1. الف، لام، را (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)، یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں،
2. بیشک ہم نے اس کتاب کو قرآن کی صورت میں بزبانِ عربی اتارا تاکہ تم (اسے براہِ راست) سمجھ سکو،
3. (اے حبیب!) ہم آپ سے ایک بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اس قرآن کے ذریعہ جسے ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے، اگرچہ آپ اس سے قبل (اس قصہ سے) بے خبر تھے،
4. (وہ قصّہ یوں ہے) جب یوسف (علیہ السلام) نے اپنے باپ سے کہا: اے میرے والد گرامی! میں نے (خواب میں) گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے،
5. انہوں نے کہا: اے میرے بیٹے! اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا، ورنہ وہ تمہارے خلاف کوئی پُر فریب چال چلیں گے۔ بیشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے،
6. اسی طرح تمہارا رب تمہیں (بزرگی کے لئے) منتخب فرما لے گا اور تمہیں باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی خوابوں کی تعبیر کا علم) سکھائے گا اور تم پر اور اولادِ یعقوب پر اپنی نعمت تمام فرمائے گا جیسا کہ اس نے اس سے قبل تمہارے دونوں باپ (یعنی پردادا اور دادا) ابراہیم اور اسحاق (علیھما السلام) پر تمام فرمائی تھی۔ بیشک تمہارا رب خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
7. بیشک یوسف (علیہ السلام) اور ان کے بھائیوں (کے واقعہ) میں پوچھنے والوں کے لئے (بہت سی) نشانیاں ہیں،
8. (وہ وقت یاد کیجئے) جب یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا کہ واقعی یوسف (علیہ السلام) اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم (دس افراد پر مشتمل) زیادہ قوی جماعت ہیں۔ بیشک ہمارے والد (ان کی محبت کی) کھلی وارفتگی میں گم ہیں،
9. (اب یہی حل ہے کہ) تم یوسف (علیہ السلام) کو قتل کر ڈالو یا دور کسی غیر معلوم علاقہ میں پھینک آؤ (اس طرح) تمہارے باپ کی توجہ خالصتًا تمہاری طرف ہو جائے گی اور اس کے بعد تم (توبہ کر کے) صالحین کی جماعت بن جانا،
10. ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو قتل مت کرو اور اسے کسی تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دو اسے کوئی راہ گیر مسافر اٹھا لے جائے گا اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو (تو یہ کرو)،
11. انہوں نے کہا: اے ہمارے باپ! آپ کو کیا ہوگیا ہے آپ یوسف (علیہ السلام) کے بارے میں ہم پر اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم یقینی طور پر اس کے خیر خواہ ہیں،
12. آپ اسے کل ہمارے ساتھ بھیج دیجئے وہ خوب کھائے اور کھیلے اور بیشک ہم اس کے محافظ ہیں،
13. انہوں نے کہا: بیشک مجھے یہ خیال مغموم کرتا ہے کہ تم اسے لے جاؤ اور میں (اس خیال سے بھی) خوف زدہ ہوں کہ اسے بھیڑیا کھا جائے اور تم اس (کی حفاظت) سے غافل رہو،
14. وہ بولے: اگر اسے بھیڑیا کھا جائے حالانکہ ہم ایک قوی جماعت بھی (موجود) ہوں تو ہم تو بالکل ناکارہ ہوئے،
15. پھر جب وہ اسے لے گئے اور سب اس پر متفق ہوگئے کہ اسے تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں تب ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی: (اے یوسف! پریشان نہ ہونا ایک وقت آئے گا) کہ تم یقینًا انہیں ان کا یہ کام جتلاؤ گے اور انہیں (تمہارے بلند رتبہ کا) شعور نہیں ہوگا،
16. اور وہ (یوسف علیہ السلام کو کنویں میں پھینک کر) اپنے باپ کے پاس رات کے وقت (مکاری کا رونا) روتے ہوئے آئے،
17. کہنے لگے: اے ہمارے باپ! ہم لوگ دوڑ میں مقابلہ کرنے چلے گئے اور ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے بھیڑئیے نے کھا لیا، اور آپ (تو) ہماری بات کا یقین (بھی) نہیں کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوں،
18. اور وہ اس کے قمیض پر جھوٹا خون (بھی) لگا کر لے آئے، (یعقوب علیہ السلام نے) کہا: (حقیقت یہ نہیں ہے) بلکہ تمہارے (حاسد) نفسوں نے ایک (بہت بڑا) کام تمہارے لئے آسان اور خوشگوار بنا دیا (جو تم نے کر ڈالا)، پس (اس حادثہ پر) صبر ہی بہتر ہے، اور اﷲ ہی سے مدد چاہتا ہوں اس پر جو کچھ تم بیان کر رہے ہو،
19. اور (ادھر) راہ گیروں کا ایک قافلہ آپہنچا تو انہوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا سو اس نے اپنا ڈول (اس کنویں میں) لٹکایا، وہ بول اٹھا: خوشخبری ہو یہ ایک لڑکا ہے، اور انہوں نے اسے قیمتی سامانِ تجارت سمجھتے ہوئے چھپا لیا، اور اﷲ ان کاموں کو جو وہ کر رہے تھے خوب جاننے والا ہے،
20. اور یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے (جو موقع پر آگئے تھے اسے اپنا بھگوڑا غلام کہہ کر انہی کے ہاتھوں) بہت کم قیمت گنتی کے چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا کیونکہ وہ راہ گیر اس (یوسف علیہ السلام کے خریدنے) کے بارے میں (پہلے ہی) بے رغبت تھے (پھر راہ گیروں نے اسے مصر لے جا کر بیچ دیا)،
21. اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا تھا (اس کا نام قطفیر تھا اور وہ بادشاہِ مصر ریان بن ولید کا وزیر خزانہ تھا اسے عرف عام میں عزیزِ مصر کہتے تھے) اس نے اپنی بیوی (زلیخا) سے کہا: اسے عزت و اکرام سے ٹھہراؤ! شاید یہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں، اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو زمین (مصر) میں استحکام بخشا اور یہ اس لئے کہ ہم اسے باتوں کے انجام تک پہنچنا (یعنی علمِ تعبیرِ رؤیا) سکھائیں، اور اﷲ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
22. اور جب وہ اپنے کمالِ شباب کو پہنچ گیا (تو) ہم نے اسے حکمِ (نبوت) اور علمِ (تعبیر) عطا فرمایا، اور اسی طرح ہم نیکوکاروں کو صلہ بخشا کرتے ہیں،
23. اور اس عورت (زلیخا) نے جس کے گھر وہ رہتے تھے آپ سے آپ کی ذات کی شدید خواہش کی اور اس نے دروازے (بھی) بند کر دیئے اور کہنے لگی: جلدی آجاؤ (میں تم سے کہتی ہوں)۔ یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ! بیشک وہ (جو تمہارا شوہر ہے) میرا مربّی ہے اس نے مجھے بڑی عزت سے رکھا ہے۔ بیشک ظالم لوگ فلاح نہیں پائیں گے،
24. (یوسف علیہ السلام نے انکار کر دیا) اور بیشک اس (زلیخا) نے (تو) ان کا ارادہ کر (ہی) لیا تھا، (شاید) وہ بھی اس کا قصد کر لیتے اگر انہوں نے اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھا ہوتا۔٭ اس طرح (اس لئے کیا گیا) کہ ہم ان سے تکلیف اور بے حیائی (دونوں) کو دور رکھیں، بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے (برگزیدہ) بندوں میں سے تھے، ٭ (یا انہوں نے بھی اس کو طاقت سے دور کرنے کا قصد کر لیا تھا۔ اگر وہ اپنے رب کی روشن دلیل کو نہ دیکھ لیتے تو اپنے دفاع میں سختی کر گزرتے اور ممکن ہے اس دوران ان کا قمیض آگے سے پھٹ جاتا جو بعد ازاں ان کے خلاف شہادت اور وجہ تکلیف بنتا، سو اﷲ کی نشانی نے انہیں سختی کرنے سے روک دیا۔)
25. اور دونوں دروازے کی طرف (آگے پیچھے) دوڑے اور اس (زلیخا) نے ان کا قمیض پیچھے سے پھاڑ ڈالا اور دونوں نے اس کے خاوند (عزیزِ مصر) کو دروازے کے قریب پا لیا وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) درد ناک عذاب (دیا جائے)،
26. یوسف (علیہ السلام) نے کہا: (نہیں بلکہ) اس نے خود مجھ سے مطلب براری کے لئے مجھے پھسلانا چاہا اور (اتنے میں خود) اس کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے (جو شیر خوار بچہ تھا) گواہی دی کہ اگر اس کا قمیض آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹوں میں سے ہے،
27. اور اگر اس کا قمیض پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ جھوٹی ہے اور وہ سچوں میں سے ہے،
28. پھر جب اس (عزیزِ مصر) نے ان کا قمیض دیکھا (کہ) وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا تو اس نے کہا: بیشک یہ تم عورتوں کا فریب ہے۔ یقیناً تم عورتوں کا فریب بڑا (خطرناک) ہوتا ہے،
29. اے یوسف! تم اس بات سے درگزر کرو اور (اے زلیخا!) تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بیشک تو ہی خطاکاروں میں سے تھی،
30. اور شہر میں (اُمراء کی) کچھ عورتوں نے کہنا (شروع) کر دیا کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام کو اس سے مطلب براری کے لئے پھسلاتی ہے، اس (غلام) کی محبت اس کے دل میں گھر کر گئی ہے، بیشک ہم اسے کھلی گمراہی میں دیکھ رہی ہیں،
31. پس جب اس (زلیخا) نے ان کی مکارانہ باتیں سنیں (تو) انہیں بلوا بھیجا اور ان کے لئے مجلس آراستہ کی (پھر ان کے سامنے پھل رکھ دیئے) اور ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری دے دی اور (یوسف علیہ السلام سے) درخواست کی کہ ذرا ان کے سامنے سے (ہوکر) نکل جاؤ (تاکہ انہیں بھی میری کیفیت کا سبب معلوم ہو جائے)، سو جب انہوں نے یوسف (علیہ السلام کے حسنِ زیبا) کو دیکھا تو اس (کے جلوۂ جمال) کی بڑائی کرنے لگیں اور وہ (مدہوشی کے عالم میں پھل کاٹنے کے بجائے) اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور (دیکھ لینے کے بعد بے ساختہ) بول اٹھیں: اﷲ کی پناہ! یہ تو بشر نہیں ہے، یہ تو بس کوئی برگزیدہ فرشتہ (یعنی عالمِ بالا سے اترا ہوا نور کا پیکر) ہے،
32. (زلیخا کی تدبیر کامیاب ہوگئی تب) وہ بولی: یہی وہ (پیکرِ نور) ہے جس کے بارے میں تم مجھے ملامت کرتی تھیں اور بیشک میں نے ہی (اپنی خواہش کی شدت میں) اسے پھسلانے کی کوشش کی مگر وہ سراپا عصمت ہی رہا، اور اگر (اب بھی) اس نے وہ نہ کیا جو میں اسے کہتی ہوں تو وہ ضرور قید کیا جائے گا اور وہ یقینًا بے آبرو کیا جائے گا،
33. (اب زنانِ مصر بھی زلیخا کی ہم نوا بن گئی تھیں) یوسف (علیہ السلام) نے (سب کی باتیں سن کر) عرض کیا: اے میرے رب! مجھے قید خانہ اس کام سے کہیں زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو نے ان کے مکر کو مجھ سے نہ پھیرا تو میں ان کی (باتوں کی) طرف مائل ہو جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہو جاؤں گا،
34. سو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی اور عورتوں کے مکر و فریب کو ان سے دور کر دیا۔ بیشک وہی خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے،
35. پھر انہیں (یوسف علیہ السلام کی پاک بازی کی) نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی یہی مناسب معلوم ہوا کہ اسے ایک مدت تک قید کر دیں (تاکہ عوام میں اس واقعہ کا چرچا ختم ہو جائے)،
36. اور ان کے ساتھ دو جوان بھی قید خانہ میں داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں (انگور سے) شراب نچوڑ رہا ہوں، اور دوسرے نے کہا: میں نے اپنے آپ کو (خواب میں) دیکھا ہے کہ میں اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں، اس میں سے پرندے کھا رہے ہیں۔ (اے یوسف!) ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، بیشک ہم آپ کو نیک لوگوں میں سے دیکھ رہے ہیں،
37. یوسف (علیہ السلام) نے کہا: جو کھانا (روز) تمہیں کھلایا جاتا ہے وہ تمہارے پاس آنے بھی نہ پائے گا کہ میں تم دونوں کو اس کی تعبیر تمہارے پاس اس کے آنے سے قبل بتا دوں گا، یہ (تعبیر) ان علوم میں سے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائے ہیں۔ بیشک میں نے اس قوم کا مذہب (شروع ہی سے) چھوڑ رکھا ہے جو اﷲ پر ایمان نہیں لاتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں،
38. اور میں نے تو اپنے باپ دادا، ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب (علیھم السلام) کے دین کی پیروی کر رکھی ہے، ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم کسی چیز کو بھی اﷲ کے ساتھ شریک ٹھہرائیں، یہ (توحید) ہم پر اور لوگوں پر اﷲ کا (خاص) فضل ہے لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے،
39. اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! (بتاؤ) کیا الگ الگ بہت سے معبود بہتر ہیں یا ایک اﷲ جو سب پر غالب ہے،
40. تم (حقیقت میں) اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ہو مگر چند ناموں کی جو خود تم نے اور تمہارے باپ دادا نے (اپنے پاس سے) رکھ لئے ہیں، اﷲ نے ان کی کوئی سند نہیں اتاری۔ حکم کا اختیار صرف اﷲ کو ہے، اسی نے حکم فرمایا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی سیدھا راستہ (درست دین) ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے،
41. اے میرے قید خانہ کے دونوں ساتھیو! تم میں سے ایک (کے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ وہ) اپنے مربّی (یعنی بادشاہ) کو شراب پلایا کرے گا، اور رہا دوسرا (جس نے سر پر روٹیاں دیکھی ہیں) تو وہ پھانسی دیا جائے گا پھر پرندے اس کے سر سے (گوشت نوچ کر) کھائیں گے، (قطعی) فیصلہ کر دیا گیا جس کے بارے میں تم دریافت کرتے ہو،
42. اور یوسف (علیہ السلام) نے اس شخص سے کہا جسے ان دونوں میں سے رہائی پانے والا سمجھا کہ اپنے بادشاہ کے پاس میرا ذکر کر دینا (شاید اسے یاد آجائے کہ ایک اور بے گناہ بھی قید میں ہے) مگر شیطان نے اسے اپنے بادشاہ کے پاس (وہ) ذکر کرنا بھلا دیا نتیجۃً یوسف (علیہ السلام) کئی سال تک قید خانہ میں ٹھہرے رہے،
43. اور (ایک روز) بادشاہ نے کہا: میں نے (خواب میں) سات موٹی تازی گائیں دیکھی ہیں، انہیں سات دبلی پتلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے (دیکھے) ہیں اور دوسرے (سات ہی) خشک، اے درباریو! مجھے میرے خواب کا جواب بیان کرو اگر تم خواب کی تعبیر جانتے ہو،
44. انہوں نے کہا: (یہ) پریشاں خوابیں ہیں، اور ہم پریشاں خوابوں کی تعبیر نہیں جانتے،
45. اور وہ شخص جو ان دونوں میں سے رہائی پا چکا تھا بولا، اور (اب) اسے ایک مدت کے بعد (یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا ہوا وعدہ) یاد آگیا: میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا سو تم مجھے (یوسف علیہ السلام کے پاس) بھیجو،
46. (وہ قید خانہ میں پہنچ کر کہنے لگا:) اے یوسف، اے صدقِ مجسّم! آپ ہمیں (اس خواب کی) تعبیر بتا دیں کہ سات فربہ گائیں ہیں جنہیں سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات سبز خوشے ہیں اور دوسرے سات خشک؛ تاکہ میں (یہ تعبیر لے کر) واپس لوگوں کے پاس جاؤں شاید انہیں (آپ کی قدر و منزلت) معلوم ہو جائے،
47. یوسف (علیہ السلام) نے کہا: تم لوگ دائمی عادت کے مطابق مسلسل سات برس تک کاشت کرو گے سو جو کھیتی تم کاٹا کرو گے اسے اس کے خوشوں (ہی) میں (ذخیرہ کے طور پر) رکھتے رہنا مگر تھوڑا سا (نکال لینا) جسے تم (ہر سال) کھا لو،
48. پھر اس کے بعد سات (سال) بہت سخت (خشک سالی کے) آئیں گے وہ اس (ذخیرہ) کو کھا جائیں گے جو تم ان کے لئے پہلے جمع کرتے رہے تھے مگر تھوڑا سا (بچ جائے گا) جو تم محفوظ کر لوگے،
49. پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو (خوب) بارش دی جائے گی اور (اس سال اس قدر پھل ہوں گے کہ) لوگ اس میں (پھلوں کا) رس نچوڑیں گے،
50. اور (یہ تعبیر سنتے ہی) بادشاہ نے کہا: یوسف (علیہ السلام) کو (فورًا) میرے پاس لے آؤ، پس جب یوسف (علیہ السلام) کے پاس قاصد آیا تو انہوں نے کہا: اپنے بادشاہ کے پاس لوٹ جا اور اس سے (یہ) پوچھ (کہ) ان عورتوں کا (اب) کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے؟ بیشک میرا رب ان کے مکر و فریب کو خوب جاننے والا ہے،
51. بادشاہ نے (زلیخا سمیت عورتوں کو بلا کر) پوچھا: تم پر کیا بیتا تھا جب تم (سب) نے یوسف (علیہ السلام) کو ان کی راست روی سے بہکانا چاہا تھا (بتاؤ وہ معاملہ کیا تھا)؟ وہ سب (بہ یک زبان) بولیں: اﷲ کی پناہ! ہم نے (تو) یوسف (علیہ السلام) میں کوئی برائی نہیں پائی۔ عزیزِ مصر کی بیوی (زلیخا بھی) بول اٹھی: اب تو حق آشکار ہو چکا ہے (حقیقت یہ ہے کہ) میں نے ہی انہیں اپنی مطلب براری کے لئے پھسلانا چاہا تھا اور بیشک وہی سچے ہیں،
52. (یوسف علیہ السلام نے کہا: میں نے) یہ اس لئے (کیا ہے) کہ وہ (عزیزِ مصر جو میرا محسن و مربّی تھا) جان لے کہ میں نے اس کی غیابت میں (پشت پیچھے) اس کی کوئی خیانت نہیں کی اور بیشک اﷲ خیانت کرنے والوں کے مکر و فریب کو کامیاب نہیں ہونے دیتا،
53. اور میں اپنے نفس کی برات (کا دعوٰی) نہیں کرتا، بیشک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بیشک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
54. اور بادشاہ نے کہا: انہیں میرے پاس لے آؤ کہ میں انہیں اپنے لئے (مشیرِ) خاص کر لوں، سو جب بادشاہ نے آپ سے (بالمشافہ) گفتگو کی (تو نہایت متاثر ہوا اور) کہنے لگا: (اے یوسف!) بیشک آپ آج سے ہمارے ہاں مقتدر (اور) معتمد ہیں (یعنی آپ کو اقتدار میں شریک کر لیا گیا ہے)،
55. یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بیشک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں،
56. اور اس طرح ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو ملک (مصر) میں اقتدار بخشا (تاکہ) اس میں جہاں چاہیں رہیں۔ ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت سے سرفراز فرماتے ہیں اور نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتے،
57. اور یقیناً آخرت کا اجر ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو ایمان لائے اور روشِ تقوٰی پر گامزن رہے،
58. اور (قحط کے زمانہ میں) یوسف (علیہ السلام) کے بھائی (غلہ لینے کے لئے مصر) آئے تو ان کے پاس حاضر ہوئے پس یوسف (علیہ السلام) نے انہیں پہچان لیا اور وہ انہیں نہ پہچان سکے،
59. اور جب یوسف (علیہ السلام) نے ان کا سامان (زاد و متاع) انہیں مہیا کر دیا (تو) فرمایا: اپنے پدری بھائی (بنیامین) کو میرے پاس لے آؤ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں (کس قدر) پورا ناپتا ہوں اور میں بہترین مہمان نواز (بھی) ہوں،
60. پس اگر تم اسے میرے پاس نہ لائے تو (آئندہ) تمہارے لئے میرے پاس (غلہ کا) کوئی پیمانہ نہ ہوگا اور نہ (ہی) تم میرے قریب آسکو گے،
61. وہ بولے: ہم اس کے بھیجنے سے متعلق اس کے باپ سے ضرور تقاضا کریں گے اور ہم یقیناً (ایسا) کریں گے،
62. اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے غلاموں سے فرمایا: ان کی رقم (جو انہوں نے غلہ کے عوض اد اکی تھی واپس) ان کی بوریوں میں رکھ دو تاکہ جب وہ اپنے گھر والوں کی طرف لوٹیں تو اسے پہچان لیں (کہ یہ رقم تو واپس آگئی ہے) شاید وہ (اسی سبب سے) لوٹ کر آجائیں،
63. سو جب وہ اپنے والد کی طرف لوٹے (تو) کہنے لگے: اے ہمارے باپ! (آئندہ کے لئے) ہم پر غلہ بند کر دیا گیا ہے (سوائے اس کے کہ بنیامین ہمارے ساتھ جائے) پس ہمارے بھائی (بنیامین) کو ہمارے ساتھ بھیج دیں (تاکہ) ہم (مزید) غلہ لے آئیں اور ہم یقیناً اس کے محافظ ہوں گے،
64. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں اس کے بارے میں (بھی) تم پر اسی طرح اعتماد کر لوں جیسے اس سے قبل میں نے اس کے بھائی (یوسف علیہ السلام) کے بارے میں تم پر اعتماد کر لیا تھا؟ تو اﷲ ہی بہتر حفاظت فرمانے والا ہے اور وہی سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے،
65. جب انہوں نے اپنا سامان کھولا (تو اس میں) اپنی رقم پائی (جو) انہیں لوٹا دی گئی تھی، وہ کہنے لگے: اے ہمارے والد گرامی! ہمیں اور کیا چاہئے؟ یہ ہماری رقم (بھی) ہماری طرف لوٹا دی گئی ہے اور (اب تو) ہم اپنے گھر والوں کے لئے (ضرور ہی) غلہ لائیں گے اور ہم اپنے بھائی کی حفاظت کریں گے اور ایک اونٹ کا بوجھ اور زیادہ لائیں گے، اور یہ (غلہ جو ہم پہلے لائے ہیں) تھوڑی مقدار (میں) ہے،
66. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں اسے ہرگز تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا یہاں تک کہ تم اﷲ کی قسم کھا کر مجھے پختہ وعدہ دو کہ تم اسے ضرور میرے پاس (واپس) لے آؤ گے سوائے اس کے کہ تم (سب) کو (کہیں) گھیر لیا جائے (یا ہلاک کر دیا جائے)، پھر جب انہوں نے یعقوب (علیہ السلام) کو اپنا پختہ عہد دے دیا تو یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس پر اﷲ نگہبان ہے،
67. اور فرمایا: اے میرے بیٹو! (شہر میں) ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے (تقسیم ہو کر) داخل ہونا، اور میں تمہیں اﷲ (کے اَمر) سے کچھ نہیں بچا سکتا کہ حکم (تقدیر) صرف اﷲ ہی کے لئے ہے۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے،
68. اور جب وہ (مصر میں) داخل ہوئے جس طرح ان کے باپ نے انہیں حکم دیا تھا، وہ (حکم) انہیں اﷲ (کی تقدیر) سے کچھ نہیں بچا سکتا تھا مگر یہ یعقوب (علیہ السلام) کے دل کی ایک خواہش تھی جسے اس نے پورا کیا، اور (اس خواہش و تدبیر کو لغو بھی نہ سمجھنا، تمہیں کیا خبر!) بیشک یعقوب (علیہ السلام) صاحبِ علم تھے اس وجہ سے کہ ہم نے انہیں علمِ (خاص) سے نوازا تھا مگر اکثر لوگ (ان حقیقتوں کو) نہیں جانتے،
69. اور جب وہ یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی (بنیامین) کو اپنے پاس جگہ دی (اسے آہستہ سے) کہا: بیشک میں ہی تیرا بھائی (یوسف) ہوں پس تو غمزدہ نہ ہو ان کاموں پر جو یہ کرتے رہے ہیں،
70. پھر جب (یوسف علیہ السلام نے) ان کا سامان انہیں مہیا کر دیا تو (شاہی) پیالہ اپنے بھائی (بنیامین) کی بوری میں رکھ دیا بعد ازاں پکارنے والے نے آواز دی: اے قافلہ والو! (ٹھہرو) یقیناً تم لوگ ہی چور (معلوم ہوتے) ہو،
71. وہ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگے: تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے،
72. وہ (درباری ملازم) بولے: ہمیں بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا اور جو کوئی اسے (ڈھونڈ کر) لے آئے اس کے لئے ایک اونٹ کا غلہ (انعام) ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں،
73. وہ کہنے لگے: اﷲ کی قسم! بیشک تم جان گئے ہو (گے) ہم اس لئے نہیں آئے تھے کہ (جرم کا ارتکاب کر کے) زمین میں فساد بپا کریں اور نہ ہی ہم چور ہیں،
74. وہ (ملازم) بولے: (تم خود ہی بتاؤ) کہ اس (چور) کی کیا سزا ہوگی اگر تم جھوٹے نکلے،
75. انہوں نے کہا: اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان میں سے وہ (پیالہ) برآمد ہو وہ خود ہی اس کا بدلہ ہے (یعنی اسی کو اس کے بدلہ میں رکھ لیا جائے)، ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں،
76. پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہِ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے،
77. انہوں نے کہا: اگر اس نے چوری کی ہے (تو کوئی تعجب نہیں) بیشک اس کا بھائی (یوسف) بھی اس سے پہلے چوری کر چکا ہے، سو یوسف (علیہ السلام) نے یہ بات اپنے دل میں (چھپائی) رکھی اور اسے ان پر ظاہر نہ کیا، (دل میں ہی) کہا: تمہارا حال نہایت برا ہے، اور اﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم بیان کر رہے ہو،
78. وہ بولے: اے عزیزِ مصر! اس کے والد بڑے معمر بزرگ ہیں، آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو پکڑ لیں، بیشک ہم آپ کو احسان کرنے والوں میں پاتے ہیں،
79. یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اﷲ کی پناہ کہ ہم نے جس کے پاس اپنا سامان پایا اس کے سوا کسی (اور) کو پکڑ لیں تب تو ہم ظالموں میں سے ہو جائیں گے،
80. پھر جب وہ یوسف (علیہ السلام) سے مایوس ہوگئے تو علیحدگی میں (باہم) سرگوشی کرنے لگے، ان کے بڑے (بھائی) نے کہا: کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اﷲ کی قسم اٹھوا کر پختہ وعدہ لیا تھا اور اس سے پہلے تم یوسف کے حق میں جو زیادتیاں کر چکے ہو (تمہیں وہ بھی معلوم ہیں)، سو میں اس سرزمین سے ہرگز نہیں جاؤں گا جب تک مجھے میرا باپ اجازت (نہ) دے یا میرے لئے اﷲ کوئی فیصلہ فرما دے، اور وہ سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے،
81. تم اپنے باپ کی طرف لوٹ جاؤ پھر (جا کر) کہو: اے ہمارے باپ! بیشک آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے (اس لئے وہ گرفتار کر لیا گیا) اور ہم نے فقط اسی بات کی گواہی دی تھی جس کا ہمیں علم تھا اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے،
82. اور (اگر آپ کو اعتبار نہ آئے تو) اس بستی (والوں) سے پوچھ لیں جس میں ہم تھے اور اس قافلہ (والوں) سے (معلوم کر لیں) جس میں ہم آئے ہیں، اور بیشک ہم (اپنے قول میں) یقیناً سچے ہیں،
83. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: (ایسا نہیں) بلکہ تمہارے نفسوں نے یہ بات تمہارے لئے مرغوب بنا دی ہے، اب صبر (ہی) اچھا ہے، قریب ہے کہ اﷲ ان سب کو میرے پاس لے آئے، بیشک وہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے،
84. اور یعقوب (علیہ السلام) نے ان سے منہ پھیر لیا اور کہا: ہائے افسوس! یوسف (علیہ السلام کی جدائی) پر اور ان کی آنکھیں غم سے سفید ہوگئیں سو وہ غم کو ضبط کئے ہوئے تھے،
85. وہ بولے: اﷲ کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف (ہی) کو یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ آپ قریب مرگ ہو جائیں گے یا آپ وفات پا جائیں گے،
86. انہوں نے فرمایا: میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اﷲ کے حضور کرتا ہوں اور میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
87. اے میرے بیٹو! جاؤ (کہیں سے) یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی کی خبر لے آؤ اور اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اﷲ کی رحمت سے صرف وہی لوگ مایوس ہوتے ہیں جو کافر ہیں،
88. سو جب وہ (دوبارہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس حاضر ہوئے تو کہنے لگے: اے عزیزِ مصر! ہم پر اور ہمارے گھر والوں پر مصیبت آن پڑی ہے (ہم شدید قحط میں مبتلا ہیں) اور ہم (یہ) تھوڑی سی رقم لے کر آئے ہیں سو (اس کے بدلے) ہمیں (غلہ کا) پورا پورا ناپ دے دیں اور (اس کے علاوہ) ہم پر (کچھ) صدقہ (بھی) کر دیں۔ بیشک اﷲ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے،
89. یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا (سلوک) کیا تھا کیا تم (اس وقت) نادان تھے،
90. وہ بولے: کیا واقعی تم ہی یوسف ہو؟ انہوں نے فرمایا: (ہاں) میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے بیشک اﷲ نے ہم پر احسان فرمایا ہے، یقیناً جو شخص اﷲ سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو بیشک اﷲ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا،
91. وہ بول اٹھے: اﷲ کی قسم! بیشک اﷲ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی ہے اور یقیناً ہم ہی خطاکار تھے،
92. یوسف (علیہ السلام) نے فرمایا: آج کے دن تم پر کوئی ملامت (اور گرفت) نہیں ہے، اﷲ تمہیں معاف فرما دے اور وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے،
93. میرا یہ قمیض لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے، اور (پھر) اپنے سب گھر والوں کو میرے پاس لے آؤ،
94. اور جب قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا ان کے والد (یعقوب علیہ السلام) نے (کنعان میں بیٹھے ہی) فرما دیا: بیشک میں یوسف کی خوشبو پا رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کے باعث بہکا ہوا خیال نہ کرو،
95. وہ بولے: اﷲ کی قسم یقیناً آپ اپنی (اسی) پرانی محبت کی خود رفتگی میں ہیں،
96. پھر جب خوشخبری سنانے والا آپہنچا اس نے وہ قمیض یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی، یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: کیا میں تم سے نہیں کہتا تھا کہ بیشک میں اﷲ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے،
97. وہ بولے: اے ہمارے باپ! ہمارے لئے (اﷲ سے) ہمارے گناہوں کی مغفرت طلب کیجئے، بیشک ہم ہی خطاکار تھے،
98. یعقوب (علیہ السلام) نے فرمایا: میں عنقریب تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا، بیشک وہی بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے،
99. پھر جب وہ (سب اَفرادِ خانہ) یوسف (علیہ السلام) کے پاس آئے (تو) یوسف (علیہ السلام) نے (شہر سے باہر آکر ہزارہا سواریوں، فوجیوں اور لوگوں کے ہمراہ شاہی جلوس کی صورت میں ان کا استقبال کیا اور) اپنے ماں باپ کو تعظیماً اپنے قریب جگہ دی (یا انہیں اپنے گلے سے لگا لیا) اور (خوش آمدید کہتے ہوئے) فرمایا: آپ مصر میں داخل ہو جائیں اگر اﷲ نے چاہا (تو) امن و عافیت کے ساتھ (یہیں قیام کریں)،
100. اور یوسف (علیہ السلام) نے اپنے والدین کو اوپر تخت پر بٹھا لیا اور وہ (سب) یوسف (علیہ السلام) کے لئے سجدہ میں گر پڑے، اور یوسف (علیہ السلام) نے کہا: اے ابا جان! یہ میرے (اس) خواب کی تعبیر ہے جو (بہت) پہلے آیا تھا (اکثر مفسرین کے نزدیک اسے چالیس سال کا عرصہ گزر گیا تھا) اور بیشک میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا ہے، اور بیشک اس نے مجھ پر (بڑا) احسان فرمایا جب مجھے جیل سے نکالا اور آپ سب کو صحرا سے (یہاں) لے آیا اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد پیدا کر دیا تھا، اور بیشک میرا رب جس چیز کو چاہے (اپنی) تدبیر سے آسان فرما دے، بیشک وہی خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
101. اے میرے رب! بیشک تو نے مجھے سلطنت عطا فرمائی اور تو نے مجھے خوابوں کی تعبیر کے علم سے نوازا، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی)، مجھے حالتِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے،
102. (اے حبیبِ مکرّم!) یہ (قصّہ) غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ کی طرف وحی فرما رہے ہیں، اور آپ (کوئی) ان کے پاس موجود نہ تھے جب وہ (برادرانِ یوسف) اپنی سازشی تدبیر پر جمع ہو رہے تھے اور وہ مکر و فریب کر رہے تھے،
103. اور اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں ہیں اگرچہ آپ (کتنی ہی) خواہش کریں،
104. اور آپ ان سے اس (دعوت و تبلیغ) پر کوئی صلہ تو نہیں مانگتے، یہ قرآن جملہ جہان والوں کے لئے نصیحت ہی تو ہے،
105. اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ ان سے صرفِ نظر کئے ہوئے ہیں،
106. اور ان میں سے اکثر لوگ اﷲ پر ایمان نہیں رکھتے مگر یہ کہ وہ مشرک ہیں،
107. کیا وہ اس بات سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ان پر اﷲ کے عذاب کی چھا جانے والی آفت آجائے یا ان پر اچانک قیامت آجائے اور انہیں خبر بھی نہ ہو،
108. (اے حبیبِ مکرّم!) فرما دیجئے: یہی میری راہ ہے، میں اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر (قائم) ہوں، میں (بھی) اور وہ شخص بھی جس نے میری اتباع کی، اور اﷲ پاک ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں،
109. اور ہم نے آپ سے پہلے بھی (مختلف) بستیوں والوں میں سے مَردوں ہی کو بھیجا تھا جن کی طرف ہم وحی فرماتے تھے، کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ (خود) دیکھ لیتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہوا، اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاری اختیار کرنے والوں کے لئے بہتر ہے، کیا تم عقل نہیں رکھتے،
110. یہاں تک کہ جب پیغمبر (اپنی نافرمان قوموں سے) مایوس ہوگئے اور ان منکر قوموں نے گمان کر لیا کہ ان سے جھوٹ بولا گیا ہے (یعنی ان پر کوئی عذاب نہیں آئے گا) تو ان رسولوں کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جسے چاہا (اسے) نجات بخش دی، اور ہمارا عذاب مجرم قوم سے پھیرا نہیں جاتا،
111. بیشک ان کے قصوں میں سمجھ داروں کے لئے عبرت ہے، یہ (قرآن) ایسا کلام نہیں جو گھڑ لیا جائے بلکہ (یہ تو) ان (آسمانی کتابوں) کی تصدیق ہے جو اس سے پہلے (نازل ہوئی) ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ہے اور ہدایت ہے اور رحمت ہے اس قوم کے لئے جو ایمان لے آئے،