (رسول کو) جھٹلائے گا اور (اس سے) منہ پھیر لے گا،
49. (فرعون نے) کہا: تو اے موسٰی! تم دونوں کا رب کون ہے،
50. (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: ہمارا رب وہی ہے جس نے ہر چیز کو (اس کے لائق) وجود بخشا پھر (اس کے حسبِ حال) اس کی رہنمائی کی،
51. (فرعون نے) کہا: تو (ان) پہلی قوموں کا کیا حال ہوا (جو تمہارے رب کو نہیں مانتی تھیں)،
52. (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: ان کا علم میرے رب کے پاس کتاب میں (محفوظ) ہے، نہ میرا رب بھٹکتا ہے اور نہ بھولتا ہے،
53. وہی ہے جس نے زمین کو تمہارے رہنے کی جگہ بنایا اور اس میں تمہارے (سفر کرنے کے) لئے راستے بنائے اور آسمان کی جانب سے پانی اتارا، پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعے (زمین سے) انواع و اقسام کی نباتات کے جوڑے نکال دیئے،
54. تم کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چراؤ، بیشک اس میں دانش مندوں کے لئے نشانیاں ہیں،
55. (زمین کی) اسی (مٹی) سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی میں ہم تمہیں لوٹائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں دوسری مرتبہ (پھر) نکالیں گے،
56. اور بیشک ہم نے اس (فرعون) کو اپنی ساری نشانیاں (جو موسٰی اور ہارون علیھما السلام کو دی گئی تھیں) دکھائیں مگر اس نے جھٹلایا اور (ماننے سے) انکار کر دیا،
57. اس نے کہا: اے موسٰی! کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ تم اپنے جادو کے ذریعہ ہمیں ہمارے ملک سے نکال دو،
58. سو ہم بھی تمہارے پاس اسی کی مانند جادو لائیں گے تم ہمارے اور اپنے درمیان (مقابلہ کے لئے) وعدہ طے کرلو جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں اور نہ ہی تم، (مقابلہ کی جگہ) کھلا اور ہموار میدان ہو،
59. (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تمہارے وعدے کا دن یومِ عید (سالانہ جشن کا دن) ہے اور یہ کہ (اس دن) سارے لوگ چاشت کے وقت جمع ہوجائیں،
60. پھر فرعون (مجلس سے) واپس مڑ گیا سو اس نے اپنے مکر و فریب (کی تدبیروں) کو اکٹھا کیا پھر (مقررہ وقت پر) آگیا،
61. موسٰی (علیہ السلام) نے ان (جادوگروں) سے فرمایا: تم پر افسوس (خبردار!) اللہ پر جھوٹا بہتان مت باندھنا ورنہ وہ تمہیں عذاب کے ذریعے تباہ و برباد کردے گا اور واقعی وہ شخص نامراد ہوا جس نے (اللہ پر) بہتان باندھا،
62. چنانچہ وہ (جادوگر) اپنے معاملہ میں باہم جھگڑ پڑے اور چپکے چپکے سرگوشیاں کرنے لگے،
63. کہنے لگے: یہ دونوں واقعی جادوگر ہیں جو یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ تمہیں جادو کے ذریعہ تمہاری سر زمین سے نکال باہر کریں اور تمہارے مثالی مذہب و ثقافت کو نابود کردیں،
64. (انہوں نے باہم فیصلہ کیا) پس تم (جادو کی) اپنی ساری تدابیر جمع کر لو پھر قطار باندھ کر (اکٹھے ہی) میدان میں آجاؤ، اور آج کے دن وہی کامیاب رہے گا جو غالب آجائے گا،
65. (جادوگر) بولے: اے موسٰی! یا تو تم (اپنی چیز) ڈالو اور یا ہم ہی پہلے ڈالنے والے ہوجائیں،
66. (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: بلکہ تم ہی ڈال دو، پھر کیا تھا اچانک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ان کے جادو کے اثر سے موسٰی (علیہ السلام) کے خیال میں یوں محسوس ہونے لگیں جیسے وہ (میدان میں) دوڑ رہی ہیں،
67. تو موسٰی (علیہ السلام) اپنے دل میں ایک چھپا ہوا خوف سا پانے لگے،
68. ہم نے (موسٰی علیہ السلام سے) فرمایا: خوف مت کرو بیشک تم ہی غالب رہوگے،
69. اور تم (اس لاٹھی کو) جو تمہارے داہنے ہاتھ میں ہے (زمین پر) ڈال دو وہ اس (فریب) کو نگل جائے گی جو انہوں نے (مصنوعی طور پر) بنا رکھا ہے۔ جو کچھ انہوں نے بنا رکھا ہے (وہ تو) فقط جادوگر کا فریب ہے، اور جادوگر جہاں کہیں بھی آئے گا فلاح نہیں پائے گا،
70. (پھر ایسا ہی ہوا) پس سارے جادوگر سجدہ میں گر پڑے کہنے لگے: ہم ہارون اور موسٰی (علیہما السلام) کے رب پر ایمان لے آئے،
71. (فرعون) کہنے لگا: تم اس پر ایمان لے آئے ہو قبل اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں، بیشک وہ (موسٰی) تمہارا (بھی) بڑا (استاد) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے، پس (اب) میں ضرور تمہارے ہاتھ اور تمہارے پاؤں الٹی سمتوں سے کاٹوں گا اور تمہیں ضرور کھجور کے تنوں میں سولی چڑھاؤں گا اور تم ضرور جان لوگے کہ ہم میں سے کون عذاب دینے میں زیادہ سخت اور زیادہ مدت تک باقی رہنے والا ہے،
72. (جادوگروں نے) کہا: ہم تمہیں ہرگز ان واضح دلائل پر ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے پاس آچکے ہیں، اس (رب) کی قسم جس نے ہمیں پیدا فرمایا ہے! تو جو حکم کرنے والا ہے کر لے، تُو فقط (اس چند روزہ) دنیوی زندگی ہی سے متعلق فیصلہ کر سکتا ہے،
73. بیشک ہم اپنے رب پر ایمان لائے ہیں تاکہ وہ ہماری خطائیں بخش دے اور اسے بھی (معاف فرما دے) جس جادوگری پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، اور اللہ ہی بہتر ہے اور ہمیشہ باقی رہنے والا ہے،
74. بیشک جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم بن کر آئے گا تو بیشک اس کے لئے جہنم ہے، (اور وہ ایسا عذاب ہے کہ) نہ وہ اس میں مر سکے گا اور نہ ہی زندہ رہے گا،
75. اور جو شخص اس کے حضور مومن بن کر آئے گا (مزید یہ کہ) اس نے نیک عمل کئے ہوں گے تو ان ہی لوگوں کے لئے بلند درجات ہیں،
76. (وہ) سدا بہار باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں (وہ) ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اور یہ اس شخص کا صلہ ہے جو (کفر و معصیت کی آلودگی سے) پاک ہو گیا،
77. اور بیشک ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے کر نکل جاؤ، سو ان کے لئے دریا میں (اپنا عصا مار کر) خشک راستہ بنا لو، نہ (فرعون کے) آپکڑنے کا خوف کرو اور نہ (غرق ہونے کا) اندیشہ رکھو،
78. پھر فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ ان کا تعاقب کیا پس دریا (کی موجوں) نے انہیں ڈھانپ لیا جتنا بھی انہیں ڈھانپا،
79. اور فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کردیا اور انہیں سیدھے راستہ پر نہ لگایا،
80. اے بنی اسرائیل! (دیکھو) بیشک ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات بخشی اور ہم نے تم سے (کوہِ) طور کی داہنی جانب (آنے کا) وعدہ کیا اور (وہاں) ہم نے تم پر من و سلوٰی اتارا،
81. (اور تم سے فرمایا:) ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جن کی ہم نے تمہیں روزی دی ہے اور اس میں حد سے نہ بڑھو ورنہ تم پر میرا غضب واجب ہو جائے گا، اور جس پر میرا غضب واجب ہوگیا سو وہ واقعی ہلاک ہوگیا،
82. اور بیشک میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کو جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر (قائم) رہا،
83. اور اے موسٰی! تم نے اپنی قوم سے (پہلے طور پر آجانے میں) جلدی کیوں کی،
84. (موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: وہ لوگ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں اور میں نے (غلبۂ شوق و محبت میں) تیرے حضور پہنچنے میں جلدی کی ہے اے میرے رب! تاکہ تو راضی ہو جائے،
85. ارشاد ہوا: بیشک ہم نے تمہارے (آنے کے) بعد تمہاری قوم کو فتنہ میں مبتلا کر دیا ہے اور انہیں سامری نے گمراہ کر ڈالا ہے،
86. پس موسٰی (علیہ السلام) اپنی قوم کی طرف سخت غضبناک (اور) رنجیدہ ہوکر پلٹ گئے (اور) فرمایا: اے میری قوم! کیا تمہارے رب نے تم سے ایک اچھا وعدہ نہیں فرمایا تھا، کیا تم پر وعدہ (کے پورے ہونے) میں طویل مدت گزر گئی تھی، کیا تم نے یہ چاہا کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے غضب واجب (اور نازل) ہوجائے؟ پس تم نے میرے وعدہ کی خلاف ورزی کی ہے،
87. وہ بولے: ہم نے اپنے اختیار سے آپ کے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کی مگر (ہوا یہ کہ) قوم کے زیورات کے بھاری بوجھ ہم پر لاد دیئے گئے تھے تو ہم نے انہیں (آگ میں) ڈال دیا پھر اسی طرح سامری نے (بھی) ڈال دیئے،
88. پھر اس (سامری) نے ان کے لئے (ان گلے ہوئے زیورات سے) ایک بچھڑے کا قالب (تیار کرکے) نکال لیا اس میں (سے) گائے کی سی آواز (نکلتی) تھی تو انہوں نے کہا: یہ تمہارا معبود ہے اور موسٰی (علیہ السلام) کا (بھی یہی) معبود ہے بس وہ (سامری یہاں پر) بھول گیا،
89. بھلا کیا وہ (اتنا بھی) نہیں دیکھتے تھے کہ وہ (بچھڑا) انہیں کسی بات کا جواب (بھی) نہیں دے سکتا اور نہ ان کے لئے کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہے اور نہ نفع کا،
90. اور بیشک ہارون (علیہ السلام) نے (بھی) ان کو اس سے پہلے (تنبیہاً) کہہ دیا تھا کہ اے قوم! تم اس (بچھڑے) کے ذریعہ تو بس فتنہ میں ہی مبتلا ہوگئے ہو، حالانکہ بیشک تمہارا رب (یہ نہیں وہی) رحمان ہے پس تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو،
91. وہ بولی: ہم تو اسی (کی پوجا) پر جمے رہیں گے تاوقتیکہ موسٰی (علیہ السلام) ہماری طرف پلٹ آئیں،
92. (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: اے ہارون! تم کو کس چیز نے روکے رکھا جب تم نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہو رہے ہیں،
93. (مزید یہ کہ تمہیں کس نے منع کیا کہ انہیں سختی سے روکنے میں) تم میرے طریقے کی پیروی نہ کرو، کیا تم نے میری نافرمانی کی،
94. (ہارون علیہ السلام نے) کہا: اے میری ماں کے بیٹے! آپ نہ میری داڑھی پکڑیں اور نہ میرا سر، میں (سختی کرنے میں) اس بات سے ڈرتا تھا کہ کہیں آپ یہ (نہ) کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل کے درمیان فرقہ بندی کردی ہے اور میرے قول کی نگہداشت نہیں کی،
95. (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: اے سامری! (بتا) تیرا کیا معاملہ ہے،
96. اس نے کہا: میں نے وہ چیز دیکھی جو ان لوگوں نے نہیں دیکھی تھی سو میں نے اُس فرستادہ (فرشتے) کے نقش قدم سے (جو آپ کے پاس آیا تھا) ایک مٹھی (مٹی کی) بھر لی پھر میں نے اسے (بچھڑے کے قالب میں) ڈال دیا اور اسی طرح میرے نفس نے مجھے (یہ بات) بھلی کر دکھائی،
97. (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: پس تو (یہاں سے نکل کر) چلا جا چنانچہ تیرے لئے (ساری) زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ تو (ہر کسی کو یہی) کہتا رہے: (مجھے) نہ چھونا (مجھے نہ چھونا)، اور بیشک تیرے لئے ایک اور وعدۂ (عذاب) بھی ہے جس کی ہرگز خلاف ورزی نہ ہوگی، اور تو اپنے اس (من گھڑت) معبود کی طرف دیکھ جس (کی پوجا) پر تو جم کر بیٹھا رہا، ہم اسے ضرور جلا ڈالیں گے پھر ہم اس (کی راکھ) کو ضرور دریا میں اچھی طرح بکھیر دیں گے،
98. (لوگو!) تمہارا معبود صرف (وہی) اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کو (اپنے) علم کے احاطہ میں لئے ہوئے ہے،
99. اس طرح ہم آپ کو (اے حبیبِ معظّم!) ان (قوموں) کی خبریں سناتے ہیں جو گزر چکی ہیں اور بیشک ہم نے آپ کو اپنی خاص جناب سے ذکر (یعنی نصیحت نامہ) عطا فرمایا ہے،
100. جو شخص اس سے روگردانی کرے گا تو بیشک وہ قیامت کے دن سخت بوجھ اٹھائے گا،
101. وہ اس (عذاب) میں ہمیشہ (پڑے) رہیں گے، اور ان کے لئے قیامت کے دن بہت ہی بُرا بوجھ ہوگا،
102. جس دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن ہم مجرموں کو یوں جمع کریں گے کہ ان کے جسم اور آنکھیں (شدّتِ خوف اور اندھے پن کے باعث) نیلگوں ہوں گی،
103. آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے ہوں گے کہ تم دنیا میں مشکل سے دس دن ہی ٹھہرے ہوگے،
104. ہم خوب جانتے ہیں وہ جو کچھ کہہ رہے ہوں گے جبکہ ان میں سے ایک عقل و عمل میں بہتر شخص کہے گا کہ تم تو ایک دن کے سوا (دنیا میں) ٹھہرے ہی نہیں ہو،
105. اور آپ سے یہ لوگ پہاڑوں کی نسبت سوال کرتے ہیں، سو فرمادیجئے: میرا رب انہیں ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے گا،
106. پھر اسے ہموار اور بے آب و گیاہ زمین بنا دے گا،
107. جس میں آپ نہ کوئی پستی دیکھیں گے نہ کوئی بلندی،
108. اس دن لوگ پکارنے والے کے پیچھے چلتے جائیں گے اس (کے پیچھے چلنے) میں کوئی کجی نہیں ہوگی، اور (خدائے) رحمان کے جلال سے سب آوازیں پست ہوجائیں گی پس تم ہلکی سی آہٹ کے سوا کچھ نہ سنوگے،
109. اس دن سفارش سود مند نہ ہوگی سوائے اس شخص (کی سفارش) کے جسے (خدائے) رحمان نے اذن (و اجازت) دے دی ہے اور جس کی بات سے وہ راضی ہوگیا ہے (جیسا کہ انبیاء و مرسلین، اولیاء، متقین، معصوم بچوں اور دیگر کئی بندوں کا شفاعت کرنا ثابت ہے)،
110. وہ ان (سب چیزوں) کو جانتا ہے جو ان کے آگے ہیں اور جو ان کے پیچھے ہیں اور وہ (اپنے) علم سے اس (کے علم) کا احاطہ نہیں کرسکتے،
111. اور (سب) چہرے اس ہمیشہ زندہ (اور) قائم رہنے والے (رب) کے حضور جھک جائیں گے، اور بیشک وہ شخص نامراد ہوگا جس نے ظلم کا بوجھ اٹھا لیا،
112. اور جو شخص نیک عمل کرتا ہے اور وہ صاحبِ ایمان بھی ہے تو اسے نہ کسی ظلم کا خوف ہوگا اور نہ نقصان کا،
113. اور اسی طرح ہم نے اس (آخری وحی) کو عربی زبان میں (بشکلِ) قرآن اتارا ہے اور ہم نے اس میں (عذاب سے) ڈرانے کی باتیں بار بار (مختلف طریقوں سے) بیان کی ہیں تاکہ وہ پرہیزگار بن جائیں یا (یہ قرآن) ان (کے دلوں) میں یادِ (آخرت یا قبولِ نصیحت کا جذبہ) پیدا کردے،
114. پس اللہ بلند شان والا ہے وہی بادشاہِ حقیقی ہے، اور آپ قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کریں قبل اس کے کہ اس کی وحی آپ پر پوری اتر جائے، اور آپ (رب کے حضور یہ) عرض کیا کریں کہ اے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے،
115. اور درحقیقت ہم نے اس سے (بہت) پہلے آدم (علیہ السلام) کو تاکیدی حکم فرمایا تھا سو وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں بالکل (نافرمانی کا کوئی) ارادہ نہیں پایا (یہ محض ایک بھول تھی)،
116. اور (وہ وقت یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا: تم آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا،
117. پھر ہم نے فرمایا: اے آدم! بیشک یہ (شیطان) تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، سو یہ کہیں تم دونوں کو جنت سے نکلوا نہ دے پھر تم مشقت میں پڑ جاؤ گے،
118. بیشک تمہارے لئے اس (جنت) میں یہ (راحت) ہے کہ تمہیں نہ بھوک لگے گی اور نہ برہنہ ہوگے،
119. اور یہ کہ تمہیں نہ یہاں پیاس لگے گی اور نہ دھوپ ستائے گی،
120. پس شیطان نے انہیں (ایک) خیال دلا دیا وہ کہنے لگا: اے آدم! کیا میں تمہیں (قربِ الٰہی کی جنت میں) دائمی زندگی بسر کرنے کا درخت بتا دوں اور (ایسی ملکوتی) بادشاہت (کا راز) بھی جسے نہ زوال آئے گا نہ فنا ہوگی،
121. سو دونوں نے (اس مقامِ قربِ الٰہی کی لازوال زندگی کے شوق میں) اس درخت سے پھل کھا لیا پس ان پر ان کے مقام ہائے سَتَر ظاہر ہو گئے اور دونوں اپنے (بدن) پر جنت (کے درختوں) کے پتے چپکانے لگے اور آدم (علیہ السلام) سے اپنے رب کے حکم (کو سمجھنے) میں فروگذاشت ہوئی٭ سو وہ (جنت میں دائمی زندگی کی) مراد نہ پا سکے، ٭ (کہ ممانعت مخصوص ایک درخت کی تھی یا اس کی پوری نوع کی تھی، کیونکہ آپ علیہ السلام نے پھل اس مخصوص درخت کا نہیں کھایا تھا بلکہ اسی نوع کے دوسرے درخت سے کھایا تھا، یہ سمجھ کر کہ شاید ممانعت اسی ایک درخت کی تھی۔)
122. پھر ان کے رب نے انہیں (اپنی قربت و نبوت کے لئے) چن لیا اور ان پر (عفو و رحمت کی خاص) توجہ فرمائی اور منزلِ مقصود کی راہ دکھا دی،
123. ارشاد ہوا: تم یہاں سے سب کے سب اتر جاؤ، تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے، پھر جب میری جانب سے تمہارے پاس کوئی ہدایت (وحی) آجائے سو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا تو وہ نہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدنصیب ہوگا،
124. اور جس نے میرے ذکر (یعنی میری یاد اور نصیحت) سے روگردانی کی تو اس کے لئے دنیاوی معاش (بھی) تنگ کردیا جائے گا اور ہم اسے قیامت کے دن (بھی) اندھا اٹھائیں گے،
125. وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے (آج) اندھا کیوں اٹھایا حالانکہ میں (دنیا میں) بینا تھا،
126. ارشاد ہوگا: ایسا ہی (ہوا کہ دنیا میں) تیرے پاس ہماری نشانیاں آئیں پس تو نے انہیں بھلا دیا اور آج اسی طرح تو (بھی) بھلا دیا جائے گا،
127. اور اسی طرح ہم اس شخص کو بدلہ دیتے ہیں جو (گناہوں میں) حد سے نکل جائے اور اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لائے، اور بیشک آخرت کا عذاب بڑا ہی سخت اور ہمیشہ رہنے والا ہے،
128. کیا انہیں (اس بات نے) ہدایت نہ دی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی ہی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کی رہائش گاہوں میں (اب) یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں، بیشک اس میں دانش مندوں کے لئے (بہت سی) نشانیاں ہیں،
129. اور اگر آپ کے رب کی جانب سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی اور (ان کے عذاب کے لئے قیامت کا) وقت مقرر نہ ہوتا تو (ان پر عذاب کا ابھی اترنا) لازم ہو جاتا،
130. پس آپ ان کی (دل آزار) باتوں پر صبر فرمایا کریں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیا کریں طلوعِ آفتاب سے پہلے (نمازِ فجر میں) اور اس کے غروب سے قبل (نمازِ عصر میں)، اور رات کی ابتدائی ساعتوں میں (یعنی مغرب اور عشاء میں) بھی تسبیح کیا کریں اور دن کے کناروں پر بھی (نمازِ ظہر میں جب دن کا نصفِ اوّل ختم اور نصفِ ثانی شروع ہوتا ہے، (اے حبیبِ مکرّم! یہ سب کچھ اس لئے ہے) تاکہ آپ راضی ہو جائیں،
131. اور آپ دنیوی زندگی میں زیب و آرائش کی ان چیزوں کی طرف حیرت و تعجب کی نگاہ نہ فرمائیں جو ہم نے (کافر دنیاداروں کے) بعض طبقات کو (عارضی) لطف اندوزی کے لئے دے رکھی ہیں تاکہ ہم ان (ہی چیزوں) میں ان کے لئے فتنہ پیدا کر دیں، اور آپ کے رب کی (اخروی) عطا بہتر اور ہمیشہ باقی رہنے والی ہے،
132. اور آپ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم فرمائیں اور اس پر ثابت قدم رہیں، ہم آپ سے رزق طلب نہیں کرتے (بلکہ) ہم آپ کو رزق دیتے ہیں، اور بہتر انجام پرہیزگاری کا ہی ہے،
133. اور (کفار) کہتے ہیں کہ یہ (رسول) ہمارے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے، کیا ان کے پاس ان باتوں کا واضح ثبوت (یعنی قرآن) نہیں آگیا جو اگلی کتابوں میں (مذکور) تھیں،
134. اور اگر ہم ان لوگوں کو اس سے پہلے (ہی) کسی عذاب کے ذریعہ ہلاک کرڈالتے تو یہ کہتے: اے ہمارے رب! تو نے ہمارے پاس کسی رسول کو کیوں نہ بھیجا کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرلیتے اس سے قبل کہ ہم ذلیل اور رسوا ہوتے،
135. فرما دیجئے: ہر کوئی منتظر ہے، سو تم انتظار کرتے رہو، پس تم جلد ہی جان لوگے کہ کون لوگ راہِ راست والے ہیں اور کون ہدایت یافتہ ہیں،